کبھی فن کارکام میں ڈوبتے تھے، آج کام ڈوب رہاہے

غلام محی الدین  پير 12 نومبر 2012
دنیا اور شوبز کی بے ثباتی میں کوئی فرق نہیں۔ فوٹو : فائل

دنیا اور شوبز کی بے ثباتی میں کوئی فرق نہیں۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد: میرے پیارے اللہ میاں۔۔۔او پیسا بڑا اے۔۔۔جیسے وہ تکیہ ہائے کلام، جو گھر گھر لوگوں کی زبان پر چڑھے رہے، پینڈو پروڈکشن، بونگا بخیل اور چوہدری صاحب جیسے مقبول ترین کردار، جن کو دیکھنے کا انتظار کیا جاتا تھا، انجم حبیبی کے کمالِ فن کا ثبوت ہیں۔

وہ فن کار ابنِِ فن کار ہیں تب ہی تو دعویٰ دار ہیں ’’ میں پیدائشی فن کار ہوں‘‘ میرے والد صاحب سید رشید حبیبی ریڈیو پاکستان پر پروڈیوسر تو تھے ہی لیکن ’’قائم دین‘‘ ان کی اصل تخلیق تھی جس کی شہرت ملک میں پھیلی۔ ریڈیو پاکستان کے معروف پروگرام ’’جمہور نی آواز‘‘ جو بعد ازاں ’’سوہنی دھرتی‘‘ کے نام سے بھی نشر ہوتا رہا، اس پروگرام میں جب دو کردار قائم دین اور نظام دین روز مرہ زندگی پر فی البدیہ جملے بازی کرتے تھے تو سننے والے ان کی دانش اور صدا کاری کے سحر میں گم ہو جایا کرتے تھے۔ میں دراصل اپنے والد صاحب کی ہو بہ ہو مثل ہوں، یہاں تک کہ میری بیماریاں، میری شکل و صورت، میری نشست و برخواست اور طبیعت بھی ان ہی جیسی ہے۔ اگر یوں کہ دیا جائے کہ وہ اپنے اندر کا فن کارمجھے ورثے میں سونپ گئے ہیں تو غلط نہ ہو گا، اسی لیے مجھے یہ زعم رہتا ہے کہ میں پیدائشی فن کار ہوں۔

اداکار انجم حبیبی نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ میں جڑانوالہ میں پیدا ہوا، گھر والوں نے میرا نام انجم حسنین رکھا، گورنمنٹ پرائمری اسکول مری روڈ راول پنڈی میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وطن اسلامیہ ہائی اسکول برانڈتھ روڈ لاہور میں نویں جماعت تک پڑھتا رہا، پھر فیض الاسلام ہائی اسکول ٹرنک بازار راول پنڈی میں داخلہ لے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا، بعد ازاں اسلامیہ کالج کامرس کوئز روڈ لاہور سے آئی کام کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان اسلام آباد میں بہ طور ’’نوٹ ایگزامینر‘‘ ملازمت کر لی۔ 1976 سے لے کر 1998 تک اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے ساتھ منسلک رہا اور پھر شوبز کی مصروفیات کے باعث ڈپٹی ٹریژری آفیسر کی حیثیت سے گولڈن ہینڈ شیک ہینڈ کے تحت ملازمت سے الگ ہو گیا۔ دراصل میں 1977 میں ہی شوبز میں آ چکا تھا، ریڈیو آزاد کشمیر تراڑکھل سے بہ طور ڈرامہ آرٹسٹ آغاز کیا اور 1988 میں پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر سے منسلک ہو چکا تھا۔

ریڈیو کے حوالے سے انجم حبیبی نے کہا ماضی میں ریڈیو سیکھنے کے لیے ایک ایسا ادارہ تھا جس کو پرائمری اسکول سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس طرح پرائمری کے ٹیچر بچے کو ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھاتے ہیں اسی طرح ریڈیو پر اس زمانے میں ہمارے سینئر ہمیں صداکاری کی تربیت دیا کرتے تھے، مجھے ریڈیو پر پروڈیوسر یعقوب لالی نے متعارف کرایا جب کہ ریڈیو پر بولنا مجھے اُستاد برکت اللہ صاحب مرحوم نے سکھایا۔ ریڈیو پر میرے ساتھ جو فن کار کام کرتے رہے، اُن میں نسیم قریشی، شاہین اشتیاق، ہاشم بٹ، غزالہ بٹ، نگہت حسن، آفتاب زبیری اور ماسٹر عاصم کے نام میں کبھی نہیں بھولوں گا جب کہ ٹی وی پر میرا پہلا ڈرامہ پروڈیوسر رانا شیروانی تھا انہوں نے ممتاز افسانہ نگار منشا یاد صاحب کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’کچے پکے رنگ‘‘ میں مجھے اُس دور کی معروف اداکارہ روحی بانو اور سجاد کشور کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔

سیریل ’’مسافر رہے وفا کے‘‘ میں عارف رانا نے مجھے توقیر ناصر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا، اسی طرح شاکر عزیر نے مجھ سے گیسٹ ہائوس میں کام لے کر مجھے بنایا سنوارا، اِس کے علاوہ ڈرامہ سیریل اَجل، اضطراب اور بُردبرآمد میں بھی مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ اضطراب میں بڑے ملک صاحب کا کردار بہت پسند کیا گیا، یہ کردار مجھے بھی اب تک اچھا لگتا ہے۔ اسی دوران فاروق قیصر نے کلیاں شروع کیا تو میں نے اُس پروگرام کا ایک شہرۂ آفاق کردار ’’بونگا بخیل‘‘ میری آواز میں جب آن ایئر گیا تو اُسے ملک گیر شہرت ملی۔ یہ کردار مسلسل ساڑھے چار سال تک چلتا رہا اور مجھے بھی یہ کردار کرتے ہوئے بہت مزہ آیا اسی طرح میرا کردار چوّنی سیٹھ بھی بہت معروف ہوا اُس کا ایک مکالمہ ’’پیسہ بڑا ہے‘‘ بہت مقبول ہوا تھا اِس کا ذکر اداکارہ صبیحہ خانم نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کیا جس سے مجھے بڑا حوصلہ ملا۔

اسلام آباد سینٹر سے جب غضنفر بخاری نے پوٹھوہاری سیریل پیا گھر آیا اور اُچے بُوہے شروع کیا تو اُس میں سیریل اُچے بوہے میں میرا کردار منورا تھا، جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ بہت سے پرانے ناظرین آج بھی مجھے منورا کے نام سے پہچان لیتے ہیں، اسی طرح میں نے طارق معراج کے ساتھ بھی مختلف ڈراموں میں کام کیا، دو طویل دورانیے کے کھیل سناٹا اور تماشا اسلام آباد سینٹر سے نشر ہوئے، سناٹا میں میرا80 سالہ بزرگ کا کردار ادا تھا جو میرے یادگار کرداروں میں سے ایک ہے۔ 90 کی دہائی میں میں نے تھیٹر پر بھی کام شروع کر دیا تھا، سٹیج ڈرامہ ’’مُشران بیگ ‘‘ میں میرا کردار ذہنی معذور بچے کا تھا۔ اِس ڈرامے میں اداکارہ ثروت عتیق بھی تھیں، سٹیج پر میرے دوسرے ڈراموں میں’’ ہے کوئی ایسا‘‘ اور ’’ہیر رانجھا‘‘ خاص طور پر اور کئی ایک دوسرے ڈرامے بھی بہت مقبول ہوئے، یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں تھیٹر اپنے عروج پر ہوتاتھا۔ میں نے ایک نجی چینل سے ایک ہی پروگرام میں چاچا خیر دین کے کردار کو تین سو پروگراموں میں مسلسل پرفارم کیاجو ایک ریکارڈ ہے۔

انجم حبیبی نے بتایا کہ جب میں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ شوبز میں چپکے چپکے دل چسپی لینا شروع کی تھی تو میرے والد صاحب کو اِس بات کا علم نہیں تھا، اُن کو شوبز میں میری آمد کا اچانک علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے، کیوں کہ میرے دوسرے بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی اِس شعبے کی طرف نہیں آیا تھا، جب میں نے شوبز میں قدم رکھ دیا تو والد صاحب کے ساتھ میری باقاعدہ دوستی ہو گئی جو اُن کی وفات تک قائم رہی۔

دنیا چھوڑنے سے پہلے انہوںنے جو نصیحتیں اور وصیتیں کیں وہ صرف مجھے ہی کیں، اُن کی ایک بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے وہ کہا کرتے تھے ’’ اچھے دوست بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اِن کو ضائع مت کرنا‘‘۔ والد صاحب فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے، اُن کا ایک پنجابی گیت ’’میریاں گلاں یاد کریں گی، رو رو کے فریاد کریں گی، فیر میں تینوں یاد آواں گا‘‘ پرویز مہدی کی آواز میں آج بھی ایک سپر ہٹ گیت کی حثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اِس گانے کی مقبولیت کا اندازہ مجھے بھارت جا کر ہوا جب دلیر مہدی نے اس کو ایک بہترین گیت قرار دیا۔

انجم حبیبی نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں فن کا یہ ورثہ اب میرے چھوٹے بیٹے مسلم کے ہاتھوں میں ہے، اُس کا شوبز کی طرف رجحان ہے، وہ گٹار بجاتا ہے، گلوکاری کرتا ہے، مجھے اس پر توقعات ہیں کہ وہ میرے اور اپنے دادا کے نام کو آگے بڑھائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انجم حبیبی نے کہا 24 سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی تھی، میری بیوی میری خالہ کی بیٹی ہے، شادی سے لے کر اب تک بہت اچھا گزارا ہو رہا ہے، حالات اچھے برے رہے لیکن ازدواجی زندگی میں کوئی اونچ نیچ نہ آئی۔ انجم حبیبی نے کہا والد کے بعد اب میرے سر پر والدہ کی شفقت کا سایہ قائم ہے، اور اُن ہی کی دعائوں سے میں آج بھی اپنے ناظرین میں مقبول ہوں۔

انجم حبیبی نے کہا 1976 میں جب میں نے ملازمت شروع کی تو میری تنخواہ 503 روپے ہوتی تھی، اُن میں سے 150 روپے اپنی والدہ کو لاہور ارسال کر دیتا اور150 روپے پورا ماہ اسلام آباد کے اندر خرچ کرتا لیکن اس کے باوجود میرے پاس پیسے بچ جاتے، بہت اچھا دور تھا مگر اب وقت بالکل بدل چکا ہے، اب جیب میں ایک لاکھ روپیہ بھی ہو تو اُس سے بھی پورا مہینہ کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انجم حبیبی نے کہا، جوان تھا تو ہر شے شوق سے کھا پی لیا کرتا تھا لیکن اب بیماری کی وجہ سے کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انجم حبیبی نے کہا میں جوانی میں میلہ پسند تھا جس کی وجہ سے میں نے پورا پاکستان گھوم پھر کر دیکھا، مگر اب طبیعت میں ٹھہرائو آ گیا ہے۔ پھر میری طبیعت بھی بہت حساس اور مروت والی ہے، اِس لیے میں آج کل زیادہ تر گھر میں ہی وقت گزارنا پسند کرتا ہوں۔ میں جب ملازمت کیا کرتا تھا اور میرا عہدہ چھوٹا تھا تو شوبز کے لیے وقت نکال لیا کرتا تھا لیکن جوں جوں میری ترقی ہوتی گئی، شوبز کے لیے وقت نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا اور آخر کار شوبز پر مکمل توجہ دینے کے لیے میں نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔

موجودہ دور میں ٹی وی ڈراموں کے معیار پر بات کرتے ہوئے انہوںنے کہا کوئی بھی کام جب زیادہ ہو جائے تو اُس کا معیار گر جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا، ایک چینل کا پیٹ بھرنے کے لیے تھوڑے فن کار بھی زیادہ ہوتے تھے مگر اب اتنے زیادہ چینل ہو گئے ہیں کہ اُن کا پیٹ بھرنے کے لیے ملک میں فن کار کم ہو گئے ہیں، ایک فن کار ایک ہی سیٹ پر اور ایک ہی پروڈکشن ہائوس میں کئی کئی ڈراموں کی ریکارڈنگ میں مصروف نظر آتا ہے جس سے ڈراموں کا معیار بہت حد تک گر چکا ہے۔ دراصل ریہرسل تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہے اب کسی کے پاس وقت نہیں، اب تو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ جب لوگ ریہرسل کرکے کیمرہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو وہ اپنے کام میں مکمل طور پر ڈوب جاتے تھے مگر اب ڈراموں کی ریکارڈنگ میں کام ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے۔ انجم حبیبی نے کہا موجودہ دور میں ڈرامہ ایک صنعت بن چکا ہے اور سارا کام کراچی میں شفٹ ہو چکا ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اب ڈرامے کی تیاری میں بھی گروپ بندیاں قائم ہو چکی ہیںجس طرح ماضی میں سٹیج کا بیڑہ غرق ہوا ،اب ٹی وی ڈرامہ بھی اُسی نہج پر چل پڑا ہے۔

انجم حبیبی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا آج شوبز کی دنیا میں چمک اور لشکارے بہت زیادہ ہو چکے ہیں جو نئے آنے والوں کی بصارت کو خیرہ کر رہے ہیں۔ نئے لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ اپنے کام کا آغاز کس شعبے سے کرنا ہے، اُن بے چاروں میں سے بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ شوبز کی دنیا کے کس کام کے لیے موزوں ہیں، ہر کوئی پردہ سکرین پر نظر آنے کا خواہاں ہے حالاں کہ ان میں سے بہت سے لوگ پردہ کے پیچھے رہ کر بھی کمال کا کام کر سکتے ہیں۔ آج شوبز کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے دروازے پر اتنی بھیڑ لگی ہوئی ہے کہ اُن کو دیکھ کر ترس آتا ہے، میں نئے آنے والوں سے اتنی گزارش ضرور کروں گا کہ شوبز کی چمک سے بچنے کے لیے پہلے اپنی آنکھوں پر علم و آگہی کی عینک لگائیں تا کہ آپ کا رستہ آسان ہو جائے۔

شوبز کی دُنیا ایک گورکھ دھندا ہے جو اِس کی باریکیوں کو سمجھ جاتا ہے، اُس کا رستہ خاصا آسان ہو جاتا ہے لیکن جو اِن باریکیوں میں اُلجھ جاتا ہے وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انجم حبیبی نے کہا، شوبز کی دنیا میں اپنے سے بڑوں کا ادب، سیکھنے کی سچی لگن اور صبر و تحمل ہی وہ اوصاف ہیں جو کسی بھی فن کار کے رستے کو آسان بنا دیتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انجم حبیبی نے سوچتے ہوئے کہا، دنیا کی بے ثباتی اور شوبز کی دنیا کی بے ثباتی قریباً ایک جیسی ہے، دنیا بھی چڑھتے سورج کی پجاری ہے تو شوبز میں بھی آپ کے عروج کو سلام کیا جاتا ہے اور آپ کے زوال کو لوگ بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔

میں آج کل شوبز کی دُنیا میں تو ہوں مگر میں عروج پر نہیں، جس کی وجہ سے آجکل ایک چھوٹی سی دکان سے میرے گھر کا کچن چل رہا ہے اور میں تھوڑے پیسوں میں بھی گزارا کرنے کے ہنر سے آشنا ہو چکا ہوں، دل بہت چاہتا ہے کہ شوبز کی دنیا میں واپس چلا جائوں اور ناظرین سے دوری ختم کروں لیکن مشکل یہ ہے کہ جن لوگوں سے میں نے کام سیکھا ہے وہ کبھی بھی غیر معیاری کام نہیں کیا کرتے تھے۔ آج سٹیج اور ٹیلی ویژن پر جو کام ہو رہا ہے وہ چینلوں کا پیٹ بھرنے کے لیے تو بہت اچھا ہے لیکن اُس کو یادگار نہیں کہا جا سکتا، سوائے چند ایک لوگوں کے انہوں نے واقعی اچھا کام کیا ہے۔

ٓنجم حبیبی کے مداحوں میں سہیل احمد، سجاد کشور، افضل خان ریمبو، افتخار ٹھاکر اور فردوس جمال جیسے فن کار شامل ہیں۔ منجھے ہوئے اداکار سجاد کشور ان کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں ’’ نجم حبیبی اپنی ذات میں ایک بھرپور شخص ہیں، آرٹسٹ تو وہ باکمال ہیں ہی بہ طور انسان بھی اتنے ہی اچھے ہیں، وہ جسمانی لحاظ سے قد کاٹھ میں چھوٹے ضرور ہیں مگر اپنے اوصاف کی وجہ سے بڑے بہت قدآور ہیں، صاف گو ہیں، لگی لپٹی کے بغیر سیدھی بات کرتے ہیں،میں نے نہیں دیکھا کہ کبی انہوں نے کسی کے پھڈے میں ٹانگ اڑائی ہو، اُن کی ان ہی خوبیوں کے باعث میں اُن کا بہت بڑا مداح ہوں، راول پنڈی میں اِسن کے پائے کا فن کار میں نے ابھی تک نہیں دیکھا‘‘۔

ؓرے فوک سنگر طفیل نیازی کے صاحب زادے ، جو خود بھی بہت اعلیٰ گائک ہونے کے علاوہ ایک مقبول اداکار بھی ہیں انجم حبیبی کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ’’انجم حبیبی ہمارے خطے کا ایک پختہ فن کار ہے، لاجواب انسان، مزے دار دوست اور اپنے کردار سے انصاف کرنے والا فن کار ہے، اچھے فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا انسان بھی ہو، اللہ پاک نے انجم حبیبی کو دونوں خوبیوں سے نوازا ہے، میرے لیے بڑی خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ وہ پی ٹی وی کی جانب سے دو بار بہترین اداکاری کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں‘‘۔ سونا چاندی سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے غیور اختر بھی انجم حبیبی کے مداح نکلے ، ان کا کہنا ہے ’’انجم پاکستان کے چند اچھے فن کاروں میں سے ایک ہے، وہ پیدائشی فن کار ہے ۔

اس کے والد ’’سید رشید حبیبی مرحوم‘‘ پاکستان کے اتنے بڑے صدا کار تھے کہ ان کے بعد تاحال ان کا ثانی ان کی جگہ پر کرنے نہیں آیا، اگر میں یہ کہوں کہ انجم حبیبی ایک ’’ورسٹائل فن کار‘‘ ہے تو بے جا نہ ہوگا، علاوہ ازیں، اخلاقی اور خاندانی سطح پر بھی اِس شخص کا جواب نہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔