ڈینگی پر فتح خادمِ اعلیٰ کا یادگار کارنامہ

عبدالقادر حسن  پير 12 نومبر 2012
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

نہیں معلوم کہ کیا گناہ کیا کہ گھر میں پرامن اور بے ضرر شہری بن کر رہنے کے باوجود دو ناگہانی آفتیں چمٹ گئیں۔

ایک لوڈشیڈنگ اور دوسرا ڈینگی مچھر۔ لوڈشیڈنگ کی کھلی وجہ ہماری بدعنوان حکومت تھی جو اس قدر دیدہ دلیر ہے کہ کسی بھی ملزم کو ملک کا کوئی بھی بڑا عہدہ دینے پر تیار ہو جاتی ہے۔ معیار یہ ہے کہ جتنا مالدار ملزم اتنا ہی بڑا عہدہ۔ چلیے لوڈشیڈنگ کے کسی ذمے دار کو حکومت کتنا بھی بڑا رتبہ دے دے اس کی مرضی لیکن ہم بے گناہ لوگوں کا کیا قصور کہ ان کی زندگی کے نصف سے زائد روز وشب مصنوعی اندھیروں کی نذر کر دیے جائیں۔ ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹہ کی لوڈشیڈنگ کا مطلب یہ نہیں کہ نصف وقت اندھیروں میں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عملاً سارا ہی وقت اندھیروں میں کیونکہ صرف کوئی مشین ہی ایسی ہو سکتی ہے جو بٹن دبا کر اسٹارٹ کر دی جائے اور بجلی جانے پر وہ خودبخود بند ہو جائے۔ انسان اس قدر تمیزدار نہیں ہوتا کہ مشین کی طرح زندگی بسر کر سکے۔ ایک چیز ہے موڈ جو ہر انسان میں حسب توفیق موجود ہوتا ہے اور بنتا بگڑتا رہتا ہے۔

خصوصاً ہم لکھنے والوں کا دماغ غیرحاضر ہے مگر روشنی موجود ہے، ایسی روشنی کس کام کی جس میں موڈ ہی نہ بنے۔ ایسا بگڑا موڈ اگر نوکری کے ڈر سے کچھ بن بھی جائے تو بجلی پھر غائب یعنی زندگی اس غائب وحاضر اور آمد و رفت میں گزر گئی۔ گزشتہ چند دنوں سے بجلی ذرا زیادہ آ رہی ہے مگر اس کا ایک خودغرضی کا سبب ہے، شاید الیکشن کی آمد آمد اور ووٹروں کو کچھ وقت کے لیے اندھیروں سے نکالنے کا پروگرام تاکہ ان کا موڈ درست ہو اور وہ ووٹ دے سکیں لیکن وہ بڑے بے غیرت ووٹر ہوں گے جو ایک عمر اندھیروں میں غرق رہنے کے بعد ان لوگوں کو پھر ووٹ دیں گے جو انھیں اندھیروں میں مارتے رہے یعنی شاعر والی تاریک راہوں میں۔ ان دنوں جب بجلی موجود ہوتی ہے جیسے اس وقت ہے تو دل دھک دھک کرتا رہتا ہے کہ ابھی گئی اور ابھی گئی۔

ہم بجلی کے آنے کے نہیں اس کے جانے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اب بجلی کا ذکر اخباروں کتابوں میں ملتا ہے۔ اسے دیکھنے کا موقع بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ ایک غیرملکی فرم جو ہمارے ہاں ایک معدنی منصوبے پر کام کر رہی ہے، اس کا انجینئر بتا رہا تھا کہ ہم لوگ اس ملک کی معدنیات کا ذخیرہ دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔ سونا ہے تو اعلیٰ ترین کوالٹی کا‘ کوئلہ ہے تو زبردست قسم کا اور تانبا ہے تو سونے جیسا لیکن یہ سب اس قوم کی قسمت میں نہیں ہے اور اب بیرونی ہاتھ اس قدر دور دور تک پھیل گئے ہیں کہ یہ دولت اس قوم کی قسمت میں شاید ہی آ سکے۔

بہرحال جب کوئی سونے کا پہاڑ چند کلو سونے کے عوض بیچ دے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اب تو جرنیلوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں‘ سویلین تو ہیں ہی بلڈی، ہمارے سیاستدانوں یعنی متوقع حکمرانوں میں بعض لوگ نیک نیت ضرور ہیں لیکن بصیرت سے فارغ ہیں۔ فہم وفراست مفقود ہی سمجھیں۔ مجھے ذاتی طور پر بڑا دکھ ہوتا ہے اپنے علماء پر جن کی بھاری اکثریت دیانت دار ہے۔ صرف دو چار بدنام ہیں لیکن ان میں سیاسی فراست نہیں ہے۔ الیکشن آتا ہے تو کسی کے امدادی بن جاتے ہیں۔ بات لوڈشیڈنگ سے شروع ہوئی اور ڈینگی کو بھی پھلانگتی ہوئی سیاست دانوں تک پہنچ گئی۔

ہمارے ہاں سیاست اس قدر زیادہ ہے کہ بعض اوقات سیاست کے شوق میں ہم کھانا بھی بھول جاتے ہیں۔ میں نے ایک بار امریکا میں گپ شپ کرتے ہوئے ایک امریکی سے پوچھا کہ میں دیکھتا ہوں امریکی سیاست کی بات ہی نہیں کرتے۔ اس نے کہا کہ آپ لوگ جس مرحلے سے گزر رہے ہیں ،ہم اس کو طے کر چکے ہیں۔ سیاست کے قاعدے بن گئے ہیں اور اب ہمیں اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کی فکر رہتی ہے کہ سڑک کیسی ہو اور کوئی دوسری شہری سہولت کیسی ہو مگر آپ لوگ اب ابتدائی دور سے گزر رہے ہیں۔

اس طرح کی باتیں تو ختم ہی نہیں ہوتیں۔ اصل بات ڈینگی کی تھی جس نے دلوں کو خوف سے بھر دیا تھا۔ بجلی تو آئی نہ آئی لیکن اس سے کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا مگر ڈینگی بخار نے تو ہوش ہی اڑا دیے۔ میرے دونوں بیٹے‘ داماد اور بیٹا اس بیماری سے گزر چکے ہیں اور اس کی بربادیوں کو میں دیکھ چکا ہوں کہ یہ کس طرح انسانی جسم کو کھا جاتی ہے۔ میں نے شام کے وقت گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا‘ شامیں غارت ہو گئیں۔ سبزہ زار اور کھلے پارک منہ دیکھتے رہ گئے۔ معلوم ہوا شام کو سیر کرنے والے کہیں دبک گئے ہیں اور کالے رنگ کے مچھر سے چھپتے پھرتے ہیں۔

اسی اثناء میں ایک عجیب واقعہ ہوا کہ ایک حکمران نے اس مچھر کو تلف کرنا اپنی ذمے داری بنا لیا۔ ایک سیزن تو شہباز شریف میدان جنگ میں رہا۔ آگے آگے مچھر اور پیچھے پیچھے شہباز شریف اور پنجاب کی پوری حکومت۔ بڑے بڑے افسروں اور مچھروں کا مقابلہ جاری رہا۔ بہرکیف حیرت ہے کہ یہ جنگ کیسے جیت لی گئی۔ مچھر سے کیا مقابلہ لیکن شہباز شریف اس کے گھروں تک جا پہنچا اور جہاں بھی اس کا نشان پایا اس پر پل پڑا۔ سخت تعجب ہے کہ اس رواں سیزن میں اکا دکا مریض تو اسپتال میں آیا مگر زندہ آیا اور زندہ ہی واپس گھر لوٹ گیا ورنہ گزشتہ سیزن میں تو تباہی مچ گئی تھی اور لوگ کالے مچھروں سے چھپتے پھرتے تھے۔

ہماری تاریخ میں قومی خدمت کی ایک مثال ہے اور خصوصاً اس دور میں جب کہ خودغرضی انتہا پر ہے اور عوام کو بے وقوف بنانے کا فن بھی عروج پر ہے۔ شہباز شریف نے ایک انتہائی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ میں زیادہ عرض نہیں کرتا کہ یہ خوشامد بن جائے گی جس کا رواج بھی ان دنوں عروج پر ہے لیکن میری شامیں واپس کرنے اور میرے دل سے ایک انجانا مستقل خوف ختم کرنے پر ہی اپنے اس منتخب حکمران کا مشکور ہوں جس نے گزشتہ برسوں سے الیکشن سے بہت پہلے جب کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا تھا ووٹروں کی خدمت کی اور واقعی خادم اعلیٰ بن گیا۔ شکر ہے کہ میاں صاحبان اخبار نہیں پڑھتے اور ان کے مشیران میڈیا ان کو بے خبر رکھنے میں ماہر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔