ندیمِ باصفا صدیقِ اکبرؓ ؛ جس سے بنائے عشق و محبّت ہے اُستوار

سیدنا صدیق اکبرؓ کے محامد و مکارم اور اوصاف جلیلہ سے کتب سیرت لبزیز ہیں: فوٹو : فائل

سیدنا صدیق اکبرؓ کے محامد و مکارم اور اوصاف جلیلہ سے کتب سیرت لبزیز ہیں: فوٹو : فائل

آج حضور سید دو عالم ﷺ کے اس فداکار و جاں سپار کا یومِ وصال منایا جارہا ہے، بلاشبہہ جس کے نام کے ساتھ عشق و محبت، ایثار و قربانی، خلوص و وفا، عالی ظرفی و سخاوت اور اقلیم فیاضی کی آبرو وابستہ ہے۔ یہ وہ بے عدیل و عدیم النظیر ہستی ہے جو طلوع آفتاب قیامت تک مہر و ماہ کی طرح نیلگوں آکاش پر ضیا پاشیاں کرتی رہے گی۔

پیکر خلوص و وفا سیدنا صدیق اکبرؓ وہ رفیق نبوتؐ اور معتمدِ خاص تھے، جنہیں اہل وجدان مزاجِ شناسِ نبوتؐ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ آپؓ کے قبولِ اسلام سے فدایانِ دین محمدؐ کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور عزائم کو تسخیر کے ایسے افق عطا ہوئے، جس سے تخیل و طائر دینِ مبین اوج ثریا کی جانب مائل پرواز نظر آنے لگا۔ کسی بھی ارفع تحریک کی کام یابی کے دو ہی زینے ہوتے ہیں، جن کو اپناکر اس تحریک کے فدائی اسے کام یابی سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ مالی معاونت کا اور دوسرا اپنے اثاثۂ حیات کی قربانی کا ہوتا ہے۔

رفیق نبوتؐ، ابن ابی قحافہؓ نے اشاعتِ اسلام اور صاحبؐ قرآن کی بے مثال معاونت کا حق دونوں طرح سے ادا کیا۔ تقدیسِ دامنِ نبوت سے وابستہ ہوتے ہی اپنی تمام دولت و مروت نعلین حبیب کبریاؐ پر نچھاور کردی۔

جنگ ہو یا امن، شب کی تاریکی ہو یا صبح کا اجالا، مصائب و آلام کی آندھیاں چل رہی ہوں یا رحمت کی گھٹائیں برس رہی ہوں، غزوہ تبوک ہو یا غزوہ بدر، شب ہجرت ہو یا فتح مکہ، امتدادِ زمانہ کی قہرمانیاں ہوں یا فتح مبین کی شادمانیاں، رنج و کلفت ہو یا فرحت و انبساط، فدایان نبوتؐ کا انبوہِ کثیر ہو یا غارِ ثور کی تنہائیاں، سوز و گدازِ یقین کا معاملہ ہو یا حرارتِ ایمانی کی آزمائش، کون سا ایسا موقع ہے جہاں راز دارِ نبوتؐ، صدیق اکبرؓ نے اپنے جذبۂ ایقان کی قندیل روشن نہ کی ہو۔

فقرِ سوز صدیقؓ تو وہ متاعِ گراں مایہ ہے، جس سے تشنگان غنایت و معرفت تاابد سیراب ہوتے رہیں گے۔ غزوہ تبوک کے ایمان افروز اور وجد آفرین واقعے سے تو تاریخ اسلام کبھی دست کش نہیں ہوسکتی، جب حضورؐ نے دشوار ترین وقت میں صحابہ کرامؓ سے مالی معاونت طلب فرمائی تو اقلیم وفا کا یہ تاج ور کاشانۂ صدیقؓ کا تمام اثاثہ آقائے گیتی پناہ ﷺ کے حضور لے آیا۔

ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اس کی کتنی خوب صورت منظر کشی کی
اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے اُستوار
اور پھر اقبالؒ کے اس شعر نے تو اہل قلب و نظر کو تڑپا کے رکھ دیا

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے، خدا کا رسولؐ بس

حضورؐ کی غلامی کا قلاوہ زیب گلو کرنے کے بعد صدیق اکبرؓ بھی قندیل اسلام کی لو سے لوگوں کے دلوں کو جگمگانے لگے۔ آپؓ اپنے بخت بے دار پر نازاں تھے کہ آپؓ کو بارگاہ نبوت سے انتہائی قرب کی نوید جاں فزا سنائی گئی۔ ابوبکرؓ کے اس جذبہ ایثار و وفا کیشی اور شکوہِ فقر کے پیش نظر ہی اقبال نے بارگاہ نبوت میں یہ درخواست کی ہے

دگرگوں کرد لادینی جہاں را
زآثارِِ بدن گفتند جاں را
ازاں فقرے کہ باصدیق داری
بشورے آور ایں آسودہ جاں را

ترجمہ ’’بے دینی نے جہاں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ آج روح کو بھی جسم کی طرح مادی کہا جارہا ہے۔ اُس فقیری سے جو آپؐ نے صدیق اکبر ؓ کو عطا کی، مسلمان کی آرام پسند زندگی میں ایک تلاطم بپا کردیں‘‘
سیدنا صدیق اکبرؓ کو یوں تو عمر بھر حضورؐ کی قربت کی انتہا میسر رہی مگر غار ثور کی تین راتیں ارتباطِ صداقتؓ و نبوتؐ کا خلاصہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان دو ہستیوں میں تقدیس محبت و مؤدت کی ایسی ایسی منازل طے ہوتی رہیںکہ اقلیم الفاظ و معانی کے بڑے بڑے تاج دار بھی ان کیفیات کی منظر کشی سے عاجز نظر آتے ہیں۔

ایک مؤرخ اسلام چشم تخیل میں دیکھتا ہے کہ غارِ ثور پر چڑھتے ہوئے جبین رسالتؐ پر تھکاوٹ کے آثار ہویدا ہوئے۔ مزاج شناس نبوت جان گئے کہ وجہِ تسکین کائنات گراں باریٔ طبع محسوس فرما رہے ہیں۔ آپؓ نے جانِ کائناتؐ کو کندھوں پہ اٹھالیا۔ چشم فلک کتنا خوب صورت اور کیف آور نظارہ کررہی ہے۔

دوشِ صداقت پر انوارِ نبوتؐ کی بارش ہورہی ہے۔ غار کے دہانے پر پہنچ کر حضورؐ شانۂ صدیقؓ سے نیچے اترے۔ ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں آقاؐ میں غار کے اندر جاکر صفائی کا جائزہ لوں تاکہ آپؐ کے نفیس و مقدس وجود اقدس کے مطابق اسے قیام کے قابل بنایا جاسکے۔ صفائی کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی آقاؐ تشریف لے آئیے۔ نبی مکرمؐ چوں کہ تھکاوٹ محسوس فرما رہے تھے، اس لیے سر مبارک آغوش ابوبکرؓ میں رکھ کر محو استراحت ہوگئے۔ اہل دل ذرا صدیق اکبرؓ کی خوش بختی کا جائزہ لیں اور اس جاں بخش منظر کو احاطۂ تخیل میں لائیں۔

محبوب رب کردگار، نورِ اولین و آخرین حضور سرور کائنات ﷺ اپنے رفیق خاص کی گود میں محو خواب ہیں۔ رات کی پرسکون تنہائی میں جناب ابوبکرؓ حضورؐ کے جمالِِ جہاں آرا کا نظارہ فرما رہے ہیں، حریم حسنِ کائنات سے نور چھن چھن کر برس رہا ہے اور چشم صداقت میں سما رہا ہے۔ صدیق اکبرؓ اس وقت قربت نبوی ﷺ کی جن انتہاؤں اور لطافتوں سے حظ اٹھا رہے ہیں، ایسا دل کشا منظر کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک طرف جلوہ ہائے جمال کی فراوانی ہے جو قلب و نظر صدیقیت کو حلقہ بہ گوش بنائے ہوئے ہے۔ دوسری جانب تجلیات جلال کی ایسی لمعہ افشانی ہے کہ آپؓ کی آنکھ جی بھر کر نظارہ کرسکے۔

اس دوران ایک زہریلے سانپ نے ابوبکرؓ کی ایڑی پر ڈس لیا۔ آپؓ شدت درد سے بے قرار ہوگئے۔ مگر انتہائے درد کے باوجود بھی آپ نے اپنے جسم کو جنبش نہ دی مبادا جانِ کائنات و حسنِ کائنات ﷺ کے آرام میں خلل نہ آجائے، مگر درد کی ٹیس اتنی زور آور تھی کہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔

جب گرم اشکِ صداقت برگِ گل سے بھی نازک تر رخسار نبوت پر پڑے تو حضورؐ بے دار ہوگئے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ابوبکر، آنکھوں میں نمی کیسی؟ عرض کیا ایک سانپ نے ڈس لیا ہے، لب ہائے نبوت پر جاں سپاری ابوبکر کو دیکھ کر تبسم کی جاں افروز لکیر بن گئی۔

مسیحائے انس و جن، حکیم کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ایڑی قریب لاؤ۔ آپؐ نے لُعاب دہن متاثرہ جگہ پر لگایا تو درد فوراً کافور ہوگیا۔ اس عالم تہائی میں جناب ابوبکرؓ مانندِ غنچہ کھلے جارہے ہیں، جیسے وہ حلقہ موج صبا میں ہوں۔ رحمتوں کی برستی گھٹا میں لبوں پہ ذکر حبیبؐ جاری ہے، اک موج سلسبیل جسم ابوبکر میں ڈھلتی جارہی ہے۔ کونین بھر کی دولت بھی اس ایک لمحے کی بدل نہیں ہوسکتی، جس میں حضورؐ کا سر اقدس آپؐ کی آغوش میں تھا

از نگاہِ آقا، می خواہم نشاطِ سرمدی
انبساطِ عالم فانی، مرا درکار نیست

مفہوم ( میں تو اپنے آقا کی نگاہ کرم و عنایت کا خواہش مند ہوں، جو لطف و کرم اور خوشیوں کا منبع ہے، میں عالم فانی کی خوشیوں کا طلب گار نہیں ہوں)

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسا منفرد مقام و مرتبہ، عزت و شوکت جو آپؓ کو کائنات بھر کے جن و انس سے ممیّز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آپؓ کو امام الانبیا ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی آپؐ کے مصلے پر سترہ نمازیں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ قربت بارگاہ نبوت کی ایسی انتہا ہے، جس پر عالمِ گیتی کے تمام اوج و ارتفاع رشک کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام کی ترویج و اشاعت میں میں خریداریٔ موذنِ اسلام کا معاملہ ہو یا حضرت عثمانؓ کو ترغیب اسلام، فتنہ انکار نبوت کی بیخ کنی کا مسئلہ ہو یا مانعین زکوٰۃ سے نبرد آزما ہونا، آپؓ کی قوتِ ایمانی و لامثال استقامت و استقلال کے بین ثبوت ہیں۔

اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کے گھرانے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کے تمام افراد کو دولت ایمانی نصیب ہوئی۔ آپؓ کی پیاری صاحبزادی سیدہ عائشہؓ صدیقہ طیبہ طاہرہ کو حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کے عقد مبارک میں آنے کی بھی نعمت عطا ہوئی۔ یہ وارفتگیٔ قربت اس حد تک بڑھی کہ حجرۂ عائشہؓ ہی آپ کے مدفن مبارک میں تبدیل ہوگیا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپؓ اپنے آقاؐ کے ساتھ ہیں۔

رب کائنات ہمیں جناب صدیقِ اکبرؓ کے خزانۂ جذبۂ عشق رسول ﷺ میں سے خفیف سی رمق ہی عطا فرما دے۔ آمین

خلیفۂ رسولِ اکرم ﷺ، پیکرِ وفا حضرت سیدنا ابُوبکر صدیقؓ
آپ نے صراط مستقیم میں ہر طرح کی تکالیف، مصائب اور آلام برداشت کیے

آپؓ کا نام عبداﷲ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ یہ دونوں القاب جناب نبی کریمؐ نے عطا فرمائے۔ آپؓ کا نسب آٹھویں پشت پر رسول کریمؐ سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بردبار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمؐ کے پہلے صحابی، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، رازدار اور آپؐ کے سسر بھی تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ دیت و تاوان کے تنازعات کا فیصلہ آپؓ ہی سے کروایا جاتا تھا۔

جب آپؓ کسی کی ضمانت دے دیتے تو اس پر اعتبار کیا جاتا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ نے شراب کو چُھوا تک نہیں۔ صغر سنی سے ہی آپؓ کو رسول اکرمؐ سے والہانہ محبت و مودت تھی۔ اعلان نبوتؐ کے بعد بغیر کوئی معجزہ طلب کیے ایمان لائے۔ مشرف بہ اسلام ہو نے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کی وہ خدمت کی کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں دی جاسکتی۔

یہ وہ وقت تھا کہ دعوت اسلام کا زبان پر لانا ایسے تھا جیسے جلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں لینا۔ مگر آپؓ نے اس دور میں بھی دامن نبوتؐ نہ چھوڑا اور نبی کریمؐ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اپنایا اور ایسا اپنایا کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی اور اس راستے میں ہر طرح کی تکالیف، مصائب اور آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اشراف قریش کی ایک جماعت سیدنا ابوبکرؓ کی تبلیغ سے ہی حلقہ بہ گوش اسلام ہوئی۔ عشرہ مبشرہ میں سے سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم اجمعین آپؓ کے وعظ و ترغیب سے مسلمان ہوئے۔

اعلان نبوت کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے رسالت مآب حضرت محمد ؐ کو اذن ہجرت ہوتا ہے تو آپؐ اپنے دیرینہ دوست سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ نبی اکرمؐ کی معیت میں مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔

ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ ابوجہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیدالانبیا نبی کریمؐ اور سیدالصحابہؓ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کھوجی قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں تک تو وہ دونوں آئے ہیں مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابوجہل ایک دم چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکرؓ نے اپنے ساتھی محمد ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہوگا۔

اﷲ رب العزت کی قدرت تھی کہ جناب نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غار میں داخل ہونے کے بعد حکم ربانی کے تحت ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والی جگہ پر گھونسلا بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بُن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابوجہل اور اس کے گماشتے نبیؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کی تلاش سے مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔

ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا، دشوار گزار اور پُرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اﷲ تعالی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضور نبی کریمؐ کا صحابی فرمایا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے نبی کریمؐ کی معیت میں ساری زندگی گزاری ۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل سرانجام نہیں دیا جو نبی کریمؐ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ نبی کریمؐ کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکرؓ ہی تھے۔

آپؓ نے اسلام کے ابتدائی دور میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ آقاؐ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی کریمؐ کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتی کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ ہر غزوہ میں نبی کریمؐ کے ہم قدم رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ واحد صحابی ہیں کہ جن کی چار پشتیں صحابی تھیں۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور نبی کریم کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوگا کہ نبی کریمؐ اور جناب ابوبکرؓ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ اسی طرح بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ ہر دو حضرات کے وصال کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی کریمؐ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور بعد میں سیدنا عمرؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ جب سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں خلیفہ رسولؐ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیدنا ابوبکرؓ کو حاصل ہے۔ جب کہ دیگر خلفاء کے لیے امیرالمومنین کا لقب استعمال کیا گیا۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے معیت نبوت ؐ اور اپنی خلافت میں اسلام کی وہ خدمت کی کہ امت مسلمہ تاقیامت ان کے اس احسان سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ مرض وفات میں فرمایا کہ جن کپڑوں میں میرا انتقال ہورہا ہے، مجھے انہی کپڑوں میں کفنا دینا۔ تجہیز و تکفین کے بعد ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے حجرہ (جو کہ روضہ نبویؐ کہلاتا ہے) میں نبی کریمؐ کے ساتھ تدفین کی گئی۔ اﷲ پاک ہمیں صحابۂ کرام کی طرح نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

عاشقِ صادق سید المرسلین ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ
آپؓ قافلۂ صحابہؓ کے سالار اعظم، نبوت و رسالتؐ کے بعد فضیلت و حرمت کا نشان، انصار و مہاجرین کے سردار، یارِ غار و مزار، اور محب رسولؐ کے مقام ارفع پر فائز تھے

محبت ایک فطری جذبہ ہے اور یہ جذبہ پاکیزگی و طہارت سے عبارت ہے۔ ہر امتی کے لیے اپنے نبیؐ سے سچی محبت کے سوا دوسری کوئی شے اہمیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی امتی اپنے نبیؐ کے اسوہ مبارکہ کو پاتا ہے تو کمال وارفتگی سے کھنچا کھنچا اپنے مرکز محبت کی اداؤں میں خود کو ڈھالتا چلا جاتا ہے اور وہ جب اسوہ رسولؐ میں ڈھل چکتا ہے تو پھر ساری مخلوق کا مرکز التفات، ہادی و مقتدا اور میرکارواں بن جاتا ہے۔

پہلے جو اپنی حیات مستعار میں کسی راہ بر و راہ نما کا متلاشی تھا، دامن رسولؐ سے لپٹتے ہی اب وہ خود راہ بر و راہ نما بن گیا اور لوگوں کے لیے وجہ تقلید اور مرجع ہدایت ہوگیا۔ یہ برکات نبویؐ کی کرشمہ سازی ہے کہ ذرے کو ہم دوش ثریا کردیتی ہے۔ نبوت و رسالت کے منتہاء، انبیاء و مرسلین کے سردار و مقتداء، انسان کو مقام انسانیت دکھانے والے، گم راہوں کو راہ ہدایت بتانے والے اور کام یابی و کام رانی کی بلندیاں عطا کرنے والے، گناہ گاروں کے شفیع اور بے کسوں کے والی تاج دار مدنی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کے تمام صحابہؓ جان نثاری، محبت و وارفتگی اور ایثار و قربانی کا مرقع تھے۔

حضور ﷺ کے ایک اشارۂ ابرو پر جان و مال کو بے دریغ نچھاور کر دینے کو صحابہ کرام ؓ اپنی زندگی کا بہترین مقصد تصور کرتے تھے۔ حضورؐ کا قول صادق ہو یا فعل مبارک، گریہ و تبسم ہو یا عبادت و معاملت، جنگ ہو یا امن ہر بات صحابہ ؓ کے لوح قلب پر منقش تھی۔ شرف صحابیت پانے والے تمام صحابہؓ آسمان ہدایت کے ستارے اور چشم بینا کے لیے نور تھے۔

مگر قافلۂ صحابہؓ کے سالار اعظم، نبوت و رسالتؐ کے بعد فضیلت و حرمت کا نشان، انصار و مہاجرین کے سردار، مظہر انوار رسالت، یار غار و مزار رسولؐ، افضل الابشر بعد الانبیاء سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ محبت رسولؐ کے جس مقام ارفع و اعلیٰ پر فائز تھے، وہ تاریخ کے صفحات میں کسی کے ہاں نظر نہیں آتا۔ حضرت صدیقؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کو دنیا میں کیا پسند ہے ؟ تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا ’’ بس حضور پاک ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

حضرت ابو بکر ؓ حضور پاک ﷺ کی رضا جوئی، مزاج رسالت کی رعایت اور منشاء نبوتؐ کی جستجو میں ہمہ تن مستغرق و منہمک رہتے تھے۔ ایک مرتبہ حضورؐ نے اﷲ کی راہ میں مال طلب فرمایا تو تمام صحابہؓ اپنا مال لے کر دوڑے چلے آئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے بھی اپنے گھر کا آدھا اثاثہ جمع کیا اور یہ خیال فرمایا کہ آج مال دینے میں کوئی مجھ سے سبقت نہ لے جاسکے گا، یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ سے بھی میں بڑھ جاؤں گا۔

اور گھر کا آدھا مال لا کر حضور پاک ﷺ کی پاک بارگاہ میں پیش کردیا۔ بالآخر حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ بھی مال لے کر دربار رسالت ﷺ میں آن موجود ہوئے۔ حضور نے دریافت فرمایا صدیقؓ گھر کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ عرض کیا میں نے اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسولؐ چھوڑا ہے۔ آپؓ نے اپنے گھر کا تمام اثاثہ اپنے محبوب پاک ﷺ کی نذر کر دیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے اس مثالی جذبہ حُب و ایثار سے متاثر ہو کر حضرت عمر فاروقؓ نے خراج عقیدت کے طور پر فرمایا کہ ’’اے ابوبکر ؓ آپ محبت و ایثار کی ایسی منزل پر ہیں کہ ہم کسی چیز میں بھی آپ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے جاسکتے‘‘ (مشکوۃ)

حضرت ابو بکر ؓ محبت رسول ﷺ میں بہ ہر پہلو کامل اور اسوہ رسولؐ کا مکمل نمونہ تھے۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ تاج دار مدینہ نے اہل روم سے جنگ کے لیے ایک لشکر مرتب فرمایا تھا اور جلیل القدر صحابی حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اس لشکر کا سپاہ سالار مقرر فرمایا تھا۔ یہ لشکر ابھی جنگ کے لیے روانہ نہ ہو پایا تھا کہ بنی پاک ﷺ دنیا سے پردہ فرما گئے۔

اس سانحہ عظیم کے ساتھ ہی کئی شورشیں کھڑی ہوگئیں۔ ارباب علم و دانش نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کی کہ ان دگرگوں حالات میں لشکر کشی قرین مصلحت نہیں، کیوں کہ داخلی انتشار میں خارجی امور بے حد نازک اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے فوج کی روانگی سردست مناسب نہیں۔ مگر جس کا ہر لمحہ اتباع رسول ﷺ اور ہر سانس رضائے حبیب میں صرف ہوتا ہو وہ کیسے گوارا کرلے کہ اپنے محبوبؐ کے حکم کو موخر کر دے۔

آپؓ نے ولولہ شجاعت سے لبریز یقین محکم کے ساتھ فرمایا کہ مجھ سمیت تمام مسلمان اگر شہید ہو جائیں تو کچھ غم نہیں، مگر حضورؐ کا فرمان پورا نہ ہو تو مجھ پر یہ بوجھ بہت گراں اور بھاری ہے۔ عشق رسول ﷺ کی جو دولت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حصے میں آئی، قلم اس کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔

سلمہ بن اکوعؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’بنی نوع انسان میں سب سے بہتر ابوبکرؓ ہیں سوائے اس کے کہ وہ نبی نہیں‘‘ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء مرسلین کے صحابہ میں سے کوئی ابوبکرؓ سے بڑھ کر نہ تھا اور نہ ہی میرے صحابہؓ میں کوئی ابوبکرؓ سے افضل ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ ابو بکر سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا میرے ہر امتی پر واجب ہے‘‘۔

آپؓ کو قدرت نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ آپ کے سوا کسی کا نام صدیق نہیں رکھا گیا۔ آپ رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ غار میں ساتھی، ہجرت میں رفیق رہے اور رسول پاکؐ نے آپ کو نماز پڑھانے پر مامور فرمایا، جب کہ تمام صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ ابوبکر صدیقؓ رسول پاک ﷺ کے وزیر تھے تمام امور میں آپؐ ان سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ ہی اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، بدر کی جنگ کے روز خیمہ میں ثانی اور مزار میں ثانی ہیں۔

سرور کائنات ﷺ کسی کو آپ پر ترجیح نہ دیتے تھے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام بھی آپ نے قبول کیا۔ قرآن مجید کا نام سب سے پہلے آپ نے مصحف رکھا۔ قرآن مجید کو سب سے پہلے جمع بھی آپ نے کرایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے کفار قریش کے ساتھ نبی پاک ﷺ کی حمایت میں جنگ لڑی اور ضربات شدید برداشت کیں وہ بھی حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ آپ خلیفہ رسولؐ ہیں۔

آپؓ سب سے پہلے خلیفہ ہیں، جس کا نفقہ رعایا نے مقرر کیا۔ سب سے پہلے بیت المال آپؓ نے قائم فرمایا۔ سب سے پہلے آپؓ نے جہاد اور استنباط احکام کے اصول اربعہ مقرر فرمائے۔ سب سے پہلے دوزخ سے نجات کی خوش خبری نبی کریم ﷺ نے آپؓ ہی کو دی اور آپ کو عتیق کے لقب سے مشرف فرمایا۔ آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جن کو بارگاہ رسالت سے کوئی لقب عطا ہوا۔ بائیس جمادی الآخر کو آپؓ کا وصال مبارک ہوا۔

تمام اہل ایمان اس دن آپ کی یاد میں محافل مناتے ہیں۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کے محامد و مکارم اور اوصاف جلیلہ سے کتب سیرت لبزیز ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان مقدس صحابہ کرام ؓ کی سیرت سے راہ نمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔