ہماری آواز سنو

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 30 مارچ 2016

تھیبیز کے شاہ کے سامنے ایک اندھے کاہن تیریسیاس نے کہا تھا ’’گو تم بادشاہِ وقت ہو، لیکن بولنا صرف تمہارا ہی نہیں میرا بھی حق ہے‘‘۔ اسی لیے ہمارے حکمرانو، آج تم نہیں بولو گے بلکہ ہم بولیں گے، کیونکہ بولنا صرف تمہارا ہی نہیں ہمارا بھی حق ہے۔

آج تم صرف سنو گے، 20 کروڑ صدائیں، 20 کروڑ آہ و بکائیں، 20 کروڑ المیے۔ آج تم یہ سب صرف سنو گے، آج تم سنو گے وہ آوازیں جنھیں تم سننا نہیں چاہتے وہ آوازیں جن سے تم دور بھاگتے ہو، کیونکہ کہیں وہ آوازیں تمہارا سکھ و چین غارت نہ کر دیں، تمہارے عیش و آرام میں خلل نہ ڈال دیں۔ کہیں تمہاری میٹھی نیندیں برباد نہ کر دیں۔ زندگی جو کچھ ہمیں دیتی ہے وہی تو ہم لوٹا تے ہیں، اس لیے ہماری آوازیں ویسی ہی بن جاتی ہیں جو ہم پاتے ہیں۔

اگر ہماری آوازیں وحشت ناک ہیں، تو ہم کیا کریں۔ ہم نے جو پایا ہے وہ ہی تو لوٹا رہے ہیں۔ تم ہی بتاؤ اجڑے آنگنوں میں سے کیا سریلے گیت سنائی دے سکتے ہیں۔ ماتم کرتے، اپنے آپ کو پیٹتے انسانوں میں سے کیا ہنسی سنائی دے سکتی ہے۔ فاقہ زدوں کے ہونٹوں پہ کیا مسکراہٹ دکھائی دے سکتی ہے؟ یاد رکھو یہ جو المیے ہمارے سائے بن گئے ہیں اس کے ذمے دار تم ہی ہو۔

عظیم یونانی ڈرامہ نگار اور شاعر سوفوکلیز کے المیہ ڈرامے ’’شاہ اوئی دی پوس‘‘ کے ایک منظر میں بادشاہ کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گزاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے، ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔ بادشاہ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے، آج تم عرض گزاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے ہوئے کیوں آئے ہو، شہر میں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے۔

اذیتوں کو دور کرنے کے لیے کیوں دعائیں مانگی جا رہی ہیں؟ میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آ کر دیکھوں نہ کہ پیامبر کو بھیجوں، تم سب سے عمر رسیدہ ہو، تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ سب کی ترجمانی کرو، تم مجھے بتاؤ کہ میری قربان گاہ کے سامنے کیوں جمع ہو؟ پجاری کہتا ہے، اے مالک، بادشاہ وقت، ہم سب بزرگ و جوان یہاں جمع ہوئے ہیں، کچھ پجاری ہیں، کچھ خوبصورت نوجوان ہیں اور میں زیوس کا پجاری ہوں، عالی مقام، تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے، موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے، چار سو موت پھیلی ہوئی ہے، زمین پر، فصلوں میں، چراگاہوں میں جو مویشی گھوم رہے ہیں۔

موت کی زد میں ہیں، ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں وہ بھی اس کی زد میں ہیں، شہر میں طاعون پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیرے میں لے رہا ہے، کیڈس کا گھرانہ تباہ ہو رہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کربناک چیخ و پکار جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اور میں تمہارے پاس آئے ہیں، ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے، لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکو، جن سے انسان دوچار ہے اور جن مسائل کا حل دیوتاؤں نے انسان کو دیا ہے۔

ہماری کچھ مدد کرو، اپنی مدد کے لیے، خواہ کسی دیوتا یا انسان کو ہی کیوں نہ بلاؤ۔ ہمیں یقین ہے کہ تم ہماری مدد کرو گے۔ اے آقا ہمارے شہر کی رونقیں بحال کر دو، اپنی شہرت کا پاس کرو، ہمارا تحفظ کرو، تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں، ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈو، اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو، اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیرے ہوتی ہے، انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں۔‘‘

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ، کیا ہمارے ملک کا آج کا منظر اس ڈرامے کے منظر سے مختلف ہے؟ کیا آج ہمارے ملک میں چاروں طرف بربادی ہی بربادی نہیں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا آج ہمارے ملک میں چار سو موت نہیں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا آج ہمارے شہروں میں لوبان کی خوشبو نہیں پھیلی ہوئی ہے۔ کیا گھر گھر اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیں نہیں مانگی جا رہی ہیں۔ کیا آج ہر شخص خوفزدہ اور ڈرا ہوا نہیں ہے۔

کیا آج ملک میں سارے امید کے درخت سوکھ کر گر نہیں گئے ہیں۔ کیا آج ملک میں قبرستان کم نہیں پڑ گئے ہیں؟ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر آؤ ہم بھی سب اپنے حاکم وقت کے محلوں کی طرف چلتے ہیں اور ان محلوں کے سامنے بیٹھ کر حاکم وقت سے ہاتھ جوڑ کر التجائیں کرتے ہیں کہ فانی انسانوں میں تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ہمارے مسائل کا حل ڈھونڈ نکال لا سکتے ہو، خدارا ہماری مدد کرو، ہمارا تحفظ کرو، ہمیں اذیتوں سے نجات دلوا دو، ہم بھی تمہاری ہی طرح انسان ہیں، ہمیں بھی جینے اور خوش ہونے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا تمہیں حاصل ہے، ہمارا دل بھی پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو چاہتا ہے۔

ہمارا دل بھی خدا کی دی گئی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے تڑپتا ہے، ہمیں بھی سکون اور امن چاہیے۔ خدارا ہمارے خوابوں کو زندہ درگور مت کرو، انھیں زندہ رہنے دو، انھیں سولی پہ مت چڑھاؤ، ہماری خواہشوں کو اتنا ذلیل مت کرو، ہماری آوازوں کی اتنی بے حرمتی مت کرو، ہمیں بھی جینے دو۔ یاد رکھو اختیار اور طاقت ہمیشہ ایک جگہ نہیں رہتیں، بلکہ وہ جگہیں بدلتی رہتی ہیں، وہ اپنے مقام تبدیل کرتی رہتی ہیں۔

آج جس جگہ تم کھڑے ہو اور جس جگہ ہم کھڑے ہیں، یہ جگہیں بدل بھی سکتی ہیں۔ دنیا بھر کے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے وقت میں اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے تھے اور جو دوسرے انسانوں کو کیٹرے مکوڑے سمجھنے لگ گئے تھے۔

آج ان کی قبروں کی وحشت دیکھ کر لوگوں کو کئی کئی رات نیند تک نہیں آتی ہے، آج جس جگہ تم ہو کل وہ بھی اسی جگہ پر تھے اور آج وہ جس جگہ پر ہیں کل ہم سب بھی اسی جگہ پر ہوں گے۔ نہ ہم سے پہلے والوں کی جگہ بدل سکی ہے اور نہ ہی کبھی ہماری جگہ بدلے گی۔ اس لیے ہماری آوازیں سنو، اس سے پہلے کہ تم کچھ بھی سننے کے قابل نہ رہو۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔