پانی کا عالمی دن اور افسران بالا کی بے حسی

نسیم انجم  اتوار 3 اپريل 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جسے عزت و توقیر نصیب ہوتی ہے اس کے کام بھی قابل قدر ہوتے ہیں، وہ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرلیتا ہے اور جو صرف اور صرف اپنے مفادکی جنگ میں مفاد پرستوں کے گروہ میں شامل ہوتا ہے اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارنے کے لیے کسی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے، تو یقیناً ایسے شخص کی قسمت میں ذلت کے سوا کچھ نہیں۔

فوری نہ سہی قبل از وقت سہی اپنی گمراہیوں کی بدولت رسوا وذلیل ہوکر رہتا ہے کہ مکافات عمل سے کوئی بچا نہیں ہے۔ حال ہی میں ہماری نگاہ سے قلت آب کے حوالے سے ایک نہیں کئی خبریں گزریں، ویسے تو پانی کے بحران اور عوام کی مشکلات کا ذکر اخبارات و چینلزکے ذریعے پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔

عرصہ دراز سے کراچی کے باسی واٹر بورڈ کا بل ادا کرنے کے باوجود پانی سے محروم ہیں، لاکھ شکایت کریں، درخواستیں دیں، واٹر بورڈ کے دفاتر کے چکر کاٹیں ، لیکن نتیجہ صفر کے سوا کچھ نہیں، اتفاق سے ہمارا بھی اس مسئلے کے حل کے لیے کئی بار ایم ڈی واٹر بورڈ کے دفتر جانا ہوا، فون پر بھی ان سے بات ہوئی، لیکن انھوں نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا کہ الامان! جھوٹے وعدے، جھوٹی باتیں کرکے یقین ضرور دلایا جاتا ہے لیکن عمل ذرہ برابر نہیں۔

آئے دن واٹر بورڈ کے ایم ڈی  کے بیانات اخبارات میں چھپتے ہیں اور وہ ہر دفعہ عوام کو جھوٹی تسلیاں دے کر مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔ اس بار بھی انھوں نے ’’عالمی یوم آب‘‘ کے موقع پر فرمایا کہ پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جائے انھوں نے مزید کہا کہ کراچی کو پانی کی قلت کا شدید سامنا ہے۔ اس طرح کے متضاد بیانات سے عوام کا بھلا ہرگز نہیں ہوتا۔

ایک طرف اتنا پانی ہے کہ پانی سڑکوں اورگلیوں میں بہہ رہا ہے تو دوسری طرف پانی کی کمی اور پانی نہ ہونے کا رونا،ان کے اپنے ادارے میں اصول وضوابط کے تحت پانی کی تقسیم نہیں ہوتی ہے، رشوت دی جاتی ہے، پرچیاں چلتی ہیں، اقربا پروری کے رویوں سے لوگ فائدے اٹھاتے ہیں،کھری بات کرنے اور لکھنے والے تمام مفادات سے بالاتر ہوکر لکھتے ہیں جب کہ اس کے برعکس وہ بھی ہیں جو محض اپنی ذات کے فائدے کے لیے اپنی تحریریں اور اپنا ضمیر بڑی آسانی سے بیچ دیتے ہیں۔ دنیا کے حصول کے لیے بڑی بڑی چالیں چلنا دنیا پرستوں کا شیوہ ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

’’یوم آب‘‘ والے دن گندہ پانی کراچی کی شاہراہوں پر بہتا رہا، افسوس کہ غلاظت زدہ پانی جناح اسپتال، ادارہ برائے امراض اطفال اور امراض قلب کی حدود میں جمع ہوگیا، اس طرح بے چارے وہ مریض جو اپنے معصوم بچوں اور بیمار دل کے علاج کے لیے آئے تھے انھیں راستہ طے کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، دل نازک کو بغیر علاج کے سنبھالنا مشکل تھا، ایسا ہی حال گلشن اقبال اور یونیورسٹی روڈ کا تھا۔ لائنیں پھٹنے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ساتھ میں کوڑا کرکٹ ’’اپنی جگہ‘‘ جب کہ صفائی مہم بھی جاری ہے۔

“Fix it” کے تحت گٹروں کے ڈھکن بھی ڈھانپے جا رہے ہیں جوکہ عالمگیر خان کا کارنامہ ہے۔ نالوں کو بھی پاٹنے کا کام شروع ہوچکا ہے، اتنا کام کرنے کے باوجود کراچی کے بے شمار علاقے کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیروں سے آراستہ ہیں، پھولوں کی خوشبو کی جگہ نالوں نالیوں کے بدبودار پانی نے جگہ لے لی ہے، ایک وقت تھا شام کے لمحوں میں چہل قدمی کے لیے گھروں سے نکلنے والوں کو ٹھنڈی مہکتی ہوئی ہوائیں خوش آمدید کہتی تھیں، مہکتی کلیاں اپنا جلوہ دکھاتیں اور اشجار کے ہرے بھرے پتے اور شاخیں گیت گاتے اور بہار کی آمد کا پتا دیتے تھے، موسم کوئی بھی ہو سکون اور اطمینان ضرور میسر تھا۔

لیکن اب وہ ادارے جن کا کام ملک وقوم کی خدمت کرنا تھا وہ لوگوں کو ذہنی اذیت اور دکھوں و مسائل سے ہمکنار کر رہے ہیں، یہ مہربانی سندھ حکومت کی ہے کہ جو وفاق سے ایک بڑی رقم لے چکے ہیں لیکن خرچ کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے بالکل سنجیدہ نہیں ہیں، ان کا یہ رویہ اندرون سندھ میں رہنے والوں کے لیے موت کا پیغام بار بار لاتا ہے آج بھی تھر میں بے شمار بچے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔

دوائیں، علاج ومعالجے اور غذائی قلت سے محروم بچے زندگی کی بہاریں دیکھنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں لیکن حکومت کو پرواہ نہیں، کروڑوں  نفوس پر مشتمل شہر کراچی کا حال ابتر ہوچکا ہے۔ ہر سال ٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا ہے، ساتھ میں واٹر بورڈ کے افسران بالا کی سفاکی نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے، وہ مثبت بیانات دے کر اپنے فرائض پورے کرلیتے ہیں۔

دو تین روز ہی ہوئے ہیں جب ایم ڈی واٹر بورڈ نے یہ فرمایا کہ قلت آب کے شکار علاقوں میں 100 پانی کی ٹنکیاں تعمیر کی جائیں گی، عوامی ٹنکیوں کو فری ٹینکر سروس سے پانی فراہم کیا جائے گا۔ پانی کو لائنوں کے ذریعے دینے میں کیا قباحت ہے؟ فری ٹینکر سروس تو ایک سہانے خواب کی مانند ہے، پسماندہ علاقوں کے مکین پانی کے ستائے ہوئے ہیں اور اب تو واٹر بورڈ کا عملہ اس قدر خودمختار اور ظلم و زیادتی کرنے میں خود کفیل ہوچکا ہے کہ جس بھی علاقے اور جس گھر میں اس کی مرضی ہے کہ وہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنائے یا پھر بوند بوند کو ترسا دے یہ اس کی منشا پر منحصر ہے۔

پانی سے محروم حضرات کا تجربہ ایسا ہی ہے۔ واٹر بورڈ کے کارکنان نے کراچی کے شہریوں کو ٹینکر خریدنے پر مجبور کردیا ہے، واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے، محض زر پرستی اور پیسے کی ہوس نے ملازمت پیشہ اور محنت کشوں کی جیبوں پر کھلے بندوں ڈاکہ ڈالا ہے، انھیں کوئی روکنے والا نہیں، ان کے لیے کوئی قانون نہیں، آپ ان سے لاکھ اپنی پریشانی کا اظہار کریں ان میں سے کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا اور اگر کسی کو اپنے عہدے اور ذمے داری کی لاج آ ہی گئی تو بس دو تین روز کے لیے۔ اس سے زیادہ اپنی پرانی ڈگر پر لوٹتے دیر نہیں لگتی ہے۔

وہ بے چارہ پانی نہ ہونے پر مہمانوں کے سامنے پانی پانی ہوجاتا ہے اور ٹینکروں کے ڈرائیوروں کو فون، خوشامد کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور پھر ان کا انداز تکلم ایسا کہ دل خون کے آنسو روئے اور آنسوؤں کو دیکھ کر پانی یاد آجائے۔ بس اب دیدوں میں ہی پانی رہ گیا ہے وہ بھی ان لوگوں کے جو شرم و حیا کا مطلب جانتے ہیں، قومی غیرت وحمیت کے تقاضے کو سمجھتے ہیں ورنہ تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

چشم ترکو رونے دو اس قدرکہ خوں برسے
مدتوں مرا دامن آنسوؤں کو ترسا ہے

جب دامن دھونے کے لیے پانی میسر نہ ہوگا تو بے چارہ پانی کا ترسا ہوا آدمی دامن کو دھونے کے لیے آنسوؤں کی ہی تمنا کرے گا کہ یہ اس کا ذاتی پانی ہے، جو غموں سے کشید ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔