غذائی قلت کیوں؟

ایم اسلم کھوکھر  جمعرات 31 مارچ 2016

خدا کی زمین پہ تو رزق ہرگز کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے مگر یہ بانٹنے والے

یہ شعر ہے ملک کے مایہ ناز دانشور و شاعر امجد اسلام امجدؔ کا۔ اس شعر میں ایک جانب وہ اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ قدرت نے اپنے بندوں کے لیے ہر قسم کی نعمتیں زمین پر عطا کر رکھی ہیں مگر دوسری جانب ان لوگوں کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ چند مفاد پرستوں کی ہوس زر کے باعث اکثریت قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے محروم ہو چکی ہے۔

کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت زمین کے اندر قدرت نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ زمین پر اتنا رزق پیدا ہو سکتا ہے کہ جو کہ دس ارب انسانوں کے لیے کافی ہے، جب کہ زمین پر آباد نفوس کی تعداد ہے سات ارب۔ مگر کیفیت یہ ہے کہ دنیا کے ایک ارب چالیس کروڑ انسان بدترین غذائی قلت کا شکار ہیں اور آئے روز اس تعداد میں اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔ جب کہ غذائی قلت کا شکار لوگوں کی اکثریت کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔

افریقی ممالک کی غذائی قلت یا مفلسی کا باعث یہ نہیں کہ افریقی ممالک قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے محروم یا افریقہ نباتات یا معدنیات سے محروم ہے، بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ دوسرے خطوں کی مانند افریقی ممالک بھی ہر قسم کی قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے مالا مال ہیں۔

مگر قدرت کی ان عطا کردہ نعمتوں پر قابض ہیں دوسرے ممالک سے تجارت کے بہانے آنے والے لوگ۔ جن کی فقط گوری رنگت ہے اور وہ اپنی اس گوری رنگت کے باعث اس گمان میں مبتلا ہیں کہ چونکہ ان کی رنگت گوری ہے اس لیے ان کو ان کالی رنگت والوں پر فضیلت ہے اور اسی گوری رنگت کے باعث اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام وسائل پر ان کا حق ہے اور اپنا یہ حق ثابت کرنے کے لیے یہ گوری رنگت والے لوگ طرح طرح کے خودساختہ مذہبی عقائد کا سہارا بھی لیتے ہیں۔

گوری رنگت والے فقط افریقی وسائل پر ہی قابض نہیں بلکہ یہ سرمایہ دار ایشیائی ممالک کے وسائل بھی لوٹ رہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ واردات کا یہ طریقہ افریقی ممالک سے تھوڑا مختلف ہے اور ایشیائی ممالک کو لوٹنے کا یہ سلسلہ دو سو ساٹھ برس سے جاری ہے۔ اب تو ان گوری رنگت والے سرمایہ داروں نے دنیا کے وسائل کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے یہ دلیل بھی دینا شروع کر دی ہے کہ دنیا کے وسائل پر ان لوگوں کا حق ہے جو لوگ ان وسائل کو استعمال کرنے کا گُر جانتے ہیں۔

دنیا بھر کے وسائل پر قابض ہونے کے خواہش مند اپنے ممالک کے لوگوں کے ساتھ یہ رویہ ہے کہ زائد منافع کے حصول کی غرض سے لاکھوں ٹن گندم یہ لوگ سمندر میں تو بہا دیتے ہیں مگر کسی صورت اپنے صارفین کو یہ گندم کم داموں پر دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جس کے باعث یورپی ممالک میں بھی دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ غربت کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ گو یورپ میں غربت کا تصور تیسری دنیا کے ممالک سے قدرے مختلف ہے۔

ذکر اگر بھارت میں لوگوں کی غذائی قلت کا کیا جائے تو بھارت کی غربت یا عام لوگوں کی غذائی قلت کے دو طرح کے لوگ ذمے دار ہیں، ایک سرمایہ دار طبقہ جو کہ حکومتی ایوانوں تک قابض ہے، دوسرا طبقہ وہ ہے جو مذہب کا سہارا لے کر وہاں کے وسائل پر قابض ہے۔

اس طبقے کا دعویٰ ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے وہ بھگوان کا ہے اور جو کچھ زمین پر ہے وہ برہمن کا ہے۔ جس سماج میں اس قسم کے مذہبی عقائد کا پرچار کیا جائے وہاں عام آدمی کو ماسوائے غذائی قلت کے اور کیا حاصل ہو گا؟ بھارت ہی سے ملتی جلتی کیفیت خطے کے دیگر ممالک کی ہے۔

آئیں اب ذکر کرتے ہیں وطن عزیز پاکستان کا، تو یہاں کیفیت یہ ہے کہ کم و بیش نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اس غذائی کا باعث یہ نہیں کہ یہاں غذائی اجناس کم مقدار میں پیدا ہوتی ہیں، بلکہ سبب یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس ضروریات سے زیادہ پیدا ہوتی ہیں جب کہ دنیا میں بہترین چاول پاکستان میں پیدا ہوتا ہے اور اس قدر وافر مقدار میں ہوتا ہے کہ مقامی کھپت جو چاول کی ہے وہ فقط 35 فیصد ہے جب کہ 65 فیصد چاول ہماری ضروریات سے زائد ہے۔

گندم کی کیفیت یہ ہے کہ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ ہر برس گندم کی نئی فصل آنے پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ دیکھو ہم گندم کے معاملے میں اس قدر خودکفیل ہو گئے ہیں کہ ہمارے سرکاری گودام گزشتہ برس پیدا ہونے والی گندم سے بھرے پڑے ہیں۔ اب گندم کی نئی فصل تیار ہو کر آ گئی ہے اب یہ اس برس پیدا ہونے والی گندم رکھیں کہاں؟ جب کہ کیفیت یہ ہے کہ اسی صوبے میں معاشی پریشانیوں سے تنگ آ کر خودسوزی کا رجحان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، بلکہ اب تو پورے پورے خاندان خودسوزی کر رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ لوگ معاشی تنگ دستی سے مجبور ہو کر اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جب کہ ان لوگوں کو ایک گردے کے عوض کیا ملتا ہے، ایک لاکھ پچاس ہزار روپے، جب کہ مختلف ہاتھوں سے فروخت ہوتے ہوئے جب یہ گردہ اس مریض تک پہنچتا ہے جو کہ حصول گردہ کا طالب ہوتا ہے تو اس گردے کی قیمت ہوتی ہے۔

دس سے بارہ لاکھ روپے۔ میں اسی سماج کی تصویر کشی کر رہا ہوں جہاں ایک جانب یہ کیفیت ہے تو دوسری جانب ایسے کلینک بھی ہیں جہاں فقط اہل ثروت لوگوں کے کتوں کا علاج ہوتا ہے۔ اور ایک کتے کو چیک کرنے کی فیس ہے پانچ ہزار روپے۔ یہ ہے ہمارے سماج کا کھلا تضاد۔ اس کے باوجود حکمرانوں کا دعویٰ ہے ملک ترقی کر رہا ہے۔ ٹھیک ہے صاحب، قوم سے جھوٹے وعدے کرنے و ترقی کے دعوے کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟

اب تذکرہ ہے وادیٔ مہران، یعنی سندھ کا، تو سندھ کی شہری آبادی تو جیسے تیسے کر کے دو وقت کی روزی روٹی کا انتظام کر لیتی ہے، مگر اندرون سندھ یہ کیفیت ہے کہ دوران حمل مائیں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں، جس سے معصوم نونہال شکم مادر میں ٹھیک طریقے سے نشوونما نہیں کر پاتے، یوں یہ بچے غذائی قلت کا مرض اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور رواں برس اس مرض یا غذائی قلت سے فقط تھر میں 250 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ افسوس ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

مگر یہ سیدھی سی بات سندھ حکومت میں شریک ایک خاتون کی سمجھ سے بالاتر ہے جبھی تو وہ اکثر ٹی وی چینل پر آ کر فرماتی ہیں کہ اتنی چھوٹے عمر کے بچے تو ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ کھاتے پیتے ہی نہیں، پھر یہ غذائی قلت سے اموات کا الزام سندھ حکومت پر کیوں لگایا جاتا ہے؟ ہم ان محترمہ کی خدمت میں فقط اتنا عرض کریں گے کہ غذائی قلت کا شکار ان بچوں کی مائیں ہیں جو خود غذائی قلت کا شکار ہونے کے باعث اپنے بچوں کو ٹھیک طریقے سے دودھ نہیں پلا پاتیں اور یہ معصوم موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ کے سرکاری گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں اور وہ گندم لوگوں کے پیٹ میں جانے کے بجائے گوداموں میں سڑ رہی ہے۔ ’’مگر یہ کاٹنے والے، مگر یہ بانٹنے والے‘‘۔

جب کہ صوبہ بلوچستان کی خوراک کے معاملے میں کیفیت صوبہ پنجاب و صوبہ سندھ سے مختلف نہیں ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں غذائی قلت سمیت دیگر مسائل پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟ تو عرض یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان پر جن لوگوں نے حکومتیں کیں، ان میں غالب اکثریت جاگیردار و سرمایہ دار طبقات کی تھی، یہ لوگ مسائل پیدا کرنے والے ہیں، یہ کیونکر مسائل حل کریں گے۔

چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس جذبے کے تحت 1947ء میں پاکستانی قوم جغرافیائی تبدیلی لائی تھی، اسی جذبے کے تحت پاکستان میں سماجی تبدیلی کے لیے کوششیں کریں اور سماجی تبدیلیاں لائیں، کیونکہ سماجی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔