توانائی سے لاچارگی تک

شاہد سردار  اتوار 3 اپريل 2016

پاکستان کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسا دینا اور جب چاہے سیلابی ریلے کھول کر اس میں ڈبودینا بھارت کی ہمیشہ سے حکمت عملی رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ منگلا اور تربیلا ڈیموں کی طرح پاکستان میں مزید ڈیم بنائے جاتے اور پانی کو ضرورت کے مطابق ذخیرہ کرنے کا اہتمام کیا جاتا لیکن کسی مستحکم سیاسی نظام یا مضبوط و موثر فیصلے کی عدم موجودگی اور ملک کو مسلسل نت نئے مسائل کا سامنا رہنے کی وجہ سے یہ کام نہیں ہوسکا۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے اور پانی سے بجلی بنانے کے لیے بہت تیز رفتاری کے ساتھ جنگی بنیادوں پر پیش رفت کی ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے اور مستقبل میں یہ ضرورت سر اٹھائے رہے گی۔

کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ کوئلے،گرینائٹ اور دیگر معدنیات سے مالا مال 20 ہزار مربع کلو میٹر اور 10 لاکھ نفوس کی آبادی والا ضلع تھر پارکر قدرتی آفات اور اموات سے قطع نظر ہمارے توانائی کے بحران کے خاتمے میں بہرطور نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے وطن عزیز میں پانی کی قلت بلکہ قحط کی وجہ سے کوئلے سے ہمارے سائنس دان بجلی کی قلت کا خاتمہ کرسکتے ہیں، تھر کول پراجیکٹ اس حوالے سے ایک بہترین پیش رفت کہی جاسکتی ہے لیکن توانائی کا بحران پہاڑ کی طرح سر اٹھائے ہمارے ارباب اختیار کے صائب فیصلوں کا منتظر ہے۔

آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ہمارے سب سے بڑے اور اچھے دوست ملک چین نے پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر لگانے کا اعلان کیا تھا، جن سے بھاشا ڈیم، ڈاسو ڈیم، گڈانی کے چھ ہزار میگا واٹ کے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ تھر کوئلہ کا پلانٹ مین ایٹمی بجلی گھر، بجلی کی لائنیں گوادر سے شمالی سرحد تک کے منصوبے شامل تھے لیکن افسوس ہمارے ارباب اختیار  کی ناقص حکمت عملی یا فیصلوں کی نظر یہ منصوبے شاید ہمیشہ پائپ لائن میں پھنسے رہیںگے۔

وطن عزیز میں پانی اور بجلی کا بحران اپنی انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے اور یہ دونوں چیزیں آج حضرت انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتی ہیں اور اب اس حوالے سے مزید تاخیر اور لیت و لعل کی کوئی گنجائش نہیں، ڈیموں کی تعمیر اور ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے۔ لہٰذا چاروں صوبوں کو اس معاملے میں ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافات جلد از جلد طے کرکے اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے کیوں کہ ایسا نہ کرنا بہر طور خودکشی کے مترادف ہی ہوگا۔

بجلی یا توانائی کے بحران کے حوالے سے بھی متعدد بار بڑے بڑے ہاتھوں نے اس کو چراغ سحر بنانے کی کامیاب سعی کی اور پورے ملک کو تاریکیوں کے حوالے کردیاگیا۔ اب بھی بڑے بڑے بجلی کے بریک ڈاؤن یہی رونا روتے نظر آتے ہیں، افسوس اکیسویں صدی میں سانس لیتے ہوئے ہم عوام ہمارے ارباب اختیار کو سب اچھا سب اچھا کا راگ الاپتے انھیں بے بسی سے دیکھنے کے سوا کچھ کر نہیں پارہے۔

بجلی جیسے مضبوط اور حساس ادارے کو متعدد بار متعدد اداروں اور لوگوں کے حوالے کیا جاتا رہا لیکن سبھی نے ملکی مفاد سے زیادہ اپنے مفاد کا خیال رکھ کر اسے نقصان پہنچانے کے سوا اور کچھ نہ کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ محکموں، اداروں، افسران یا اہلکاروں کو بے قاعدگی کی راہ پر چلنے سے روکنے کے لیے کوئی موثر ادارہ ضرور ہونا چاہیے مگر اس کے طرز عمل سے انتقام کا پہلو اجاگر نہیں ہونا چاہیے۔

وطن عزیز میں اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی دیکھنے میں ہمیشہ سے آیا ہے کہ جب کسی اہم شخصیت کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے تو کاروبار اور سرمایہ کاری کی مجموعی فضا متاثر ہونے لگتی ہے ہمارے سیاست دانوں، دانشوروں اور اقتصادیات و سماجیات کے ماہرین کو مل بیٹھ کر اس نوع کے تمام امور کا جائزہ لینا اور ایسا موثر طریقہ وضع کرنا چاہیے جسے ایک طرف عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہو تو دوسری جانب یہ تاثر ختم ہو کہ ملک میں غلط کاری اور کرپشن کی موجودگی کے باوجود بد عنوان عناصر احتساب سے بچے رہتے ہیں۔

پاکستان ایک طرف بجلی کی قلت کے سنگین بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اس فعل بد میں ہر عابد وزاہد تک ملوث ہے، برسوں سے گرمیوں کے علاوہ سردیوں میں بھی عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے، شہروں میں تو پھر بھی لوڈ شیڈنگ کا وقفہ کم ہوتا ہے مگر دیہی علاقوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے اور بعض اوقات کئی کئی روز بجلی غائب رہتی ہے جس کی وجہ سے زندگی کا نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے حکومت جہاں بجلی کی پیداوار بڑھانے کی تدابیر اختیار کررہی ہے وہاں وزارت پانی و بجلی، بجلی چوری کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔

اس نے الیکٹریسٹی ایکٹ میں ترامیم کی سفارشات تیار کی تھیں جنھیں قومی اسمبلی کی منظوری اور صدر مملکت کی توثیق کے بعد قانون کا درجہ حاصل ہوگیا ہے نئے قانون کے تحت بجلی چوری کو سنگین جرم قرار دیاگیا ہے جو ناقابل ضمانت ہوگا۔ بجلی چوروں کے خلاف اب مقدمات الیکٹریسٹی یوٹیلٹی کورٹس میں چلائے جائیںگے اور جرم ثابت ہونے پر 7 سال تک قید با مشقت اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ کی سزائیں دی جاسکیں گی۔

بجلی کے واجبات مالیہ کی طرح وصول کیے جائیںگے اور عدم ادائیگی کی صورت میں جائیداد قرق کرلی جائے گی، بجلی چوروں کی بغیر وارنٹ گرفتاری عمل میں لائی جاسکے گی۔ کنڈا ڈال کر بجلی چرانے والوں کے لیے بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، ٹرانسمیشن لائنوں اور میٹر کو نقصان پہنچانا تخریب کاری کے زمرے میں آئے گا اور اسے لحاظ سے اس کی سزا بھی زیادہ ہوگی۔

وزارت پانی و بجلی نے چوری روکنے کے لیے پولیس کی مدد سے کریک ڈاؤن کی تیاری کرلی ہے لیکن اس قانون یا دستور کو نافذ کیے ایک ماہ کا عرصہ ہوچلا اس پر عمل در آمد دور دور تک نظر نہیں آرہا، حالانکہ جس قوم کا اچھا سوچنے والے کم ہوں انھیں تو ہر صورت موت آنے سے پہلے بہت کچھ کر گزرنا چاہیے۔ لیکن ہمارے ملک کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔

یہاں آئین (ملک کا دستور) بنانے والے کو پھانسی اور اسے توڑنے والے کو جانے دینا روایت ہے اور اس روایت دیرینہ کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جمہوریت اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ وہ با اثر اداروں یا لوگوں کا دباؤ برداشت کرسکے آج کروڑوں پاکستانی جو سویلین حکمرانی کے داعی ہیں انتہائی مایوس ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو پودا کب تناور درخت بنے گا؟

پاکستان خود مختار اور آزاد ملک کی حیثیت سے جس دن دنیا کے نقشے پر ابھرا اس کے بہت بعد آزاد ہونے یا معرض وجود میں آنے والے ممالک میں بجلی سے ٹرینیں چلائی جارہی ہیں، ہم نے ایٹم بم تو بنالیا لیکن بجلی بنانے میں یا اسے مہیا کرنے میں ناکام رہے یہی وجہ ہے کہ اکیس ویں صدی میں نت نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ ہونے کے باوجود ہمارے گھروں میں لالٹین جل ر ہے ہیں اور بدترین لوڈشیڈنگ ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ دنیا کو فتح کرنے والے چنگیز خان کا المیہ بھی یہی تھا اس کا کہناتھا کہ میں نے زندگی کے ہر دشمن کو شکست دی لیکن میں اپنی تقدیر فتح نہیں کرسکا۔

بہرحال اب بھی ہمیں اجتماعی طور پر ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں، بے راہ رویوں، غفلتوں اور بداعمالیوں سے اجتناب کرلینا چاہیے کیوں کہ واقعی قدرت کبھی انسانوں کے گناہوں، جرائم، کوتاہیوں اور حکمرانوں کی سیاسی غلطیوں کی سزا فوراً نہیں دیا کرتی اس سزا میں ہمیشہ وقفہ ہوتا ہے کیوں کہ قدرت ہمیشہ لوگوں اور حکمرانوں کو سنبھلنے، معافی مانگنے، توبہ کرنے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے کا موقع دیتی ہے، شاید یہی  وجہ ہے کہ تمام انسانوں کا حساب موت کے بعد نہیں  بلہ حشرکے دن ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔