ایک اور چراغ بجھ گیا

تنویر قیصر شاہد  پير 28 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

لیجیے، ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بے شک ہر انسان کو اپنے اللہ ہی کی طرف لَوٹ کر جانا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی ہمیشہ کے لیے واپسی کے راستے پر روانہ ہو گئے۔ وہ رخصت ہوئے ہیں تو ہماری ادبی دنیا اور تحقیق کا میدان بھی ویران ہو گیا ہے۔

لاریب ہم ادب و صحافت کی ایک بڑی شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جانے والے کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔ سائنسی اعتبار سے یہ فقرہ بنیادی طور پر غلط ہے کہ فطرت کائنات میں کسی بھی خالی جگہ کو برداشت ہی نہیں کرتی لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم تو اب سیاسی، علمی، مذہبی اور صحافتی میدانوں میں قابلِ فخر شخصیات سے تیزی کے ساتھ جس طرح محروم ہوتے جا رہے ہیں، یہ خلا نہیں ’’بلیک ہول‘‘ بن رہا ہے۔

یہ بلیک ہول بڑے بڑے انسانوں کو نگل تو رہا ہے لیکن اس کے بطن سے ہمارے لیے کوئی کارآمد شئے، کسی کارآمد وجود کی ولادت نہیں ہو رہی۔ ڈاکٹر صاحب کی رحلت نے ہمیں مزید مفلس، تہی دست اور بے سرمایہ بنا دیا ہے۔  ڈاکٹر انور سدید صاحب، جنہوں نے دنیائے ادب و نقد میں محنت و ریاضت سے اپنی ذات کا لوہا منوایا، نے اپنے عملِ مسلسل سے ثابت کیا کہ تعمیری اور کارآمد زندگی کیا اور کیسی ہوتی ہے۔

زندگی کے آخری ایام تک ہاتھ سے قلم چھوڑا نہ دماغی ریاضت سے دستکش ہوئے۔ کیا یہ تحیر خیز بات نہیں ہے کہ ایک شخص جو بائی پروفیشن انجینئر تھا لیکن اس نے ہماری ادبی دنیا میں ناقابلِ تردید بڑا نام کمایا، یوں کہ ان کی انجینئرنگ کی مہارت اور تعارف کہیں گم ہو گیا لیکن ان کی ادبی و صحافتی اور تصنیفی زندگی عالمی سطح پر چھا گئی اور اسے تسلیم بھی کیا گیا۔ ادبیات کے متنوع موضوعات پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کر کے ڈاکٹر صاحب نے بلا شبہ بلند مقام حاصل کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی قیادت میں انھوں نے اپنے ادبی حریفوں سے جس مجاہدانہ انداز میں چَو مکھی لڑائیاں لڑیں، یہ ادبی محاربے ہماری علمی زندگی کے باب میں ہمیشہ تابندہ اور یادگار رہیں گے۔

یقینا وہ ادب میں گروہ بندی کا حصہ تھے اور ممتاز ادیب و شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی سرکردگی میں رزم آرا بھی رہتے تھے۔ اس میدان کی طرف انھیں ان کے ادبی مخالفین نے دھکیلا جو یہ خیال کیے بیٹھے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ ادب پر ان کی اجارہ داری تسلیم کی جائے۔ جب اس گروہ کی زیادتیاں اور منہ زوریاں حد سے تجاوز کر گئیں تو ڈاکٹر انور سدید صاحب نے آخر کار اس گروہ کو للکارا، چیلنج کیا اور دلائل و براہین سے خم ٹھونک کر میدان کارزار میں اترے۔ کبھی پسپا ہوئے نہ شکست تسلیم کی۔ وسیع مطالعہ، گہری فکر اور غور و تدبر ہی ان کے ہتھیار تھے۔ یہی ان کے تِیر و تفنگ تھے اور یہی ان کی ڈھال تھی۔

ان ’’ہتھیاروں‘‘ کو بروقت بروئے کار لانا بھی وہ خوب جانتے تھے۔ ان کی کمان سے نکلے تِیر ہمیشہ ہدف کو لگے؛ چنانچہ اکثر میدانوں میں سرخرو ہوئے۔ ان کے غنیم کسمسائے بھی اور بلبلائے بھی۔ اتوار کو ٹی وی کی معرفت مجھے ڈاکٹر انور سدید صاحب کی فوتیدگی کی خبر ملی، اس وقت مَیں ڈاکٹر صاحب ہی کی لکھی گئی معرکہ خیز کتاب ’’غلام الثقلین نقوی: شخصیت اور فن‘‘ پڑھ رہا تھا۔ ہماری دیہی زندگی کے پس منظر میں پروفیسر غلام الثقلین نقوی صاحب کے لکھے گئے افسانے اور ناول ہمیشہ یاد رہیں گے۔

نقوی صاحب، ڈاکٹر صاحب کے قریبی دوست بھی تھے اور ادبی زندگی میں ہم نظر بھی۔ لاہور میں دونوں ایک ہی کالونی کے باسی بھی تھے۔ ’’اکادمی ادبیات‘‘ (اسلام آباد) کی نگرانی میں نقوی صاحب پر شایع ہونے والی ڈاکٹر انور سدید صاحب کی یہ کتاب 294 صفحات پر مشتمل ہے۔ نقوی صاحب چھ اپریل 2002ء کو انتقال کر گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے دوستی کا حق یوں ادا کیا کہ اکادمی ادبیات کی درخواست پر یہ شاندار کتاب لکھ دی۔ انھوں نے مجھے یہ کتاب بھجوائی اور اس کے پہلے صفحے پر محبت کے یہ الفاظ تحریر فرمائے تھے: ’’برادرِ عزیز تنویر قیصر شاہد کی خدمت میں خلوص کے ساتھ۔‘‘ نیچے ان کے وہی مشہور اردو کے دستخط، جنھیں مَیں دُور ہی سے پہنچان لیتا ہوں۔

ساتھ ہی دو جنوری 2012ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ کتاب انھوں نے اسی خواہش کے ساتھ ارسال فرمائی ہو گی کہ مَیں پڑھ کر اس پر تبصرہ بھی لکھوں گا لیکن میری بدقسمتی کہ نہ لکھ سکا۔ چند روز قبل اس پر نظر پڑی تو کتابوں کے ریک سے اسے فوراً نکالا۔ سوچا کہ غلام الثقلین نقوی صاحب کی اپریل کے پہلے ہفتے برسی آنے والی ہے، تبصرہ لکھوں گا تو موقع کی مناسبت سے ڈاکٹر صاحب خوش بھی ہو جائیں گے اور چار سال پرانا ادبی قرض بھی اتر جائے گا۔

ساری کتاب پڑھ لی تھی اور چند نوٹس بھی لے لیے تھے لیکن اس سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب داغِ مفارقت دے گئے۔ عمر بھر قلم کی مزدوری کرنے والے انور سدید صاحب ہم سے جدا ہوئے ہیں تو دل بجھ کر رہ گیا ہے۔ ان کی رخصتی پر سب دوست احباب گریہ ساماں ہیں۔

آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم، کیا گئے!

زندگی کی شاخ سے پھُوٹے، کھِلے، مُرجھا گئے

کالم کا دامن اتنا کشادہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر انور سدید سے وابستہ لاتعداد یادوں کو یکجا کر کے سمیٹا جا سکے۔ انھیں چند الفاظ اور چند آنسوؤں کی شکل ہی میں یاد کر کے خراجِ عقیدت و تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہم دونوں جس ادارے سے وابستہ تھے۔ یہاں ایک ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ شایع ہوتا تھا۔ جس محنت اور لگن سے ڈاکٹر صاحب کام کرتے تھے، دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی۔ دوپہر کو عین وقت پر وہ گھر سے لائے گئے ٹوسٹ کھاتے اور اکرم معاون سے دو کپ چائے لانے کا کہتے۔ دونوں کپ وہ خود نوشِ جاں کرتے تھے۔

مَیں نے ہمیشہ انھیں شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے دیکھا۔ گرمی ہو یا سردی، ٹوپی ان کے سر سے نہ اترتی تھی۔ ہم مذاق کرتے تو کبھی برا نہ مناتے۔ ایک خاص قسم کا تبسم ان کے ہونٹوں پر سایہ کیے رہتا۔ انھیں کبھی ناراض ہوتے بھی نہ دیکھا۔ بہت لکھتے تھے اور بے پناہ لکھتے تھے۔ متنوع موضوعات پر۔ برادرم رؤف طاہر صاحب ان کی بسیار و سرعت نویسی پر لطیفہ گوئی کرتے تو ردِ عمل میں خاموش رہتے۔ میز کے نیچے ان کی ٹانگ ہمیشہ ہلتی رہتی۔ شاید یہ ان کے باطنی اضطراب کا اظہار ہوتا تھا۔ دفتر میں ہمیشہ سبھی ان کا احترام کرتے تھے۔ محکمہ انہار سے ریٹائر ہو کر انھوں نے خود کو ادبی و صحافتی زندگی میں بہت مصروف کر لیا تھا۔

نتیجے میں بہت سی کتابیں ہمارے سامنے آئیں۔ ہر کتاب ڈاکٹر انور سدید صاحب کی کمٹمنٹ اور خونِ جگر جلانے کا ثبوت ہے۔ بھارت میں بھی ان کی ادبی خدمات کا طوطی بولتا تھا۔ مجھے ایک بڑی اُفتاد اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تو میری غیر حاضری میں میرے بارے میں ایک تفصیلی کالم لکھا۔ عیاں ہوا کہ وہ مجھ ایسے ہیچمداں اور کم علم ساتھی سے کس قدر محبت و شفقت کرتے تھے۔ ایک بار راقم نے ان کے ادبی حریف گروپ، جس سے ان کی شدید چپقلش اور نوک جھونک رہتی تھی، کے بارے میں تین قسطوں میں کالم لکھا تو بے انتہا خوش ہوئے۔

میر ایہ کالم نہ صرف ایک بڑے ادبی جریدے میں دوبارہ شایع کروایا بلکہ نصف صفحے کو محیط راقم کی صحافتی اور ’’تحقیقی‘‘ خدمات کی تعریف بھی کی۔ یہ تعریف و تحسین یقینا میری اوقات سے بڑھ کر تھی۔ انھوں نے کئی ادبی جرائد میں لاتعداد مضامین لکھے اور وطنِ عزیز کے تین بڑے اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ اگر ان مضامین اور کالموں کو اکٹھا کیا جائے تو کئی کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں۔ اس بے پناہ شخص کو موت نے ہم سے چھین لیا ہے۔ ہم سب کا بھی یہی مقدر ہے۔ عالمِ آب و خاک و باد میں پیغامِ اجل ہر کسی تک پہنچنے والا ہے۔

بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور

جادئہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔