جوہری مواد کامعاملہ

مقتدا منصور  جمعرات 7 اپريل 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جوہری سلامتی کے حوالے سے ہونے والی چوتھی اور اس سلسلے کی آخری عالمی سربراہ کانفرنس واشنگٹن میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں 50کے قریب ممالک کے سربراہان کے علاوہ چند بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندے شریک ہوئے۔ شمالی کوریا اور ایران  جن کے جوہری پروگراموں کو ابھی عالمی سطح پر قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے، کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ روسی صدر ولادی میر پوتن اور پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف شریک نہیں ہوئے۔ دونوں کی عدم شرکت کی وجوہات ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھیں۔ روس کو کانفرنس کے ایجنڈے اور طریقہ کار پر اعتراض تھا، جب کہ پاکستانی وزیر اعظم ایسٹر کے موقعے پر لاہور میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔

اس کانفرنس کا ایجنڈا کیا ہے؟ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ کانفرنسیں عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روک سکیں گی؟ کیا جوہری ہتھیاروں کے شدت پسند عناصر کے ہتھے چڑھنے کے حقیقی خطرات موجود ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو دنیا بھر کے متوشش شہریوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔

اس کانفرنس کا پس منظر یہ ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے 2009ء میں پراگ میں ایک کانفرنس کے موقعے پر جوہری ہتھیاروں کے شدت پسند /دہشت گرد عناصر کے ہتھے چڑھ جانے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے جوہری ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تھی کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ممکنہ خطرات سے نکلنے کی سبیل کریں۔ یوں پہلی کانفرنس 2010ء میں واشنگٹن میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں47 ممالک کے سربراہان کے علاوہ تین بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے کیا گیا کہ جوہری دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے کانفرنس میں شریک ممالک اپنے روابط کو مزید بہتر بنائیں اور جوہری اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ بھی طے ہوا کہ ہر دو برس بعد کانفرنس کا انعقاد کیا جائے اور پیش رفت پرگفتگو کی جائے۔

دوسری کانفرنس 2012 میں سیول(جنوبی کوریا) میں منعقد ہوئی۔ جس میں 53ممالک کے سربراہان اور انٹرپول کے نمایندوں نے شرکت کی۔ سابقہ کانفرنس میں طے کردہ فیصلوں پر عملد رآمد میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے علاوہ جوہری دہشت گردی سے بچنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کا طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش کی گئی۔

چند ممالک کی جانب سے ان کے جوہری پروگرام میں دوسرے ممالک کی ممکنہ مداخلت کے منفی اثرات پر تحفظ کا اظہار کیا  جس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ بین الاقوامی جوہری مانیٹرنگ کے ادارےIAEA کی استعداد اور دائرہ کار میں مزید وسعت لائی جائے ، تاکہ وہ جوہری اثاثوں کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی میکنزم تیار کر سکے۔ تیسری کانفرنس 2014 میں ہیگ(Hague) میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں سابقہ دو کانفرنسوں کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہوسکنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ جوہری صنعت کی مختلف سطحوں میں بہت زیادہ افزودہ(Enriched) یورینیم اور پلوٹونیم کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیاکہIAEAکی مشاورت سے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے طریقہ کار کو مزید فعال بنانے پر توجہ دی جائے۔

اب یہ چوتھی کانفرنس اس سال یکم اپریل کو ایک بار پھر واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوئی جس میں 50 سے زائد عالمی رہنماؤں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے تشویش کا اظہار کیا کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اگر جوہری اثاثوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں، تو یہ اس کرہ ارض کے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تنظیموں کے جنونی عناصر کی کئی ممالک کے جوہری تحقیق کے اداروں میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔

جنہوں نے ایک سے زائد مرتبہ تابکار مواد کے حصول کی کوشش کی ہے، جب کہ عراق اور شام میں داعش کی جانب سے کیمیائی اسلحے کے استعمال کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں، جو خاصے تشویشناک ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیب جتنی جسامت کی افزودہ پلوٹونیم خاصے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتی ہے۔ اس لیے جس قدر ممکن ہو، جوہری اثاثے رکھنے والے ممالک اپنے جوہری اثاثوں کو محفوظ بنانے پر توجہ دیں۔

اس کرہ ارض پر موجود صاحب الرائے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اوردوڑ کی شدید ترین مخالف ہے کیونکہ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم حملوں کے نتیجے میں جو تباہی اور بربادی آئی، اس نے انسانی ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ہیروشیما اور ناگاساکی پر بالترتیب 6 اور9 اگست1945 کودو جوہری بم گرائے تھے۔

جس کے نتیجے میں مجموعی طورپرڈیڑھ لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بنے اور تقریباً اس سے تین گنا سے زائد تعداد میں افراد مفلوج ہوئے تھے ، جب کہ املاک کو پہنچنے والا نقصان اس کے سوا تھا۔ ان ہتھیاروں کے استعمال کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ علاقہ جہاں انھیں گرایا جاتا ہے، طویل عرصے تک جوہری تابکاری کے زیراثر رہتا ہے۔ جاپان کے یہ دونوں شہر آج 71برس گذر جانے کے باوجود نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔

ان کے اطراف جوہری تابکاری کے اثرات ہنوز موجود ہیں، جو مسلسل نقصان پہنچانے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جوہری بموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہBaby بم تھے، جب کہ آج ان سے کئی گنا طاقتور جوہری ہتھیار تیار ہوچکے ہیں جو بڑے بڑے شہروں کو چند لمحوں زمیں بوس کر کے اور لاکھوںانسانوں کی زندگیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

ایک عمومی تصور یہ ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں جنم لینے والے تنازعات اور جنگوں کا بنیادی سبب ’’ زر، زن اور زمین‘‘ رہی ہے، لیکن تاریخ کے تجزیاتی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عقیدے، نظریہ اور نسلی و لسانی بنیادوں پر شدت پسندی دنیا میںبڑے پیمانے پر کشت و خون کا باعث ہے۔ راسخ العقیدگی، کسی عقیدے یا نظریے کے حوالے سے تو ایک شاندار انسانی خصوصیت ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جو احساس برتری جنم لیتا ہے، وہ دوسرے مذاہب، عقائد اور نظریات کے ماننے والوں کو کمتر سمجھنے کا باعث بنتا ہے۔

یہی کچھ معاملہ قوم پرستی ہے جو بظاہر ایک اعلیٰ انسانی وصف ہے، مگر دیگر نسلی و لسانی اور قومیتی گروہوں کے ساتھ بدترین امتیازی سلوک کوجواز فراہم کرتی ہے۔ اس قسم کے شدت پسند عناصر دنیا کے ہر مذہب، عقیدے اور نظریے میں پائے جاتے ہیں جن کی نظر میں مخالف عقائد و نظریات رکھنے والے افراد اور وہ تمام لوگ جنہوں نے ان کے عقائد سے انحراف کیا ہے، قابل گردن زدنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح نسلی اور لسانی بنیادوں پر موجود عصبیتیں بھی انسانوں کے استحصال اور کشت و خون کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

عالمی سطح پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے،  وہ بلاسبب نہیں ہیں۔ اگر ایک طرف مسلم معاشروں سے القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند اور دہشت گرد تنظیمیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں، جو عالم انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن رہی ہیں۔ دوسری طرف یورپ اور امریکا میں Puritanنئے شدت پسندانہ رجحانات کے ساتھ خود کو منظم کررہے ہیں اور عوامی سطح پر مقبولیت بھی حاصل کررہے ہیں۔ جس کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل ہرزہ سرائی سے ہوتا ہے جن کے ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے قوی امکانات پیدا ہورہے ہیں۔

جہاں تک ہندو دھرم کا تعلق ہے تو یہ گو کہ بھارت تک محدود ہے، مگر شیو سینا اور RSS سمیت دیگر شدت پسند تنظیمیں وہاں موجود مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو پرتشدد کارروائیاں کررہی ہیں، وہ بھی خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ یہودیوں کے شدت پسند عناصر یعنی صیہونی(Zionist) طویل عرصے سے عالمی امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ اس کے برعکس انسانیت نواز اور آزاد فکر حلقے عالمی سطح پر کسی Deriving قوت کی عدم موجودگی کے باعث غیر منظم ہیں جس کی وجہ سے وہ شدت پسند عناصر کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکا خود جوہری اسلحے کے استعمال کے جنگی جرائم کا مرتکب رہا ہے، جوہری اسلحے کے پھیلاؤ اور ان کے شدت پسند عناصر کے ہاتھ لگ جانے کے بارے میں اس کے خدشات قابل فہم ہیں، لیکن ساتھ ہی امریکی منصوبہ سازوں کے مدنظر یہ پہلو بھی ہونا چاہیے کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں15ہزار کے قریب جوہری ہتھیارموجود ہیں، جن کا تقریباً80فیصدحصہ خود امریکا  اور روس کے پاس ہے۔ اسی طرح2ہزار ٹن جوہری مواد دنیا کے مختلف ممالک کے فوجی اور سویلین اداروں میں موجود ہے۔ لہٰذا جب تک امریکا اور روس خودNon Proliferation پر عمل نہیں کرتے اور غیر ضروری تابکار مواد کو تلف کرنے میں پہل نہیں کرتے ، دنیا کے دوسرے ممالک اس جانب سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے صاحب الرائے اور متوشش حلقوں کی واضح اکثریت ہر قسم کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ کی مخالف ہے۔اس لیے یہ حلقے سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو جوہری مواد اور اسلحہ موجود ہے، اگر اس کی حفاظت کا کوئی مناسب میکنزم یا نظام ترتیب نہیں دیا جاتا، توجوہری مواد کےNon State Actorsاور شدت پسند عناصر کے ہتھے چڑھ جانے کے خدشات اپنی جگہ موجود رہیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔