ایک قوم بننا ضروری ہے

عابد محمود عزام  جمعرات 31 مارچ 2016

دہشتگردوں نے ایک بار پھر درندگی کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ بچوں وخواتین سمیت 72 بے گناہ افراد کی جانیں لے کر سفاکیت کی تمام حدود پارکر لی ہیں۔ لاہورگلشن اقبال پارک میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ نے ہر شخص کو دکھ، درد، تکلیف، غم اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

اس دہشت گردی کے سامنے جارحیت، درندگی، سفاکیت اور حیوانیت جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ اس قدر وحشیانہ رویہ، اس قدر شقی القلبی کہ انسان ایسے حیوان نما انسانوں کی انسانیت پر بھی حیرت آشنا ہو جائے،جنہوں نے پھولوں سے کھیلتے بے قصورومعصوم بچوں کی زندگیاں چھین لیں۔ یہ ایک ایسا المناک قومی سانحہ ہے، جس  کی دردناکی نے ہر اس شخص کو شدید صدمے سے دوچارکیا، جو دماغ میں عقل اور پہلو میں دل رکھتا ہے۔

پاکستان کے عوام ایک عرصے سے اس قسم کے اندوہناک سانحات برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے انتہائی دہشت ناک عفریت کا سامنا ہے، جس سے مساجد محفوظ ہیں نہ درسگاہیں، چرچ محفوظ ہیں نہ امام بارگاہیں، بازار محفوظ ہیں نہ تفریح گاہیں، اسپتال محفوظ ہیں نہ دفاتر، مشائخ محفوظ ہیں نہ علمائے کرام، عورتیں محفوظ ہیں نہ بچے، مائیں محفوظ ہیں نہ بیٹیاں، باپ محفوظ ہیں نہ بیٹے، اسکول محفوظ ہیں نہ کالج، مدارس محفوظ ہیں نہ یونیورسٹیاں۔ لاکھ دعوؤں کے باوجود حکومت اس عفریت سے نمٹنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

اب اس بات کا تعین کرنا ازحد ضروری ہوگیا ہے کہ ملک میں دہشتگردی کی کارروائیاں کون لوگ کر رہے ہیں اور دہشت گردی پروان چڑھانے میں پس پردہ کون سی نادیدہ قوتیں سر گرم عمل ہیں۔ دہشتگردوں کے تانے بانے پاکستان مخالف ایجنسیوں سے جا کر ملتے ہیں، جو ان ملک دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کرکے پاکستان کا امن سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔

گزشتہ دنوں بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے آفیسرکی بلوچستان سے گرفتاری اس کی تازہ مثال ہے، جو مسلمان بن کر ملک میں دہشت گردی ، مذہبی فسادات پھیلانے ، فوج کے خلاف اکسانے اور دیگر ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرچکا ہے اور اپنے مزید سیکڑوں ایجنٹوں کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاع بھی دے چکا ہے۔

یک طرفہ تماشا ہے کہ لاہور میں ننگی دہشتگردی کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اس حوالے سے بھارت سے اب تک کسی قسم کا تقاضا نہیں کیا گیا، جب کہ گرفتار ’’را‘‘ ایجنٹ خود اس بات کا اعتراف کرچکا ہے کہ اسے ’’را‘‘ نے پنجاب تک اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا ٹاسک دیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارت تو پاکستان کے کبوتر کو’’گرفتار‘‘ کر کے بھی اسے پاکستانی ’’دہشتگرد‘‘ ثابت کرنے پر تل جاتا ہے۔

جب کہ ہم ملک میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث بھارتی دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کے باوجود بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگرچہ ملک میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملک دشمن عناصر ملوث ہوتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں، لیکن ان دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے والے تو خود ہمارے اپنے ہی لوگ ہی ہوتے ہیں، جو ہمارے ملک کے باسی ہوتے ہیں اور خود ہمارے اندر موجود ہوتے ہیں، وہ دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر مذہب کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں کا خون لینے پر تل جاتے ہیں۔ ان محرکات کا سدباب کرنا بھی ضروری ہے، جو مذہب کے نام پر برگشتہ عناصر کو ملک کی سلامتی کمزورکرنے کی بھارتی سازشوں میں آلہ کار بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مکمل طور پر امن کا قیام اور دہشتگردی کی بیخ کنی اسی صورت میں ممکن ہے، جب پوری قوم مستقل طور پر بیدار و متحد ہوکر دہشتگردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ اگر چاہے تو پاکستانی قوم ہزار خامیوں کے باوصف مادر وطن کی بقا، عزت، سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوسکتی ہے۔ حصول آزادی کے لیے ہم ایک قوم بنے اور وہ کر دکھایا جس کی کسی کو امید نہ تھی، مگر قیام پاکستان کے بعد آج تک ہم حقیقی معنوں میں ایک قوم نہیں بن سکے۔

آج اگر ہم دہشت گردی کی بیخ کنی کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آج تک ہم حقیقی معنوں میں ایک قوم ہی نہیں بن سکے ہیں، بلکہ لوگوں کا ایک ہجوم ہیں جو دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ ہماری صفوں میں اس قدر انتشار اورافتراق ہے کہ شاید ہی کسی اور قوم میں اس درجہ انتشار پایا جاتا ہو۔ ہر فرقہ، ہر گروہ، ہر جماعت، ہر تنظیم اور ہر فرد صرف اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔

اسلام کی روح ہمارے قومی جسد سے نکل چکی ہے اور فرقہ پرستی، تنگ نظری، تعصب اور وحشت کا تعفن بھر چکا ہے۔ ہم لوگ باتیں تو محمود وایاز کے ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی کرتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات اتحاد کا درس دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کبھی فرقوں، نظریات، طبقات، قبیلوں، ذات، برادری، صوبائی، لسانی و نسلی امتیازات کے بندھنوں سے آزاد ہوکر متحد نہیں ہوسکے۔

پاکستان کو ایک حقیقی قوم کے سانچے میں ڈھلنے کے راستے میں معاشرے میں پائے جانے والے مختلف قسم کے نظریاتی، مذہبی، لسانی، قبائلی، نسلی ودیگر تضادات حائل ہیں۔ ہرکوئی اپنا الگ سے نعرہ لگارہا ہے اور مختلف نعرہ لگانے والے کو دشمن گردانتا ہے۔ معاشرہ بے بہا حصوں میں بٹ چکا ہے۔

غریب اور امیرکی تقسیم ہے۔ ایک ہی جگہ رہتے ہوئے دونوں کے دلوں میں میلوں کی دوریاں ہیں۔ دونوں کے سوچ وبچار میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہر ایک کے رہن سہن میں فرق ہے۔ تعلیم و تربیت میں فرق ہے۔  اعلیٰ ترین طبقے کے لیے علیحدہ اسکول ہیں اور کم آمدنی اور متوسط طبقے کے لیے علیحدہ اسکول ہیں اور ان اداروں سے نکلنے والے طالب علموں کے درمیان بھی سخت دیواریں حائل ہیں ۔ وہ معاشی ترقی میں مساویانہ بنیادوں پر حصہ نہیں لے سکتے۔ اسی طرح لبرل اور اسلام پسند کی تقسیم ہے۔ دونوں کی سوچ بالکل متضاد ہے۔

دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ مدمقابل کی ہر بات کی مخالفت کرنا ان میں سے ہر ایک اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کے بعد مذہبی طبقے میں  نجانے کون کون سی تقسیم ہے۔ ہر فرقے اور نظریے کے ماننے والوں کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے حاملین کو ناحق، باطل اورگمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اکثر وبیشتر مبلغین اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں۔

اپنی بنیادی وابستگی اورذاتی فوائد کی وجہ سے محض منتخب  تبلیغ کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو معاشرے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے میں کافی حد تک ہمارے قومی رہنماؤں کا بھی کردار ہے، جنہوں نے ہمیشہ اپنی ضرورت کے مطابق معاشرے کا جذباتی استحصال کیا ہے۔

ہر لیڈر لوگوں کے جذبات سے کھیلتا ہے اور آج تک کھیل رہا ہے۔ تصورِ پاکستان کا مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں برِصغیر کے مسلمان ایک قوم بن کر سیاسی، اقتصادی اور مذہبی آزادی کا مزہ لے سکیں۔ افسوس! قیام پاکستان کا مقصد پوری طرح حاصل نہیں ہوسکا۔ وہ پاکستان صرف اور صرف اسی صورت حاصل ہوسکتا ہے، جب پاکستانی کے باسی حقیقی معنوں میں ایک قوم بن جائیں، اگر ہم ایک قوم بن گئے تو ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔