دہشت گردی کا خاتمہ۔۔۔؛ نیشنل ایکشن پلان پر اصل روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 4 اپريل 2016
سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں گفتگو ۔  فوٹو : ایکسپریس

سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کا اعلان کیا جس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آگئی جبکہ بڑی تعداد میں گرفتاریاں،مجرموں کو سزائیں اور پھانسیاں بھی ہوئیں ۔

اس کے بعد اگرچہ کم مگر تواتر کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں اور حال ہی میں لاہور کے گلشن پارک میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی اپنے ساتھ کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔

اس پر کتنا عمل ہوا، اس میں کیا کھویا ، کیاپایا اور ابھی کون سے اقدامات باقی ہیں؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ’’نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد‘‘کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات
(تجزیہ نگار)
پاکستان میں 2002ء سے فاٹا میں عسکریت پسندی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے 80ء کی دہائی میں پنجاب میں قرقہ وارانہ گروپس سامنے آئے جن کے نتیجے میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی سے بہت نقصان ہوا ہے ۔

دہشت گردی کے حوالے سے ہم دوسرے ممالک پر الزامات لگا رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے اور یہاں سے ہی پیدا ہوا ہے۔ہم غربت کو دہشت گردی کی وجہ بتاتے ہیں لیکن ایسا نہیںہے، یورپ میں جو دہشتگردی ہوئی اس میں غریب لوگ ملوث نہیں تھے اور نہ ہی ان کا تعلق مدارس سے تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے سیکولر ایجوکیشنل سکول، مدارس کی نسبت زیادہ عسکریت پسندی کا کلچر بنا رہے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم میںرٹہ ہے۔

طالبعلموں میں موازنہ کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کی جاتی اس لیے وہ جو بات پہلے سنتے ہیں اس پر یقین کرلیتے ہیں۔پنجاب اور فاٹا میں پہلے عسکریت پسندوں کا ٹارگٹ مختلف تھا، فاٹا میں لوگ حکومت کے ساتھ لڑ رہے تھے جبکہ پنجاب میں فرقہ وایت تھی لیکن اب عسکریت پسندی نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے اور اس کی نئی شکل انتشار کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ پنجاب اور فاٹا کے طالبان کے بعض مفادات ایک ہیں، جن پر وہ اکٹھا ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ جگہ پر ان میں اتفاق نہیں ہے لیکن اب دونوں انارکی پھیلا رہے ہیں۔

ہمارا دشمن چھپا ہوا ہے، جس کا مقابلہ خفیہ فورس کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے لہٰذا اپنے انٹیلی جنس نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان میں ایک بات کی گئی تھی کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اوپر اور نیچے کی سطح پر رابطے کا فقدان ہے ، انٹیلی جنس شیئرنگ کا میکانزم نہیں ہے لہٰذا یہ رابطہ فوری بحال کیا جائے۔

افسوس ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا،حکومت پنجابی طالبان کے وجود سے انکاری تھی اورایسا ظاہر کیا جارہا تھا کہ سب اچھا ہے۔ اب پنجاب میں فوج، حکومت سے پوچھ کرنہیں آئی بلکہ اس نے خود پنجاب میںا ٓپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لانگ ٹرم اقدامات کی اشد ضرورت ہے، اس کے لیے تعلیم پر فوکس کیا جائے اور نصاب سے نفرت اور منفی سوچ کا خاتمہ کیا جائے۔

کسی بھی ملک میں لوکل گورنمنٹ کااہم کردار ہوتا ہے لیکن ابھی تک لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں نے حلف نہیں اٹھایا اور ان کے رولز آف بزنس میں کوئی کام ہی نہیں ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اب وقت آگیا ہے کہ قومی حکومت بنائی جائے اور حالات بہتر ہونے کے بعد پارٹی پالیٹکس بحال کردی جائے ۔اس کے لیے آئین کو نہ چھیڑا جائے بلکہ اس کے اندر رہتے ہوئے راستہ نکالا جائے۔

جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ
(دفاعی تجزیہ نگار)
ہمارے اندر بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ کوئی بھی واقعہ رونما ہونے کے بعد ہم فیصلہ لیتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا اور اب سانحہ لاہور کے بعد پنجاب میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے فیصلہ سازی کے عمل کو ترک کردیا ہے۔ برصغیر میں جب برطانیہ کی حکومت تھی تو سول ایڈمنسٹریشن اور پولیس معاملات چلاتی تھی جبکہ فوج اتنا عمل دخل نہیں تھا۔

ہمارے ملک میں تو حالت یہ ہے کہ فوج فارغ نہیں ہے تو مردم شماری نہیں ہوسکتی حالانکہ مردم شماری کا ایک الگ محکمہ ہوا کرتا تھا۔یہ باعث افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی کام نہیں کرنا چاہتا اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن کو تباہ کردیا گیاہے جبکہ ڈی سی اوز بھی کوئی فیصلہ نہیں لیتے بلکہ ان کا یجنڈا صرف حکمرانوں کو خوش رکھنا ہے۔

عام آدمی کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے جبکہ حکمران امیر ہوتے جارہے ہیں۔ افسوس ہے کہ عوام کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں جبکہ پہلے سے موجود سکول، ہسپتالوں و دیگر سہولیات میں بھی کمی آرہی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شارٹ ٹرم پر کام ہورہا ہے جبکہ لانگ ٹرم اقدامات کا ابھی تک آغاز نہیں ہوا۔ فوج جو آپریشز کررہی ہے یہ شارٹ ٹرم اقدامات میں شامل ہے۔

دہشت گردی کا یہ سلسلہ تقریباََ 10برس قبل شروع ہوا، اگر ہم اس کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ ہوتے اور 10سال قبل سے ہی تعلیم کی طرف توجہ دیتے تو آج اتنے مسائل نہ ہوتے لیکن افسوس ہے کہ ہماری سمت درست نہیں ہے۔اس وقت ملک میں 29 ہزار 9 سو 81مدارس ہیں جبکہ 88ء میں 2 ہزار8سو 61تھے اور 47ء میں 200سے بھی کم تھے۔ ہم نے تو اپنا کلچر ہی تبدیل کردیا ہے کیونکہ غریبوں کے لیے سکول کم جبکہ مدارس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ مدارس کے مالکان نے تو اسے کاروبار بنا لیا، ان میں سے بعض فرقہ واریت پھیلاتے ہیں ، دوسرے ممالک سے فنڈنگ لیتے ہیں لیکن مدارس میں پڑھنے والے غریب لوگ ہیں جو سکول کی فیس ادا نہیں کرسکتے۔

اس وقت 30لاکھ کے قریب بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں، اگر ہم نے مدارس کو بند یا ان کوئی حل کرنا ہے تو ان بچوں کو متبادل نظام تعلیم دینا ہوگا۔ ہمارے ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہے، یہاں غیر قانونی کام کرنا آسان ہے جبکہ طاقور کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ میرے نزدیک جب تک لاء اینڈ آرڈر ٹھیک نہیں ہوگا تب تک ہم دہشت گردی سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔

امن و امان کی صورتحال بحال کرنے کے لیے ہمیں لانگ ٹرم اقدامات کرنا ہونگے، تعلیم پر کام ہونا چاہیے اور مدارس کی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس اور سول ایڈمنسٹریشن کو فعال بنانا چاہیے اور لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرنا چاہیے۔ اس وقت مردم شماری انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہمارے پاس اپنے لوگوں کا ڈیٹا نہیں ہے، اس کے لیے فوج کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ ملکی حالات کے پیش نظر جلد از جلد مردم شماری کروائی جائے۔افسوس ہے کہ ہمارا ملک ، بھارت، افغانستان، انگلینڈ اور امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت بیرونی ایجنسیوں کی چراہ گاہ بن گیا ہے ہمیں اس مداخلت کو ختم کرنے کے لیے موثر انٹیلی جنس نظام قائم کرنا ہوگا اور بیرونی ممالک کی فنڈنگ کو روکنا ہوگا ۔

حکومت 10دن پہلے تک یہ موقف اپنائے ہوئے تھی کہ پنجاب میں آپریشن کی ضرورت نہیں۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ پنجاب میں آپریشن نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے لہٰذا اب فوج کو حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب آپریشن کے چند روز میں ہی سینکڑوں مشتبہ افراد گرفتار ہوئے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود وغیرہ بھی ملا ہے۔ افسوس ہے کہ حکومت نے اپنے اقتدار کی خاطر اس آپریشن کی مخالفت کی جس سے ملک کا نقصان ہوا ہے۔ ہمارا بارڈر مینجمنٹ سسٹم بہت کمزور ہے، اسے بھی بہتر بنانا ہوگا۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار)
نیشنل ایکشن پلان کا کچھ حصہ فوج سے منسلک تھا جس پر 90فیصد کام ہوچکا ہے۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا گیا، فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ، مجرموں کو سزائیں بھی ہوئیں لیکن سول حکومت کی جانب سے اس کی ذمہ داریوں میں سستی نظر آتی ہے اور نیشنل ایکشن پلان کی رو کے مطابق کام نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کم مگر تواتر کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں جن میں سے سانحہ لاہور ایک بڑا واقعہ ہے۔

کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی میں سہولت کاروں کا نیٹ ورک اہم ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں اس نیٹ ورک کو کیسے توڑنا ہے اور سہولت کاروں تک کیسے پہنچنا ہے تاکہ دہشتگردی کو کم کیا جاسکے۔ قبائلی علاقوں میں جب آپریشن ہوا تو بڑی تعداد میں دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے۔ افسوس ہے کہ افغان بارڈر کے حوالے سے ابھی تک کوئی میکانزم تیار نہیں ہوا حالانکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ افغانستان سے پاکستان آتے ہیں ۔

ا س راستے سے دہشت گرد باآسانی آجاتے ہیں لہٰذا اسے ہر حال میں محفوظ بنانا ہوگا۔آپریشن کے نتیجے میں فاٹا میں اصلاحات کی ضرورت تھی، وہاں حکومتی رٹ قائم ہونی چاہیے تھی مگر تاحال ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ آئی ڈی پیز کی بحالی کا معاملہ بھی حل طلب ہے اوران کی آباد کاری کا کام ابھی تک نہیں ہوسکا ۔ یہ وہ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردوں کو وہاں سے سہولت کار ملتے ہیں۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ افغانستان اور ایران میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک موجود ہے، بھارت وہاں سے ہمارے ملک میں کارروائیاں کررہا ہے اور حال ہی میں ’’را‘‘ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری اس کا ثبوت ہے۔ بھارت کے معاملے میں افغانستان اور ایران کی حکومتوں کا ہمارے ساتھ تعاون نہ کرنا ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے جبکہ اس معاملے میں امریکا بھی ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے۔

آرمی چیف افغانستان میں دہشت گردوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں، بجائے یہ کہ ان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی جاتی افغان سفیر نے کہا کہ وہ نو گو ایریاز ہیں اور وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ جب ہم نے سارے نو گو ایریاز ختم کردیے ہیں اور اس مشترکہ دشمن کے خلاف کارروائیاں کی ہیں تو افغانستان کے اس رویے کا جواز نہیں بنتا۔ اگر افغان حکومت تعاون کرتی تو ان لوگوں کو کہیں پناہ نہ ملتی مگر اب یہ لوگ وہاں جاکر منصوبہ بندی اور ہمارے ملک میںکارروائیاں کررہے ہیں۔

کل بھوشن یادیو ، چابہار میں بیٹھ کر اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا جو بے نقاب ہوگیا ہے لیکن ایک صحافی کے سوال کرنے پر ایرانی صدر نے کہا کہ جب بھی ایران اور پاکستان قریب آتے ہیں غلط فہمی پھیلا دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی نظر میں بھارت کی گڈ ول ہے اور وہ کبھی بھی بھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں توازن نہیں ہے جبکہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ایران ہمیں مختلف تناظر میں دیکھ رہا ہے۔

میرے نزدیک ایرانی صدر کی پاکستان آمد اچھا آغاز ہے ورنہ اس سے پہلے بہت ساری غلط فہمیاں موجود تھیں ۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں ہمارے لیے الارمنگ صورتحال ہے مگر حکومت آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ’’را‘‘ کی مدد کے بغیر طالبان لاہور میں اتنی بڑی کارروائی نہیں کرسکتے ، بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری اور اعتراف سے سارا معاملہ واضح ہوگیا ہے لہٰذا اب ہمیں عالمی سطح پر بھارت اور ’’را‘‘ کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ہماری حکومت بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات استور کرنا چاہتی ہے، پٹھانکوٹ کے معاملے میں پاکستان اب جو کردار ادا کررہا ہے یہ اس لیے ہے کہ بھارت کے ساتھ ہماری گڈ وِل بن جائے لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کبھی بھی ہمارے ساتھ اس سطح پر نہیں آئیں گے جس طرح ہم چاہتے ہیں۔

افسوس ہے کہ بھوشن کے معاملے پر ابھی تک ہماری حکومت نے بھارت کے ساتھ مذمت نہیں کی۔ ہمیں بھارت کے خلاف کیس اقوام عالم میںلیجانا چاہیے اور نیشنل ایکشن پلان میں جو سولین ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے۔ حکومت پنجاب میں آپریشن کے حق میں نہیں ہے، پنجاب میں آپریشن کا آغاز آرمی چیف کا یکطرفہ فیصلہ ہے اور ا س میں وزیراعظم کی رائے شامل نہیں ہے ۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب میں آپریشن سے اس کا ووٹ بینک متاثر ہوگا، اس لیے وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور نیب کی کارروائیوں کی مخالفت کررہی ہے۔

ہم اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں ہمیں داخلی اور خارجی محاظ پر سوچنے کی ضرورت ہے، ہم بھارت سے خیر کی توقع نہیں کرسکتے کیونکہ موجودہ بھارتی حکومت کا ایجنڈا پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر ہم بھارت کے معاملے میں معذرت خانہ رویہ اپنائیں گے تو ہمیں نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔داخلی محاظ پر ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہوگا، مدارس کی رجسٹریشن کرنا ہوگی ، فاٹا میں ریفارمز لانا ہوں گے۔ اس کے علاوہ آئی ڈی پیز کی آبادکاری اور افغان مہاجرین کی رجسٹریشن بھی کرنا ہوگی۔

ڈاکٹر ارم خالد
(پروفیسرشعبہ سیاسیات، جامعہ پنجاب )
سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا،اس کے بیس نکات بہت جامع ہیںجس میں اداروں، ریاست، معاشرے اور فوج کے کردار اور ذمہ داری کا تعین کیا گیا ۔ فاٹا میں فوج نے تو ادارے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیے مگرجو کام سول حکومت کے ذمے تھا وہ نہیں ہوسکا جس میں پولیس کی بطورِ ادارہ تربیت شامل ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر 3 ، 7، 13اور 14 اس حوالے سے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ ان کے سہولت کاروں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لاکر ان کا نیٹ ورک توڑا جائے مگر اس معاملے میں بھی حکومت کا موثر کردار سامنے نہیں آیا بلکہ بہت ساری کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ حکومت کو بار بار سنجیدہ طبقوں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے معاملے پر اس کی کمزوریوں کا احساس دلایا گیامگر اپنے ووٹ بینک اور بعض عناصر کیخلاف سافٹ کارنر ہونے کی وجہ سے حکومت نے موثر کارروائی نہیں کی۔

سوال یہ ہے کہ کیا سافٹ کارنر، ملکی مفاد سے پر حاوی ہے؟ حکومت کی ان کمزوریوں کی وجہ سے اب پنجاب میں طاقت کے ساتھ آپریشن نظر آئے گا حالانکہ اگر حکومت اپنے کردار کو سمجھ کر ایسے عناصر کی نشاندہی کرتی، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی۔جنوبی پنجاب کے لوگوں میں احساس محرومی ہے، وہاں صرف مدارس کے لوگوں کو ہی ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاسکتا بلکہ دیگر لوگوں میں سے بھی سہولت کار ملنا آسان ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کی محرومیوں کو بھڑکایا گیا۔ افسوس ہے کہ کسی بھی حکومت نے ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کو ترجیح نہیں دی لہٰذا جب وہ لوگ ملک کے دیگر علاقوں کو دیکھتے ہیں تو وہ خود کو کیسے برابر کا شہری سمجھ سکتے ہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی محرومی ختم کرنے کے لیے پیکیج دیا جاتا اور انہیں سسٹم کا حصہ بنانے کے لیے کوئی پالیسی لائی جاتی مگر افسوس ہے کہ معاشرے کو تیار نہیں کیا گیا جو نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بڑی کمزوری ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک معاشرہ اداروں کے پیچھے کھڑا نہیں ہوگا تب تک کوئی بھی ایکشن پلان کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر 20 کے مطابق ملک سے جرائم پیشہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرکے انہیں سزا دی جانا تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ لوگ سسٹم سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

میرے نزدیک معاشرتی ناانصافیاں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔سانحہ لاہور کے بعد اب جو آپریشن پنجاب میں شروع ہورہا ہے میرے نزدیک یہ بہت پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ جب فاٹا میں آپریشن کرنے کی بات کی گئی تو نواز حکومت نے دہشت گردوں سے دوبارہ مذاکرات کے لیے وقت مانگا، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ بارڈر پار کرکے افغانستان چلے گئے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بہت عرصے سے آپریشن کی باتیں ہورہی ہیںتو کیا وہاں سے دہشت گرد پورے ملک میں تو نہیں پھیل گئے؟

اس حوالے سے ڈیٹا کہاں سے ملے گا ؟ جو لوگ پہلے مخصوص علاقوں میں موجود تھے اب وہ لوگ دوردراز علاقوں میں بھی موجود ہیں اور کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے ہمارے پاس آبادی کی مکمل معلومات نہیں ہیںکیونکہ ابھی تک یہاں مردم شماری ہی نہیں ہوئی لہٰذا اس وقت سب سے اہم ضرورت مردم شماری ہے۔

گلی محلوں میں آپریشن آرمی کے لیے ممکن نہیں، اس کے لیے پولیس کو کام کرنا ہے اور اس کے علاوہ ہمیں لوکل باڈی کے اداروں کو متحرک کرنا ہوگا، کیا ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ لاہور میں اتنا بڑا سانحہ ہوگیا لیکن لوکل باڈی کے لوگ نظر نہیں آئے۔ میرے نزدیک جب تک لوکل باڈیز کے اداروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت نہیں کی جائے گی تب تک ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔