قابل احترام لوگ
اظہر جمیل نے بڑے دکھ سے کہا۔ بیدری صاحب! کیا ہم مردہ پرست لوگ نہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف لوگ ایسے کام انجام دیتے ہیں جو معاشرے میں ان کے احترام کا باعث بن جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ حقیقی معنوں میں وہ کون لوگ ہیں جن کا احترام کیا جانا چاہیے، جنھیں یاد رکھنا چاہیے، جن کی یاد منانی چاہیے، جنھیں قرارداد تحسین پیش کی جانی چاہیے اور جن کی خدمات کا ان کی زندگی میں اعتراف کرنا چاہیے۔
کچھ عرصہ پہلے کسی تقریب میں معراج محمد خان کو بلانے کے لیے میں نے فون پر رابطہ کرنا چاہا جس تقریب میں، میں انھیں آنے کی دعوت دینا چاہ رہا تھا وہ ہمارے ایک مرحوم دوست کی تعزیتی تقریب تھی جو شاعر بھی تھے اور ساری زندگی مزدوروں کے حقوق کی لڑائی میں بتا چکے تھے، جب معراج محمد خان سے رابطہ نہ ہو سکا تو میں نے ان کے دست راست اظہر جمیل کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ ایک تعزیتی تقریب میں معراج محمد خان کو آنا ہے۔
اظہر جمیل نے بڑے دکھ سے کہا۔ بیدری صاحب! کیا ہم مردہ پرست لوگ نہیں۔ ہم اپنے ان قابل احترام دوستوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مظلوم طبقات کی زندگیوں کو بدلنے میں لگا دیا؟ اظہر جمیل کی بات بالکل درست تھی ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم قابل احترام لوگوں کی زندگی میں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کسی بڑی تقریب کا اہتمام نہیں کرتے جنھوں نے عوام کی حالت بدلنے کے لیے مختلف شعبوں میں زندگی کا بڑا حصہ بتا دیا۔ البتہ ان کے انتقال کے بعد ہمیں خیال آتا ہے کہ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کسی تقریب کا اہتمام کیا جائے۔
اظہر جمیل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا معراج بھائی جنھوں نے اپنی جوانی سے بڑھاپے تک پورا عرصہ اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں بتا دیا اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ ان کی زندگی ہی میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کسی بڑی تقریب کا اہتمام کیا جائے تا کہ انھیں احساس ہو اور وہ دیکھ سکیں کہ دوست ان کی کاوشوں کا احترام کرتے ہیں۔
لیکن نہیں ہم کسی بڑے آدمی کی زندگی ہی میں اس کی خدمات کے اعتراف میں کسی بڑی تقریب کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ ہمیں اس کی خدمات اس کی عظمت کا خیال اس وقت آتا ہے جب وہ اس دنیا سے جا چکا ہوتا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ترقی پسند دوستوں میں یہ روایت بہت عام ہے کہ وہ اپنے قابل احترام دوستوں کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں نہیں کرتے بلکہ ان کی موت کے بعد تعزیتی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔
البتہ زندگی کے بعض دوسرے شعبوں میں یہ روایت مضبوط ہو رہی ہے کہ ان شعبوں کے لوگوں کو ان کی خدمات ان کے فن کے حوالے سے ان کی زندگی ہی میں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر شوبز کے شعبے میں بڑے فنکاروں کو ان کی اعلیٰ خدمات ان کے فن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بہت بڑی اور رنگا رنگ تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اس حوالے سے بھارت میں آئے دن بڑے پیمانے پر رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے جس سے فنکاروں کا دل بڑھتا ہے اور وہ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے دوست ان کے چاہنے والے ان کے فن کی قدر کرتے ہیں۔
آج یہ بات ہمیں اس حوالے سے یاد آئی کہ ایکسپریس کے شوبز کے صفحے پر خبر لگی کہ ماضی کی ایک نامور فنکارہ نیلوفر عباسی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے پرستاروں نے ان کے دوستوں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں شوبز کے سینئر فنکاروں نے شرکت کی اور انھیں ان کے فن کے حوالے سے خراج عقیدت پیش کیا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ ہر ماہ ایک فنکار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا جائے گا اس حوالے سے اگلی تقریب ماضی کے نامور اداکار شکیل کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جائے گی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جسے نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ مختلف شعبوں میں اہم اور غیر معمولی خدمات انجام دینے والوں کو ان کی زندگی ہی میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
اس قسم کی تقاریب کا اہتمام اہل سیاست کی ''خدمات'' کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قومی پیمانے پر کیا جاتا ہے بلکہ ان ''بڑے لوگوں'' کی سالگرہوں اور برسیوں پر عام تعطیل بھی کی جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری سیاست روز اول سے آج تک گندگی کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔
سیاسی بنیادوں پر جان سے جانے والوں کو شہید اعظم کا درجہ دے کر ہر سال اس کی تاریخ پیدائش اور برسی پر ملک گیر پیمانے پر تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جو عظیم انسان انسانیت کی عظمت کی جنگ میں شہید کیے جاتے ہیں عوام کو ان کے نام تک کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے میں صرف دو دوستوں کا حوالہ دوں گا جنھوں نے ساری زندگی مظلوم غریب عوام مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد میں بتا دی اور ظالم حکمرانوں نے انھیں اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا۔ ان میں سے ایک حسن ناصر ہیں ۔
جن کا تعلق حیدر آباد دکن کے ایک جاگیردار گھرانے سے تھا لیکن یہ جاگیردار زادہ جب پاکستان آیا تو اسے مزدوروں کے حالات زندگی دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور وہ ان کی تقدیر بدلنے کی جدوجہد میں اس طرح جٹ گیا کہ وہ مزدور بستیوں میں رہنے لگا۔ 1953ء میں لانڈھی کے علاقے معین آباد میں ہم ''کچی اینٹوں کے محل'' میں رہتے تھے ہمارے مکان کے ساتھ ایک بڑا کمرہ بنا ہوا تھا جس میں مزدوروں کے دو بڑے رہنما محمد زبیر اور رزاق میکش رہتے تھے۔ حسن ناصر اکثر اس ایک کمرے کے محل میں آ کر رہتے تھے۔
یہیں پر ان سے ملاقات ہوئی تھی یہیں سے ہماری زندگی کا رخ بدلا اور ہم بھی اس قافلے میں شامل ہوئے جس کی عظمت کے سامنے بڑے بڑے حکمران بڑے بڑے سیاستدان بکریوں کے ریوڑ نظر آتے ہیں۔ نذیر عباسی شہید بھی اسی قافلے کے ایک فعال راہ رو تھے جنھیں جرم حق گوئی میں شہید کر دیا گیا۔ کیا ان کی یاد میں سرکاری سطح پر کوئی تقریب ہوتی ہے؟ کیا ان کی سالگرہ اور برسی پر چھٹی کی جاتی ہے، کیا ان کے نام پر کوئی شہر کوئی شاہراہ کوئی ایئرپورٹ کوئی تعلیمی ادارے کا نام رکھا گیا ہے؟
ہمارے ملک میں بے شمار معروف شاعر ادیب دانشور ہیں اور تھے جنھیں عوام جانتے تک نہیں جب چوروں ڈاکوؤں لٹیروں کی خبریں ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ہر روز زینت بنتی ہیں۔ ٹریڈ یونین میں متحدہ ہندوستان سے کام کرنے اور پاکستان میں اپنی آخری سانس تک محنت کشوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے محمد زبیر کی قبر کا بھی کسی کو پتہ نہیں۔ میں نے اپنے دوست کرامت علی کو مشورہ دیا تھا کہ تمہارے پاس وسائل ہیں تم عوام کی زندگی کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو ان کی خدمات کے صلے میں ہر سال ایوارڈ دینے کا اہتمام کرو۔ ایک سال یہ اہتمام کیا گیا پھر اسے بھلا دیا گیا۔