کچھ فنکاروں کے بارے میں
بھارت اور پاکستان کی سرحد اتنی مشترکہ اور قریب ترین ہے کہ گھر سے باہر قدم رکھیں تو ڈر لگتا ہے
بھارت اور پاکستان کی سرحد اتنی مشترکہ اور قریب ترین ہے کہ گھر سے باہر قدم رکھیں تو ڈر لگتا ہے یہ قدم کہیں بھارت کی زمین پر نہ آ گیا ہو اور آپ کسی پاکستانی ملاح یا چرواہے کی طرح پکڑے نہ جائیں اور بھارت کی کسی بے رحم کال کوٹھڑی میں گل سڑ نہ رہے ہوں کیونکہ بھارت ہر پاکستانی قیدی کو بھول جاتا ہے اور اسے یاد دلانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے جب کہ ہمارے جیسے خس کم جہاں پاک جیسے لوگوں کی یاد دلانے کو بھی کوئی نہیں ہوتا۔ بھارت کی بے نیازی کی یہ کہانی بڑی پرانی ہے اور اس کہانی کی بنیاد نہ جانے کب رکھی گئی تھی۔
ہمارے مسلمان حکمرانوں نے اس ملک پر حکمرانی تو جی بھر کر کی مگر یہ نہ سوچا کہ ان کے بعد ہم محکوم مسلمانوں پر کیا بیتے گی کیونکہ ہماری حکمرانی کا ہر لمحہ بھارت ہندوؤں کو یاد رہا اور جب ایک بار انھیں موقع ملا تو ان کی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا اور یہ موقع تھا سقوط ڈھاکا یعنی مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے اور پاکستان کے ٹوٹنے کا اور یہ حادثہ چونکہ بھارت کی ایک کامیاب سازش کا نتیجہ تھا چنانچہ اس کی کامیابی کو بھارتیوں نے بجا طور پر اپنی کامیابی سمجھا اور اپنی اس غلامی کا بدلہ قرار دیا جو مسلمان حکمرانوں کی وجہ سے تھی اور یہ کم و بیش ایک ہزار برس جاری رہی۔
ہم مسلمانوں کو تو اپنی اس حکمرانی کی یاد تازہ نہیں تھی لیکن بھارتیوں نے ہمیں یاد دلا دیا اور وہ بھی ایک ناقابل فراموش سانحہ کی صورت میں۔ مشرقی پاکستان پہلے سقوط ڈھاکا کی صورت میں سامنے آیا اور یہ صرف ایک ریاست کے کچھ حصے کا سقوط اور علیحدگی نہیں تھی اس سانحے سے باقی ماندہ پاکستان کو بھی بے پناہ صدمے کی لپیٹ میں لے لیا لیکن ہر موت کی طرح یہ صدمہ بھی کچھ وقت بعد دھیما پڑ گیا اور پھر صرف ایک افسردہ یاد بن کر زندہ رہ گیا جو پرانے پاکستانیوں کو تو یاد رہے گا اور جب بھی ان کے سامنے 'بنگلہ دیش' کا نام آئے گا تو وہ مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں میں پہنچ جائیں گے۔ سانولے رنگ کے بھائی بہنوں کے درمیان بکھری ہوئی ان کی یادیں ان کے ذہنوں اور دلوں میں تازہ ہوں گی۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ ایسی کیا بات ہو گئی کہ مجھے اپنی گمشدہ منزل یاد آئی اور میں ماضی میں چلا گیا ایک تلخ یادوں والے ماضی میں جو ہمیشہ مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں میں مہکتا رہے گا۔ جن پاکستانیوں نے مشرقی پاکستان دیکھا ہے وہ اس کے ذکر سے اپنے دلوں پر بڑی مشکل سے قابو پاتے ہیں۔ ان کے جسم کا ایک خوبصورت حصہ دشمنوں نے کاٹ کر الگ کر دیا اور اب ہم سکڑ کر رہ گئے ہیں صرف مغربی پاکستان کی سرحدوں تک۔ بھارت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جناب یہ بھارت ہے جس سے الگ ہو کر آپ نے اپنا ملک بنایا تھا مگر اسے بھی سلامت نہ رکھ سکے۔
یہ سب مجھے ایک پاکستانی گلوکار کی بھارت جانے کی ناکام خواہش پر یاد آیا۔ یہ کسی بھارتی فلم میں اپنی گلوکاری کا نمونہ پیش کرنے جا رہے تھے۔ دلی سے خبر آئی ہے کہ ہندو سینا کی دھمکیوں کے بعد پاکستانی گلوکار غلام علی کا دورہ بھارت منسوخ کر دیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی بھارتی فلم ''گھر واپسی'' میں غلام علی نے گلوکاری کے ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھانے تھے فلم کے ڈائریکٹر صہیب الیاس کے مطابق ہندو سینا کے سربراہ شیو گپتا کی طرف سے دھمکی ملی ہے کہ تقریب الٹ دی جائے گی چنانچہ یہ تقریب ہی منسوخ کر دی گئی۔
تقریب کے صدر عمار سنگھ نے کہا ہے کہ انھیں ہوٹل کے اندر نہیں جانے دیا گیا یہ دن ہماری تاریخ کا یہ سیاہ ترین دن ہے۔ اگر کسی پروگرام کو پاکستانی ہونے کی وجہ سے روک دیا جاتا ہے تو پھر بھارت اور پاکستان میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ اس فلم میں 75 سالہ غلام علی نے گانا بھی گانا تھا اور ایکٹنگ بھی کرنی تھی۔ غلام علی نے فلم کا میوزک دیا ہے اور بھارت سے محبت کا گانا بھی گانا ہے اور اداکاری بھی کرنی ہے۔
غلام علی چونکہ پاکستانی ہے جس نے اپنی اور ملک کی بے عزتی کرانے کے لیے بھارتی فلم کا میوزک بھی دیا اور اس میں اداکاری بھی کرنی تھی لیکن بھارتیوں نے ایک پاکستانی کی اس خوشامد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ پہلی بار نہیں متعدد پاکستانی فنکار پہلے بھی بھارتیوں کے ہاتھوں رسوا ہو چکے ہیں اور بار بار اپنی رسوائی کی تلاش میں بھارت کا رخ کرتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو یہ یاد نہیں رہا کہ ہمارا پاکستان بھارتیوں کی زبردست مخالفت کے بعد حاصل کیا گیا جسے انھوں نے اپنے خلاف مسلمانوں کا حملہ قرار دیا چنانچہ اب بھی جب کبھی ایسا موقع آتا ہے تو ہ پاکستان کے قیام کو نہیں بھولتے اور مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ تم نے ہندوستان سے اپنا حصہ الگ کر لیا اب باقی ماندہ بھارت پر آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ بھارت کے لوگ ہم پاکستانیوں کو یہ بات بار بار یاد کراتے ہیں آپ جب بھی کسی پاکستان فنکار کو بھارت بھیج کر دیکھ لیں اور اس کے استقبال کا حال جان لیں۔ آپ اپنی بے عزتی پر تیار نہیں ہوں گے اور اگر پھر بھی تیار ہوتے ہیں تو یہ آپ کی ایک انتہائی غیر پاکستانی حرکت ہو گی جس کے بغیر بھی آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔
ہمارے فنکاروں سے بار بار عرض کیا جا چکا ہے کہ اب ایک آزاد اور باغیرت ملک کے شہری ہیں، خدا نے آپ کو فنی صلاحیت بھی دی ہے تو یہ اس کی عنایت اور مہربانی ہے۔ آپ اپنی قومی غیرت کو سلامت رکھیں اور صرف اس بات پر قائم رہیں کہ فن کسی سرحد کا محتاج نہیں ہوتا لیکن یہ بھی یاد رکھیں اور ہرقیت پر یاد رکھیں کہ کسی فنکار کی حد ہوتی ہے جو اس کے ملک کی حد ہوتی ہے اور یہ ایک شہری کی حیثیت سے تمام روایات اور آداب کا پابند ہوتا ہے اور قانون کے ہر ضابطے کی پابندی کرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی کئی اداکارائیں ہمارے ہاں آئی ہیں اور خوش ہو کر گئی ہیں۔ ہمیں کسی بھی ملک کے فنکاروں کی عزت کرنی چاہیے لیکن اپنے ملک کی عزت کو باقی رکھتے ہوئے۔