کراچی میں بد امنی، سیکڑوں فیکٹریاں بند، ہزاروں افراد بیروزگار

احتشام مفتی  منگل 13 نومبر 2012
100سے زائد فیکٹری مالکان نے گودام، شادی ہال، ہائو سنگ پروجیکٹ بنادیے، ہزاروں محنت کش بے روزگار ہوگئے. فوٹو : فائل

100سے زائد فیکٹری مالکان نے گودام، شادی ہال، ہائو سنگ پروجیکٹ بنادیے، ہزاروں محنت کش بے روزگار ہوگئے. فوٹو : فائل

کراچی: بھتہ مافیا کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کئی گنا اضافے کے سبب کراچی میں سیکڑوں فیکٹریاں یا تو مکمل بند ہوگئی ہیں یا پھر ان کو گوداموں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

صرف ٹیکسٹائل سیکٹرسے وابستہ ڈیڑھ سو سے زائد صنعتکار گذشتہ چند برسوں میں فیکٹریاں بند کرکے اپنا سرمایہ دبئی،کینیڈا، مصر، اردن، سری لنکا اور بنگلہ دیش منتقل کرچکے ہیں جبکہ 100سے زائد بڑی فیکٹریاں گوداموں، شادی ہال ، رہائشی وتجارتی عمارتوں میں تبدیل ہوچکی ہیں اور ان فیکٹریوںسے وابستہ ہزاروں محنت کش بے روزگار ہوگئے ہیں، آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ بھتہ مافیا کی چیرہ دستیوںاور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں نے صنعتکاروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جس سے خوفزدہ ہوکر صنعتکاروں نے نہ صرف توسیعی منصوبے روک دیے ہیں بلکہ فیکٹریاں بند کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ جس کے اثراتسے ہزاروںہنرمند وغیرہنرمند ورکرز بے روزگار ہو گئے ۔

پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین جاوید بلوانی نے بتایا کہ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کے سبب گزشتہ چندسال میںہوزری انڈسٹری سے وابستہ 52 سے زائد صنعتی یونٹس بند کردیے گئے ہیں جن میں کام کرنے والے8 ہزار سے زائد ورکرز بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اپنی صنعت بند کرکے کینیڈا منتقل ہونے والے نامورصنعتکاراسلم کارساز سالانہ ایک ارب روپے مالیت کی ہوزری مصنوعات برآمد کرتے تھے۔ اسی طرح دیگرایسی برآمدی صنعتیں بھی بند ہوچکی ہیں جنکی سالانہ برآمدات کی مالیت30 کروڑروپے تا ایک ارب روپے تھی۔ اگر حالات بہتر رہتے تو آج صرف ہوزری سیکٹر کی برآمدات کی مالیت4 ارب ڈالر سے تجاوز کرجاتی، ٹاولزمینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مہتاب چائولہ نے بتایا کہ بھتہ خوری اغوابرائے تاوان ودیگر جرائم کے باعث کراچی کے ہرصنعتی علاقے میں گزشتہ چند سال کے دوران تقریباً100 فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں جنکے مالکان یا تو بیرون ملک منتقل ہوچکے ہیں یا پھر انکی صنعتیں گوداموں، تجارتی عمارتوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایف بی ایریا صنعتی علاقے میں صابن سازی، ہوزری ونٹ ویئر، ریڈی میڈ گارمینٹس اور ریفریجریٹر بنانے والی فیکٹریاں ویئرہائوسز میں تبدیل ہوگئی ہیں جبکہ دھاگہ سازی کی پرانی فیکٹریوںکے پلاٹ پر ہائوسنگ پروجیکٹ بنادیے گئے ہیں، نارتھ کراچی انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کمپنی کے سربراہ سید عثمان علی نے بتایا کہ بعض بڑے صنعتکاروں نے جرائم پیشہ عناصر سے خوفزدہ ہوکر اپنے خاندان کو دبئی منتقل کردیا ہے اور وہاں ٹریڈنگ شروع کردی ہے ۔تجارتی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو کراچی میں صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہوجائیں گی اس صورتحال کا سب سے خطرناک اور افسوسناک پہلو یہ ہیے کہ جس تیزی سے کراچی میں صنعتی سرگرمیاں ختم ہورہی ہیں مگر اس کے باوجود کسی سطح پر اس بات کا نوٹس نہیں لیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔