پانچ منٹ عمر والا ہرن کا بچہ
میں نے گدھوں، گھوڑوں، کتوں، بلیوں حتیٰ کہ جنگل کے درندوں کو بھی دیکھا کہ وہ اتنا ہی کھاتے ہیں
SUKKUR:
میں نے گدھوں، گھوڑوں، کتوں، بلیوں حتیٰ کہ جنگل کے درندوں کو بھی دیکھا کہ وہ اتنا ہی کھاتے ہیں، جتنا ان کا معدہ برداشت کر سکتا ہے۔ جنگل کے بعض درندے شکار کھانے کے بعد اس کا کچھ حصہ کہیں چھپا کر رکھ دیتے ہیں لیکن اگر وہ اس چھپائے ہوئے گوشت کو ایک دو دن میں استعمال نہ کریں تو وہ سڑ جاتا ہے اور کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ انسان یعنی اشرف المخلوقات بھی بھوک سے زیادہ نہیں کھا سکتا، اگر فریج میں محفوظ کر کے بھی کھائے تو چند دن بعد وہ کھانا کھانے کے قابل نہیں رہتا۔
بعض پیٹو قسم کے لوگ کھانے کی ہوس میں عام لوگوں سے اور پیٹ کی عمومی گنجائش سے زیادہ کھاتے ہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کھانے کی بھوک کے علاوہ ایک بھوک ایسی ہوتی ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی بلکہ آخری سانس تک ختم نہیں ہوتی یہ بھوک ہے دولت کی۔ دنیا میں آج تک دولت کا کوئی ایسا بھوکا پیدا نہیں ہوا جو کسی اسٹیج پر جا کر یہ کہہ دے کہ اب میرا پیٹ بھر گیا ہے۔
غذا کی بھوک اور حد سے زیادہ کھانا کھانے سے کھانے والے کو نقصان بھی ہوتا ہے اور وہ پیٹو کے نام سے بدنام بھی ہوتا ہے، لیکن دولت کے بھوکوں کو نہ کسی مرحلے پر کوئی نقصان ہوتا ہے نہ انھیں پیٹو کہہ کر حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس دولت کا جتنا بڑا بھوکا ہوتا ہے معاشرے میں وہ اتنا ہی بڑا آدمی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دولت کا ارتکاز ایک گند ہے، لیکن اس گند سے مکھی مچھر پیدا نہیں ہوتے بلکہ دولت مند شیشے کے ایسے محلوں میں رہتے ہیں جہاں مکھیوں، مچھروں کا گند ہی نہیں ہوتا۔
جنگل کے درندے اہل عقل نہیں ہوتے، ان میں اچھوں بروں، جائز ناجائز، صحیح غلط کی کوئی تمیز ہی نہیں ہوتی، ان کے سامنے صرف ان کی بھوک ہوتی ہے۔ ان کا پیٹ ہوتا ہے ۔ میں ٹی وی پر ''ڈسکوری'' دیکھ رہا تھا، اس پروگرام میں جنگلی جانوروں کی فطری زندگی دکھائی جاتی ہے، ویسے تو اس پروگرام کا آغاز ہی چیر پھاڑ سے ہوتا ہے، ہر طاقتور کمزور کو بے تکلفی سے کھا جاتا ہے، اس کلچر کو جنگل کے قانون کا نام دیا جاتا ہے، لیکن جنگل کے ان درندوں کو بعض وقت ایسا ظلم کرتے بھی دکھایا جاتا ہے کہ یہ ظلم دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔
میں یہ پروگرام دیکھ رہا تھا کہ ایک ہرن نے بچہ دیا، جانوروں کے بچوں کو اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے میں مہینوں اور برسوں نہیں لگتے بلکہ وہ جیسے ہی ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں، اٹھنے اور چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہرن کا یہ بچہ بھی پیدا ہوتے ہی اٹھنے اور چلنے کی کوشش کر رہا تھا، ابھی وہ گر اور اٹھ ہی رہا تھا کہ قریب کی جھاڑی سے ایک شیر باہر آیا، ماں شیر کو دیکھ کر بھاگی لیکن نومولود شاید اس کے پیروں کی زنجیر بن گیا، وہ کچھ دور جا کر رک گئی اور اپنے بچے کو دیکھنے لگی، شیر بچے کے قریب آیا اور بچے سے کھیلنے لگا، میں سمجھا شاید درندے کو بھی چند منٹ کے اس بچے پر رحم آ گیا ہو، لیکن دو منٹ بھی نہیں گزرے کہ اس نے ہرن کے اس بچے کو منہ میں دبا لیا۔
ہرن اس خوفناک منظر کو دیکھ رہی تھی، اسے بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ اداس کھڑی رہی، شیر نے بچے کی لاش کو زمین پر پھینک کر ہرن پر یعنی بچے کی ماں پر چھلانگ لگا دی اور اپنے نوکیلے دانت اس کی گردن میں گاڑ دیے، چند منٹوں کے اندر اندر ماں اور بیٹے کی لاشیں زمین پر پڑی تھیں اور درندہ ان کی ہڈیاں چبا رہا تھا۔
جانے میرے ذہن کے پردے پر کیوں اچانک تھر کے سیکڑوں نومولود بچوں کا خیال آ گیا۔ یہ ہرن کے بے زبان لاوارث بچے نہیں ہیں، انسانوں کے بچے ہیں۔ برسوں سے ان کی اموات کی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں اور ہم انسان اشرف المخلوقات بچوں کے لگاتار مرنے کی خبریں بھی پڑھ رہے ہیں، لیکن... ہرن کی طرح حسرت اور افسوس سے انھیں مرتے دیکھ رہے ہیں، انھیں کوئی شیر یا چیتا نہیں مار رہا ہے، بلکہ انھیں بھوک مار رہی ہے۔ سرکاری گودام گندم سے بھرے ہیں، ہمارے حکمران بتا رہے ہیں کہ لاکھوں ٹن فاضل گندم ہمارے پاس موجود ہے، خشک دودھ اور تازہ دودھ دکانوں پر ٹنوں کے حساب سے رکھا ہوا ہے۔ پھر تھر میں معصوم بچے کیوں مر رہے ہیں؟
ابھی پچھلے دنوں اخباروں میں ایک خبر شایع ہوئی تھی کہ سب سے زیادہ غلہ اگانے والے پنجاب کے ایک گاؤں میں بھوک سے تنگ آ کر ایک ماں نے پہلے اپنے چار بچوں کو زہر پلایا پھر خود بھی زہر پی کر مر گئی۔ ہر سال لاکھوں بچے اور بڑے دنیا میں بھوک سے مر جاتے ہیں، عالمی میڈیا میں بڑے اہتمام سے ان کے اعداد و شمار شایع ہوتے ہیں، اس کے ساتھ یہ خبریں بھی لگتی ہیں کہ منڈی میں گندم کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے ہزاروں ٹن گندم یا تو جلا دی جاتی ہے یا سمندر برد کر دی جاتی ہے۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز بھوک سے کیا تھا کہ گدھے، گھوڑے، کتے، بلیاں سب اتنا ہی کھاتے ہیں جتنا ان کا معدہ اجازت دیتا ہے، جنگل میں رہنے والے درندے بھی اپنی بھوک کے مطابق ہی کھاتے ہیں لیکن ایک بھوک ایسی ہوتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ ہے دولت کی بھوک جس کا کوئی انت نہیں ہے، دولت کی بھوک ارتکاز زر کو جنم دیتی ہے، اگر اس بھوک سے کسی کو نقصان نہ ہو تو کوئی اس بھوک کی پرواہ نہیں کرتا تھا، لیکن دولت کی یہ بھوک جب کروڑوں بھوکوں کو جنم دیتی ہے اور انسانی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو نہ صرف انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ اس کے ذہن میں دولت کے انباروں پر بے معنی بیٹھنے والوں کے خلاف نفرت اور بغاوت پلنے لگتی ہے، جو بظاہر نظر تو نہیں آتی۔ جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے سینوں میں پرورش پانے والا لیکن نظر نہ آنے والا لاوا ہوتا ہے، لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ لاوا پھٹ کر باہر آ جاتا ہے اور سامنے آنے والی ہر چیز کو خاک کر دیتا ہے، قانون اور انصاف منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
اس صورت حال کی ذمے داری اگر ارتکاز زر پر ہے کہ چند ہاتھوں میں ملک کی 80 فیصد دولت جمع ہو کر انسانوں کو بھوک کے صحراؤں میں دھکیل رہی ہے تو پھر انسانیت کا یہ تقاضا ہے کہ ارتکاز زر کی ہر اس صورت کو ختم کر دیا جاتا جو انسانوں کی بھاری اکثریت کو بھوکا مار رہی ہے، لیکن اشرف المخلوقات کا تاج سر پر سجانے اور ترقی یافتہ تہذیب کو متعارف کرانے والے ترقی یافتہ انسان کی ترقی یافتہ جمہوریت نے ارتکاز زر کو انسان کا حق اور لامحدود نجی ملکیت کو انسان کا بنیادی حق مان کر اسے جس طرح قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کیا ہے، کیا یہ حق معاشروں میں ناانصافیوں کو جنم دیتا ہے؟
بلاشبہ اس حق نے انسانوں کو 90/10 میں بانٹ دیا ہے، قانون اور انصاف کی برتری معاشروں میں انصاف اور امن و امان کے لیے ضروری ہوتی ہے لیکن اگر قانون اور انصاف نا انصافیوں کے محافظ بن جائیں تو ان سے پھوٹنے والا امن و امان آتش فشاں پہاڑوں جیسا ہوتا ہے، جو اوپر سے سبزہ زار نظر آتا ہے اندر سے کھولتا ہوا لاوا ہوتا ہے۔ آج کا مہذب انسان اور اس کے قانون اور انصاف کا نظام اس لاوے کو باہر آنے سے کب تک روک سکے گا؟