رویبضہ کون۔ کیسے گفتگو کرتے ہیں

اوریا مقبول جان  جمعرات 31 مارچ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کسی کو اندازہ ہے کہ اس گھر کے باسیوں پر کیا بیتتی ہے جب پولیس دندناتی ہوئی چاروں طرف سے اسے گھیر لیتی ہے، کچھ چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں، گلیوں کے کونوں پر بندوق بردار ناکے لگا لیتے ہیں۔ اس کے بعد چاک و چوبند اور مستعد جوان پستولیں تھامے ٹھڈے مارتے ہوئے دروازہ کھولنے کا اشارہ کرتے ہیں، اندر سے خوفزدہ لوگوں کا باپ، بیٹا، یا بھائی باہر آتا ہے، اسے گردن سے پکڑ کر دھکے دیتے ہوئے ایک جانب کیا جاتا ہے اور پھر یہ فاتحین گھر میں داخل ہوتے ہیں، کانپتے ہوئے اہل خانہ کو دھکیلتے ہوئے ایک جانب کیا جاتا ہے، خواہ ان میں اسّی سال کی بڑھیا اور ایک ماہ کا بچہ کیوں نہ ہو، مکان کے کونوں کھدروں کی تلاشی لی جاتی ہے۔

سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ملزم مل جائے تو واہ واہ، نہ ملے تو اہل خانہ میں سے اپنی پسند کے مطابق باپ، بھائی، بیٹا، بیوی، بہن، جس کو چاہا گاڑی میں ڈال کر تفتیش کے لیے تھانے لے جایا جاتا ہے۔ تھانے کی خوفناک فضا کا شاید کسی کو اندازہ نہیں اور اس بات کا بھی بہت کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ کس طرح تھانے کے بڑے گیٹ بند کر لیے جاتے ہیں اور پھر صحن سے حوالات تک جاتے جاتے لاتوں، گھونسوں، ڈنڈوں اور بیدوں کی برسات شروع ہو جاتی ہے اور انھیں حوالات میں ایسے پھینکا جاتا ہے جیسے ذبح کرنے والی مرغیاں پنجروں میں۔ چند لمحے سانس لینے کے بعد یہ ’’عظیم اور ذہین‘‘ پولیس تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔

یہ طریق کار اس قدر خوفناک اور اذیت ناک ہوتا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ اگر گھر سے بہت سے لوگوں کو اٹھایا ہوتا ہے تو ایک شخص کو ساتھ والے کمرے میں لے جایا جاتا ہے اور پھر اس کی دل دہلا دینے والی چیخیں اس کے باپ بھائی یا بیٹے تک حوالات میں پہنچتی ہیں۔ اگر پولیس کے وہ آلات تشدد عام لوگوں کے لیے نمائش کے طور پر رکھ دیے جائیں یا پھر ان کے طریقوں پر کوئی ڈاکومینٹری بنائی جائے تو لوگ خوف سے کانپ اٹھیں۔

ایک زمانہ تھا کہ پولیس کا یہ ظلم و تشدد اور بربریت کا لمحہ خاموشی سے بیت جاتا تھا۔ ملزم مل جاتا تھا یا پھر پتہ چل جاتا تھا کہ یہ ملزم نہیں، بلکہ پولیس سے غلطی ہو گئی اور پھر ان مظلوم اور مضروب اہل خانہ کو خاموشی سے گھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وہ بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ سے ہو جاتے۔ بس اسی بات پر شکر ادا کرتے تھے کہ عزت بحال ہو گئی۔

لیکن آج اذیت اور تکلیف ہزار گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ اس ملک کے افق پر آزاد میڈیا بندوق سے بھی زیادہ خوفناک ہتھیار یعنی کیمرہ اٹھائے گھوم رہا ہے اور یہ اسقدر اخلاقیات سے عاری ہے کہ کسی بھی بے گناہ، شریف آدمی کی عزت نفس کو پامال کر کے، اسے ذلیل و رسوا کر کے بھاگ جاتا ہے۔ اس کو علم بھی ہو جائے کہ اس نے ایک ایسے گھر کی رسوائی اور بدنامی میں حصہ ڈالا، اسے بے آبرو کیا ہے پھر بھی خاموش ہو جاتا ہے۔

کبھی اپنا قصور مان کر معافی نہیں مانگتا۔ اس گھر کی عزت بحال نہیںکرتا۔ میڈیا اس معاملے میں متعصب بھی ہے، وہ جس کو چاہتا ہے کہ بے آبرو کرے‘ اسی کو کرتا ہے اور جس ملزم بلکہ مجرم کا جرم چھپانا چاہے تو اس پر خاموشی کی چادر تان دیتا ہے۔ اسے معزز اور عزت دار بلکہ عوامی نمایندہ کہہ کر چپ کر جاتا ہے۔ گزشتہ چند دن پولیس کی اسی بدمعاشی اور میڈیا کی ملی بھگت کا شکار وہ گھرانا رہا ہے جس کے بارے میں پنجاب پولیس کے ’’مستعد‘‘ اور ’’چاک و چوبند‘‘ ماہرین نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں اقبال پارک کے خود کش بمبار محمد یوسف کا سر مل گیا ہے اور ساتھ ہی اس کا شناختی کارڈ بھی۔ فوری طور پر اس کے پتے پر مظفر گڑھ پر پولیس پارٹی اس طرح دندناتی ہوئی پہنچ گئی جیسے دنیا کے خطرناک ترین مجرم کو گرفتار کرنا ہے۔ اس کے چار بھائیوں اور ایک چچا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا والد ایک سبزی فروش تھا جو عمرے کی ادائیگی کے لیے حجاز گیا ہوا تھا۔

اب یہاں میڈیا میدان میں اترا۔ میڈیا کے لیے یہی کافی تھا کہ مرنے والے کے منہ پر داڑھی ہے اور اس کی شکل مولوی کی طرح ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کا والد عمرے پر گیا ہوا ہے۔ اسے کسی نے ملزم یا مجرم نہیں کہا سیدھا دہشت گرد کہہ دیا۔ اس کے بعد اس ملک کے ’’ذہین اور عالی دماغ‘‘ تبصرہ نگاروں، اینکرپرسنوں‘ رپورٹروں، تجزیہ نگاروں کا ایک سیلاب آ گیا۔ کوئی اس کے مدرسے تک جا پہنچا، کوئی اس کے محلے میں کسی نوجوان کو کیمرے اور مائیک سے خوفزدہ کرتا رہا، تبصرہ نگاروں کی لن ترانیاں عروج پر تھیں۔ہم تو پہلے کہتے تھے‘ یہ جنوبی پنجاب دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔

یہاں کا ہر مدرسہ دہشت گردوں کی فیکٹری ہے۔ کوئی طالبان تک جا پہنچتا ہے اور کوئی فرقہ وارانہ تنظیموں تک، میڈیا باہر گرجتا رہا اور پولیس والے ان چار بھائیوں اور چچا پر تھانے میں برستے رہے اور اس مظلوم محمد یوسف کی لاش دفن ہونے سے بھی محروم رہی۔ بلکہ اس کی تصویروں پر تین دن لعنت ملامت ہوتی رہی۔ کوئی حقیقت بتانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ جھوٹ کے یہ ملکی ہیرو اپنے چینلوں پر یہاں تک کہتے رہے کہ اس نے دہشت گردی کی تربیت وانا سے حاصل کی تھی۔ اس دوران اس کے دوست محمد یعقوب نے ہمت کی اور بتایا کہ وہ تین دوست اس دن علامہ اقبال پارک سیر کرنے گئے تھے۔

وہ اسے آٹھ سال سے جانتا تھا اور وہ اس کے ساتھ تین ماہ سے چوبرجی میں ایک اکیڈمی میں لوگوں کو قرآن پاک کی آن لائن تعلیم دیتا تھا۔ پولیس نے کہا ہم نے غلط بیان دیا تھا لیکن اس کے بعد ان تجزیہ نگاروں، اینکر پرسنوں اور رپورٹروں کو سانپ سونگھ گیا۔ ایسا لگتا تھا ان کے گھر صف ماتم بچھ گئی ہو۔ سب اس معاملے سے ایسے غائب ہوئے جیسے ٹڈی دل اسپرے کے بعد غائب ہوتے ہیں۔

چار بھائی اور چچا نامعلوم مقام سے واپس آ گئے۔ کسی نے جا کر پوچھاتک نہیں کہ وہ کس اذیت سے گزرے۔ ان کے خاندان پر تین دن ایسی بدنامی اور رسوائی کو میڈیا نے مسلط کیا کہ وہ اپنے لخت جگر کا جنازہ تک اٹھانے کے قابل تک نہ تھے۔ پولیس نے تو اسے ملزم کہا تھا لیکن میڈیا نے تو اسے دہشت گرد کی گردان کر کے اس معاشرے کا گھٹیا ترین شخص ثابت کر دیا۔ کس قدر زعم ہے تمہیں اپنی تفتیشی صحافت پر اور کس قدر ناز ہے تمہیں اپنے آزاد ہونے پر۔ اگر ان تمام تجزیہ نگاروں کے خاندانوں پر ایسے چار دن بیتے ہوتے جیسے محمد یوسف کے گھر والوں پر گزرے تو میں دیکھتا ان میں کون ہوتا جو اس میڈیا کے خلاف نفرت بھرا ہوا کالم نہ لکھتا، تجزیہ نہ کرتا۔

لیکن میرے ملک کے میڈیا کا مسئلہ تفتیش، تحقیق یا حقائق کی کھوج نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ ریٹنگ ہے۔ اسی محمد یوسف کے معاملے میں کتنے چینلوں کے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھی ہو گی۔ ان اینکرپرسنوں کی تنخواہوں میں بھی شاید اضافہ ہو جائے۔ ریٹنگ کے بعد اس میڈیا کا دوسرا بڑا مسئلہ اسلام، مولوی اور داڑھی ہے۔ اسے بس ایک چھوٹی سی اطلاع ملنی چاہیے کہ خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ بھارت اس میڈیا کے تجزیہ نگاروں کا لاڈلا ہے۔

آج سے چند سال پہلے جب کوئی کہتا کہ یہاں تخریب کاری یا دہشت گردی بھارت کروا رہا ہے تو ہمیں طعنے دیتے، پہلے اپنا گھر صاف کرو، سب بھارت پر الزام لگاتے ہیں، ہمارے ہاں انتہا پسندی ہے، مولوی ہے، دہشت گردی ہے، میڈیا کے پاس ایک ای میل آتی ہے یا پھر کوئی چینل یہ اعلان کرتا ہے کہ فلاں واقعہ کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی اور پھر یہ دھڑا دھڑ اس اطلاع پر شروع ہو جاتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو جو بھارتی را کا افسر پکڑا گیا‘ اس کے اعترافات سن لیں تو میڈیا کی کذب بیانیوں، جھوٹ اور مسالہ بازی پر ہنسی آتی ہے۔

اس نے کہا ایس ایس پی اسلم کو میں نے مروایا۔ اس دن کے اخبار اٹھائیں، ٹی وی کے پروگراموں کی ریکارڈنگ دیکھیں اور پھر دیکھتے چلے جائیں، یہ ایس پی اسلم کے قتل سے شروع ہوئے اور پھر نصاب تعلیم میں شدت پسندی سے ہوتے ہوئے قرارداد مقاصد تک جا پہنچے اور ثابت کرتے رہے کہ یہاں یہ قتل و غارت اس لیے ہے کہ قرارداد مقاصد میں اسلام اس ملک کا مذہب قرار دیا گیا۔ گلبھوشن یادیو نے سانحہ صفورا گوٹھ کا جرم مانا، فرقہ وارانہ دہشت گردی کا اقبال کیا۔ صفورا گوٹھ کے زمانے کا میڈیا اٹھائیں۔اگر اس میں کسی کو بھارت کا نام مل جائے تو اس شخص کو عالمی ریکارڈ سے نوازنا چاہیے۔

سب کی زبانیں اسلام، مولوی، دہشت گرد، طالبان اور مدرسوں پر برس رہی تھیں۔ پھر پتہ چلا یہ تو یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں، ذرا خاموش ہوئے، مدرسے اور طالبان نکل گئے لیکن اسلام اور شدت پسندی باقی رہ گئی۔ ان کا لاڈلا بھارت پھر بھی سامنے نہ آیا۔ یہ کس بلا کے لوگ ہیں جس ملک کا کھاتے ہیں اسی کے دشمن سے محبت کرتے ہیں، جس کشتی میں بیٹھتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا اور فریب کے ہوں گے، سچے کو جھوٹا بنا دیا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنا دیا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں رویبضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ فرمایا: گھٹیا لوگ جو لوگوں کے اہم معاملات میں گفتگو کریں گے (مسند احمد، مسند ابی یعلی، السنن الواردۃ فی الفتن)۔ رات کو آپ کوئی بھی چینل کھول کر دیکھ لیں۔ آپ پہچان لیں گے۔ رویبضہ کون ہیں اور کیسے بولتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔