دعوے اور بڑی بڑی بڑھکیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 1 اپريل 2016

بسمارک نے کہا تھا ’’بڑے بڑے مسئلے تقریروں اور ووٹوں کی طاقت سے طے نہیں ہوتے بلکہ جنگ و جدل سے طے ہوتے ہیں‘‘ جب کہ افلاطون کہتا ہے ’’کسی شخص پر اس سے بڑی اورکوئی مصبیت نازل نہیں ہوسکتی وہ عقل وخرد کی مخالفت کرنے لگے ‘‘ ہمارے حکمرانوں کا ہر سانحے اور المیے کے بعد دعوؤ ں اور بڑی بڑی بڑھکیں مارنا وطیرہ بن کے رہ گیا ہے۔ ان کی بے حسی دیکھ کر انسان کو ملک سے بھا گ جانے کو دل کرتا ہے۔ نہ جانے قوم سے ایسے کون سے گنا ہ سرزد ہوگئے کہ اس طرح کے حکمران ہمارے نصیب بن گئے ہیں۔

یاد رکھو معصوم بچوں اور جوانوں کا خون تمہارا پیچھا مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑے گا، جب یہ معصوم بچے اور جوان رو روکر خدا کو اپنے ساتھ ہونے والے مظالم سنائیں گے تو تم خود ہی سو چ لوکس منہ سے خدا کا سامنا کر پاؤ گے۔ یاد رکھو تم حکمران وقت ہو، لوگوں کی جان کی حفاظت کی ذمے داری تم پر عائد ہوتی ہے، تم کسی بھی صورت میں اپنی ذمے داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ تم اپنے عیش وآرام، تخت و تاج کو جلا دینے کے لیے معصوم انسانوں اور بچوں کو ایندھن بناتے جارہے ہو بچے اور بڑے جل رہے ہیں، سلگ رہے ہیں، راکھ بن بن کر فضا میں اڑ رہے ہیں اور اب فضا اتنی گرد آلود ہوگئی ہے کہ تمہیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

آج ہر پاکستانی اپنے گلے میں بربادیوں کا طوق پہنے اپنے آپ کو پیٹ رہا ہے۔ اپنا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھا ئے اٹھائے پھر رہا ہے۔ قوم نے تمہارے لیے سب کچھ کیا، خدا کے واسطے بتاؤ اب قوم تمہارے لیے اور کیا کرے جب تم قوم کے لیے کچھ کروگے، صرف اپنے متعلق سوچنے اور لوٹ کھوسٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے تم کب قوم کے متعلق سوچو گے قوم مشکل میں ہے اور مشکل کشا بے نیاز بے پروا عیاشیوں اور لوٹ مار میں غرق ہیں۔

پاکستان کے عوام اور مسلح افواج قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں تو آپ ہی بتادیں کہ آپ نے ملک اورقوم کے لیے کیا کیا قربانیاں دی ہیں۔70ہزار معصوم و بے گناہ پاکستانیوں کی روحیں آپ سے سوال کررہی ہیں۔ آپ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جن کے کندھوں نے اپنوں کے جنازے نہیں اٹھائے ہیں لیکن ہم کیا کریں جن کے کندھے اپنوں کے جنازے اٹھا اٹھا کرشل ہوگئے ہیں۔ ملک کے ہر محلے میں آہ وبکا کی صدائیں گونج رہی ہیں ۔ مسجدوں، مندروں، گرجاؤں، امام بارگاہوں، اسکولوں، پارکوں کے درودیوار پہ بکھرا خون مٹائے سے نہیں مٹ رہا ہے۔ ہمارے پاس اب صرف لاشیں اٹھانے کے علاوہ کسی اورچیز کے لیے فرصت ہی نہیں رہی ہے۔

یاد رکھو دنیا بھر کے قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو زمینی خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ آج ان کی تاریک ،اجڑی اور برباد قبریں نشان عبرت بنی پڑی ہیں۔ اٹھو اور جاؤ ان قبروں کی وحشت کو اپنی آنکھوں سے جا کر خود دیکھ لو اور اگر تمہیں فرصت مل جائے تو زندگی کے فلسفے کو آسمانی کتابوں میں تلا ش کرلو۔ آج نہیں توکل تمہیں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہی ہوگا ۔ مظلوموں، بے کسوں کی فریادیں،آہیں، سسکیاں، بددعائیں،آنسو تمہارا پیچھا مرنے کے بعد بھی کریں گے ۔ خدا کے قہر اور عذاب سے ڈرو،انسان اگر خدا کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے لیکن اگر انسان، انسان کی بربادی کا ذمے دار ہے تو پھر خدا کہتا ہے جب تک وہ انسان تمہیں معاف نہ کردے میں ہرگز معاف نہیں کروں گا۔

والٹیر کہتا تھا میرا مسلک یہ ہے’’کہ ریا کاری کو کچل کے رکھ دو‘‘ بزدلی، ڈرخوف کا نتیجہ ہمیشہ اجتماعی خودکشی کی شکل میں نکلتا ہے ، اگر انسان غور کر ے تو دنیا کی ہر چیز سے عمل و ہمت کا نعرہ سنائی دیتا ہے، اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ اس لیے میرے ہم وطنوں، قاتلوں، ظالموں، لٹیروں، دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہو، اس سے پہلے کہ تمہاری باری آئے ان کے خلاف جو اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان ہی نہیں مانتے ہیں۔ جو اپنے علاوہ کسی اور کو انسان ہی نہیں تسلیم کرتے ہیں۔

ان وحشیوں اور درندوں کے خلا ف جن کے نزدیک باقی سب کافر ہیں۔ تم اٹھنے میں جتنی دیرکرو گے، اتنی ہی تکلیف میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ 9/11 کے بعد حاصل ہوا اور یہ جنگ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے ۔ یاد رکھو مذہبی انتہاپسندی کو ملک میں فروغ ایک روز میں نہیں اور نہ ہی 9/11 کے بعد ہوا بلکہ ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی نے جڑیں ملک کے آغاز سے ہی پکڑنا شروع کردیں تھیں۔

یاد رہے پہلے مدرسے اور مساجد غیر سیاسی تھیں مذہب اور سیاست الگ الگ تھے جب سے ہمارے مذہبی رہنما سیاسی بننا شروع ہوئے، اسی روز سے انتہاپسندی کا آغاز ہوگیا۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کے مقاصد اب مذہبی کم اور سیاسی زیادہ ہیں۔ انہیں اب اسلام کی نہیں بلکہ اسلام آباد کی فکر رہتی ہے اور سارا کھیل اسلام کی آڑ میں اسلام آباد کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تاریخ اپنے رویو ں کا بے رحم تجزیہ روز اول سے شروع کردیں، اس کے بغیر ہم ہرگز ہرگز منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ ہم آج مکمل ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔

پہلے یہ ضروری ہے کہ ناکامی کے مفہو م کو سمجھا جائے یہ اصطلاح حالیہ دور میں ان ریاستوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے شہریوں کی بنیادی ترین ضروریات کو پورا نہ کر سکیں۔ ناکامی کی کم ازکم اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔ (۱) اپنی یا دوسروں کی ماضی کی توقعات پر پورا نہ اترنا (۲) بصیرت کی ناکامی (۳) معاشی ناکامی (۴) قیادت کی ناکامی ۔ بدقسمتی سے ہم چاروں اقسام کی ناکامی سے دوچار رہے ہیں۔اسی لیے ہم آج انتہا پسندی اور دہشتگردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔

انسان تلخ حالات سے گھبرا کر دو سمتوں میں بھاگ سکتا ہے، ماضی میں یا مستقبل میں ۔ اس کا چناؤ، کردار اور نظریے پر منحصر ہے۔ حقیقت سے نظرچرانا بزدلی اورخود کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ ہم تمام اسی جانب تیزی سے دوڑ ے جارہے ہیں جب تک ہمیں یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اس وقت تک ہم میں تبدیلی حالات کی خواہش نہیں جاگے گی۔ تبدیلی کبھی خارجی عوامل کی بنیاد پر نہیں آتی بلکہ تبدیلی کا سارا دارومدار اندرونی خواہش پر ہوتا ہے۔

اس کے لیے احساس کا ہونا ضروری ہے اور پھر اس کو زیر بحث لانا لازمی ہے پھر خرابی اور برائیوں کی بنیاد پراتفاق ہونا ضروری ہے اس کے بعد پھر احساس، اتفاق اور خواہش مل کر تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ سقراط کہتا تھا میں کسی کو نہ کچھ سکھاتا ہوں اور نہ ہی مجھے کچھ معلوم ہے۔ میرا صرف یہ کہنا ہے کہ آپ سوچیں اور بار بار سوچیں آئیں ہم سب کچھ دیر کے لیے ٹہرکر سوچیں پھر سوچیں اور پھر اٹھ کھڑے ہوں، اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے ورنہ کل کیا ہونے والا ہے سب کو معلوم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔