’بچوں کے ڈراموں کیلئے کوئی جگہ نہیں‘

سدرہ ایاز  جمعـء 1 اپريل 2016
قیصر شہزاد کی بربادی میں خود ان کی اپنی غلطی بھی شامل ہے، اگر وہ بروقت متعلقہ ادارے کے بڑے افسران سے رابطہ کرلیتے تو انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

قیصر شہزاد کی بربادی میں خود ان کی اپنی غلطی بھی شامل ہے، اگر وہ بروقت متعلقہ ادارے کے بڑے افسران سے رابطہ کرلیتے تو انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

’’بڑے میاں کہاں سے آ رہے ہو اور کہاں جا رہے ہو؟‘‘

گلی کے کونے پر موجود چند آوارہ لڑکوں نے وہاں سے گزرتے ہوئے معمر شخص کے گرد گھیرا ڈال لیا اور اس کے ہاتھ میں موجود تھیلا چھین کر اسے ٹٹولنے لگے۔ اس اچانک افتاد پر بوڑھا حیرت زدہ رہ جانے کے ساتھ پریشان بھی ہوا، اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ ان لڑکوں سے کیا کہے، اسے ہکا بکا دیکھ کر آوارہ گروہ کا ایک لڑکا اپنے ساتھیوں سے بولا۔

’’یار انگلش میں پوچھو، شاید بڈھے کو اردو نہیں آتی۔‘‘

یہ سنتے ہی وہ قہقہے لگانے لگے، بوڑھا بے بسی سے انھیں دیکھے جارہا تھا اور قریب تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے مگر اسی وقت ایک عجیب و غریب حلیے اور وضع قطع کے لحاظ سے پرانے زمانے کا انسان نظر آنے والا کوئی شخص سامنے والے گھر سے نکلا اور ان کے قریب آگیا۔

’’یہ کیا چیز ہے بھئی‘ ایک لڑکے نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔

’’یہ شاید ہیرو بننا چاہتا ہے، مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ ہم اسے زیرو بناسکتے ہیں۔‘‘ ایک اور لڑکے کی آواز آئی۔ مگر وہ شخص کسی بھی طرح ان کے اس بھونڈے مذاق یا رعب میں آتا نظر نہ آیا اور سوال کیا۔

’’یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟‘ اس پر بدمعاش گینگ کے لمبے تڑنگے لڑکے نے اکڑ کر کہا۔

’’ہم اس بڈھے کو تنگ کر رہے ہیں۔ تم کو کوئی اعتراض ہے کیا؟‘‘ اس پر باقی لڑکوں نے ایک مرتبہ پھر قہقہہ لگایا۔ اس عجیب لباس اور حلیے والے شخص نے گہرا سانس بھرا اور بولا،

اب میں تمھیں تنگ کرتا ہوں۔ دیکھو کتنا مزہ آتا ہے۔

یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے چٹکی بجائی اور لڑکے اپنے جسم پر بُری طرح کھجانے میں مصروف ہوگئے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے جسم پر کیڑے رینگ رہے ہوں۔ بوڑھا انہیں حیرت سے دیکھنے لگا جب کہ وہ شخص دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے وہاں کھڑا مسکراتا رہا۔ خارش کی وجہ سے لڑکوں کا بُرا حال ہوگیا تھا۔ یہ دیکھ کر عجیب حلیے والے شخص نے پھر چٹکی بجائی اور اچانک ہی لڑکوں کی تکلیف جیسے اڑن چھو ہوگئی۔

بزرگوں کا ادب کرنا سیکھو، کل تمہیں بھی اس عمر میں پہنچنا ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے، کیا تمہارے والدین نے تمہیں یہ تربیت دی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں جس کی سزا آج تمہیں مل گئی ہے۔ چٹکی بجانے والا اب ان لڑکوں سے مخاطب تھا۔ لڑکوں نے اسی وقت بوڑھے سے معافی مانگی اور اپنی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرنے کا عہد بھی کیا۔

یہ منظر تھا نوے کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر چلنے والے بچوں کی ڈرامہ سیریز ’عینک والا جن‘ کا۔ چٹکی بجانے والا یہ شخص اس ڈرامے کا مرکزی کردار تھا جس کا نام اب آپ کو یاد آگیا ہوگا۔ جی ہاں، نستور ۔۔۔ نستور جن (عینک والا جن)۔ اس کےعلاوہ اس ڈرامہ کے دیگر اہم کرداروں میں بل بتوڑی، زکوٹا جن بھی شامل تھے۔ اس ڈرامہ سیریز نے بچوں کو تو کیا بڑوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ یہ ایک بھرپور تفریحی اور بامقصد سیریز تھی۔ اسی مقبولیت کے پیش نظر یہ دوبارہ بھی ٹی وی پر نشر کیا گیا، اور پھر 2012ء میں تیسری بار اس کے نشر ہونے کی باتیں سنائی دی تھیں۔

بچوں کی تفریح اور تربیت کے لیے تحریری ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ڈرامائی تشکیل کی کل بھی ضرورت تھی اور آج بھی ہے مگر افسوس کہ آج کا میڈیا اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ خیر اور شر کی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس پس منظر میں نئی نسل کی تربیت کرنے اور انہیں آگاہی دینے کے حوالے سے عینک والا جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس تحریر کے ابتدائیے میں جو منظر بیان کیا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ماضی میں ٹی وی کے ذریعے کس طرح نئی نسل کو اچھائی برائی اور معاشرتی خوبیوں اور کمزوریوں سے آگاہی دی جاتی رہی ہے۔

میری اس تحریر کا سبب نستور جن بنا جو کہ نیکی اور اچھائی کی علامت اور بچوں کا آئیڈیل تھا۔ یہ کردار شہزاد قیصر نے ادا کیا تھا جو بدقسمتی سے آج خود ایک معاشرتی بُرائی یعنی دھوکہ دہی یا فراڈ کا شکار ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شہزاد قیصر کی دُکھ بھری کہانی ان کی زبانی سامنے آئی جس کے مطابق چند سال پہلے ایک آدمی ان کے پاس پی ٹی وی کا ایک خط لے کر آیا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عینک والا جن کی 20 یا 30 اقساط تیار کرکے رابطہ کریں، اور معاہدے کے بعد یہ ڈرامہ دوبارہ نشر کیا جائے گا۔

قیصر شہزاد کے مطابق جب اُن کو یہ آفر ہوئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے جوڑ جتن کرکے رقم اکٹھا کی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جدید ٹیکنالوجی اور تھری ڈی کی مدد سے اس حوالے سے کام مکمل کرلیا۔ اس کے بعد وہ 20 اقساط لے کر جب پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر پہنچے تو یہ سن پر اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی کہ جس خط کی بنیاد پر انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے ڈرامہ تیار کیا وہ خط ہی جعلی تھا اور قومی ادارے کی جانب سے ایسا کوئی خط جاری ہی نہیں کیا گیا۔

قیصر شہزاد نے نہایت کربناک لہجے میں بتایا کہ اس صدمے نے ان کی بینائی پر شدید اثر ڈالا۔ یہ دھوکا ذہنی دھچکا ثابت ہونے کے علاوہ ان کی معاشی حالت بھی برباد کرگیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے جو رقم لی تھی اُس کو لوٹانے کے لیے ان کو اپنی جائیداد تک فروخت کرنا پڑگئی۔ ان کے مطابق وہ اس وقت جس گھر میں ہیں اس میں نہ تو کھڑکیاں ہیں اور نہ ہی دروازے۔ یہی نہیں بلکہ بچوں کا یہ ہیرو اور خیر کی علامت بجلی جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تیار اقساط کے ساتھ کئی نجی ٹی وی چینلز سے بھی رابطے کئے مگر سب کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بچوں کے لیے کوئی سلاٹ نہیں۔

شہزار قیصر چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ جو کچھ بھی گزری ہے اُس کے بارے میں لوگوں کو بھی علم ہے، لہذا اِس مقصد کے لیے انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا سہارا لیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگ رہے، بلکہ صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ معاشرے نے ان کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے۔ چونکہ میری براہ راست اُن سے گفتگو ہوئی اِس لیے یہ کہانی آپ تک پہنچا رہی ہوں مگر کیا ہم اپنے بچپن کی یادوں میں بسے اس جادوگر یا سپر ہیرو کو اس حال میں دیکھ کر دکھی نہیں ہیں؟ کیا ہم میں سے کوئی آگے بڑھ کر نیکی اور اچھائی کے لئے کام کرنے والے اس مجبور انسان کی مدد کرے گا؟

ان سے بات چیت کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات نے بھی سر اٹھایا کہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک ملاقات اور ایک خط پر یقین کرکے انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس کام پر کیسے لگادی؟ یہی نہیں بلکہ اس کی تصدیق کے لیے متعلقہ ادارے کے کسی بڑے عہدیدار سے رابطہ بھی نہیں کیا گیا؟ جبکہ یہ ان کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ پھر دھوکے کا شکار ہونے کے بعد اتنے عرصے تک خاموش کیوں رہے؟ مجھے لگتا ہے کہ قیصر شہزاد کی بربادی میں خود ان کی اپنی غلطی بھی شامل ہے، اگر وہ بروقت متعلقہ ادارے کے بڑے افسران سے رابطہ کرلیتے تو انہیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس نے انہیں اس معاملے کی تصدیق کرنے سے روکے رکھا؟

سچ تو یہ ہے قصور اپنا ہے
جس کی آخر سزا ملی

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی وی یا نجی چینلز پر بچوں کے ڈرامے نشر ہونے چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔