بنت حوا انصاف کی منتظر ہے

پاکیزہ منیر  جمعـء 1 اپريل 2016

لاہور میں 25 دینی جماعتوں، دینی مدارس کی تنظیموں اورعلمائے کرام کے اجلاس میں حکومت کو حقوق نسواں قانون واپس لینے کے لیے ڈیڈ لائن دے دی گئی۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کر لے اور اسلامی نظریاتی کونسل اور علما کی مشاورت سے قرآن و سنت کی روشنی سے نیا بل لائے۔ مطالبات نہ مانے گئے تو 2 اپریل کو اسلام آباد میں علما و مشائخ کی کانفرنس منعقد ہوگی جو آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی اور حکومت کے خلاف 1977 سے بھی بڑی تحریک چلائی جائے گی۔

پہلی بات ہمارے علمائے کرام کو پرسکون رہنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں قانون تو بن جاتے ہیں مگر آج تک ان پر میں نے عمل ہوتے نہیں دیکھا کتنے خواتین کے حقوق کے لیے قوانین منظر عام پر آئے مگرکیا ہوا؟ کیا عورتوں پر ظلم ہونا بند ہوگیا ؟ کتنے مردوں کو سزائیں ملی ہیں اب تک؟ آئین 1973 کے دستور میں عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق عطا کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے تحت اور ہمارے دین اسلام کے تحت عورتوں کو بے شمار حقوق عطا کیے گئے ہیں۔ اسلام پہلا مذہب ہے جہاں عورتوں کو بے شمار حقوق حاصل ہیں مگر آج کے مرد وہ حقوق دینے کے لیے راضی نہیں۔

کراچی میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، رواں سال کے آغاز سے اب تک 25 خواتین کو جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔ جنوری میں 6، فروری میں 11 اور مارچ میں 8 خواتین کو قتل کیا گیا۔ کراچی سمیت ملک بھر میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا جاتا ہے افسوس کبھی علمائے کرام نے یہ نہیںکہا کہ اتنا ظلم عورتوں پر کیوں؟کبھی حکومت پاکستان سے مطالبہ نہیں کیا کہ خواتین پر ظلم کرنے والے مردوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ورنہ ہم 1977سے بھی بڑی تحریک چلائیں گے۔

خواتین اور بچوں پر ظلم کرنے والے 95 فیصد ملزمان سزا کے بغیر آزاد گھومتے پھرتے ہیں خواتین کے لیے پہلے بھی کئی بار قوانین بنے ہیں مگر آج تک ان کو حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ خواتین کو انصاف کی فراہمی کا نظام ناقص ہے صرف خواتین کو خوش کرنے کے لیے کاغذی کارروائی کی جاتی ہے قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی موثر نظام قائم نہیں کیا جاتا ہے۔

عورت کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو اسلام نے عورت کو عطا کیے ہیں ہمارے علما کرام کو یاد کروایا جائے کہ عورت کا بچوں کو دودھ پلانے، ان کی نگہداشت کرنے اورگھر کے کام کاج بنیادی طور پر عورت کی تنہا ذمے داری نہیں ، گھر اس کے محور پر گھومتا ہے، اور اگر وہ یہ سب کچھ کرتی ہے تو اسے شرعاً مرد سے اس کام کا معاوضہ طلب کرنے کا حق ہے۔ جہاں اسلام عورت کو اتنی عزت اور حق دے رہا ہے وہاں آج کے علمائے کرام کو کیوں غصہ آرہا ہے۔

ایک جرمن مورخ خاتون نے ایک جگہ کہا کہ میرا وجود ہی نہیں تھا ۔ یہ واقعی بڑی دلچسپ بات ہے پورے یورپ اورکسی مذہب نے عورت کو اتنی عزت اور اتنے حقوق نہیں دیے جتنے اسلام نے دیے ہیں تو پھر معزز علمائے کرام کو غصہ کیوں؟

خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں کئی اقدامات کیے گئے اور اسمبلیوں سے بل بھی پاس ہوئے جن میں خواتین کو جائیداد کا حق دینے، دفاتر، پبلک مقامات پر ہراساں کرنے، تیزاب پھینکنے، کم عمری کی شادی، ونی، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور اجتماعی جنسی زیادتی وغیرہ جیسے جرائم پرکڑی سزائیں دینے اور ملازمتوں کے کوٹے میں اضافے جیسے فیصلے ہوئے مگرعملی طور پر پاکستانی خواتین کو ان سے کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا۔ میں کہتی ہوں علمائے کرام 1977 سے بھی بڑی تحریک چلائیں کہ خواتین کو حقوق دو، صرف قانون نہیں انصاف بھی دو، جو اسلام نے خواتین کو دیا ہے۔

2014 میں پاکستان کو عورتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا تھا، لیکن 2015 میں بھی حالات تبدیل نہیں ہوئے کیوں؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان آخر کیوں عورتوں کے لیے خطرناک ملک ہے؟ تیسرا بڑا خطرناک ملک پاکستان جہاں اسلام تو ہے مگر عمل نہیں، جہاں قانون تو بن جاتے ہیں، مگر انصاف نہیں ،کس قدر شرمناک بات ہے ہمارے لیے ، آئے دن چھوٹی معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے کیس سامنے آرہے ہیں کوئی بھی ایک ملزم نہیں پکڑا گیا۔ دن بہ دن معصوم بچیوں کے اوپر ظلم کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں۔

ہمارے علمائے کرام آواز اٹھائیں ان معصوم بچیوں کے لیے آج اس معاشرے کو آپ لوگوں کی آواز اور ایسی تحریکوں کی ضرورت ہے، معصوم بچے ہوں یا بچیاں سب ہوس کا شکار بن رہے ہیں ہمارا معاشرہ بگڑتا جا رہا ہے، ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ان تمام بچیوں اور بچوں کے رشتے دار، والدین تڑپ تڑپ کر فریادیں کرتے ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں کہ انصاف فراہم کیا جائے اور ایسے ملزمان کو عبرت کا نشان بنایا جائے مگر ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ۔ علمائے کرام کو کیوں یہ ناانصافی نظر نہیں آرہی، کیوں چپ ہیں، آوازکیوں نہیں اٹھاتے، ایسے مظلوم لوگوں کے لیے۔

آئے دن لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے آئے دن اجتماعی زیادتی کے کیس سامنے آتے ہیں۔ کاروکاری اور سوارہ جیسی شرمناک رسمیں ہمارے اسلامی معاشرے پر بدنما داغ ہیں ایسی تمام جہالت سے بھری رسمیں ختم کرنے کے لیے ہمیں تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ مگر ان مظلوم عورتوں کے لیے کون آواز بلند کرے گا؟ جب کہ اسلام میں ایسی رسموں کی ہرگز اجازت نہیں پھر کیوں آج تک آواز بلند نہیں ہوئی ، ایسی تمام عورتوں کو تحفظ کیوں نہیں فراہم کیا گیا؟

سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے کھیجو جو سرحدی پٹی پر واقع ایک گوٹھ (گاؤں) ہے جس کے اردگرد سیکڑوں دیگر دیہات آباد ہیں ان تمام دیہاتوں کے درمیان ایک قبرستان واقع ہے جس کو کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں مذکورہ قبرستان دو ڈھائی سو سال پرانا ہے اور اس میں سیکڑوں خواتین بغیرکفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

حقوق پر ڈاکہ ڈالنا، لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا، جان و مال پر حملہ کرنا، ظلم و ستم اور دوسروں پر زیادتی کا یہ رویہ روز قیامت بدترین نتائج کا باعث بنے گا ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ظلم قیامت کے دن ظالم کے لیے سخت اندھیرا بن جائے گا۔ جو شخص کسی ظالم کا ساتھ دے کر اسے قوت پہنچائے اور وہ جانتا ہو کہ یہ شخص ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہے۔(مشکوٰۃ)

آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص دو بیٹیوں کی بلوغت تک نگہداشت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اتنا قریب ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں قریب ہوتی ہے۔ فرمایا عورتوں کی عزت و تکریم شرفا کا اور ان کی اہانت و تحقیر رذیلوں کا شیوہ ہے۔ ان تعلیمات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جاہلیت اولیٰ کے نظریات و رسومات کو ختم کر کے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے عورت کو کس قدر اونچا مقام عطا کیا ہے۔

قرآن و سنت جو اسلامی قانون اور اسلامی معاشرت کا سرچشمہ ہیں اسلامی قوانین فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں ان پر عمل کرنا درحقیقت انسانیت کے لیے کامیابی کا راستہ ہے۔

آپؐ اور آپؐ کے لائے ہوئے دین حق کے جس نے دنیا کی آنکھیں کھولیں عدل و انصاف کا قانون جاری کیا، عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے لازم کیے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں اسے آزاد و خودمختار بنایا۔ وہ اپنی جان و مال کی ایسی ہی مالک قرار دی گئی جیسے کہ مرد۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی۔ محترم علمائے کرام! تحریک چلاؤ …ہم سب تمہارے ساتھ ہیں، اپنا فرض بھی تو نبھاؤ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔