تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

اوریا مقبول جان  جمعـء 8 اپريل 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے‘ عوام کی دولت لوٹ کر کالے دھن کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے مقید کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعے دنیا بھر کے سیاست دان‘ منشیات کا دھندا کرنے والے‘ عورتوں کو اسمگل کر کے ان کا جسمانی کاروبار کرنے والے‘ بھتہ خور‘ مافیا کے ارکان یہاں تک کہ بڑی کاروباری شخصیات اور میڈیا ہاؤس کے مالکان سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

اور یہ صف ہے ٹیکس چوری کرنے اور اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی صف۔ دنیا کے جن ممالک میں بھی ایسے ’’ عزت دار ‘ لوگوں کے نام آئے ہیں وہاں کے ان چوروں‘ لٹیروں اور بددیانتوں کے خلاف ہاہا کار مچ چکی ہے۔ ہر کوئی ان کے بارے میں وضاحتیں تحریر کر رہا ہے‘ ٹیلی ویژن پر مذاکرے ہو رہے ہیں اور ان کی کرپشن پر ڈاکومینٹریاں بنا کر پیش کی جا رہی ہیں۔

ہر کوئی ان چوروں کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے۔ لیکن کوئی اس پورے جدید معاشی جمہوری نظام کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتا جس کی کوکھ سے یہ سارے چور‘ لٹیرے‘ بددیانت‘ اسلحہ کے اسمگلر‘ خواتین کا دھندا کرنے والے اور بھتہ خور اپنے سرمائے کو تحفظ دیتے ہیں‘ پہلے عزت دار دولت مند کہلاتے ہیں اور پھر اسی سرمائے کے زور پر کسی ملک کی کانگریس یا پارلیمنٹ پر قبضہ کر کے اس کے سربراہ تک بن جاتے ہیںاور اپنے اس سرمائے کو تحفظ دینے کے لیے خود ہی قوانین بناتے ہیں۔

اپنی اس مکروہ دولت کے لیے آف شور کے نام سے محفوظ جنتیں تخلیق کرتے ہیں اور پورے کا پورا جدید معاشی جمہوری نظام ان کو تحفظ دیتا ہے۔ ان پر تنقید کرنے والے‘ ان کے خلاف دلائل لے کر آنے والے‘ ان کے خلاف گفتگو کرنے والے میڈیا کے افراد اور ان کے مخالف سیاسی یا کاروباری لوگ سب ان کے زر خرید غلام ہیں۔ جس کو جتنا بولنے کی اجازت ہوتی ہے اتنا ہی بولتا ہے۔ ہر دفعہ کچھ عرصے کے بعد ایک بڑی چوری کا سکینڈل نکل آتا ہے اور پھر ایک بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔

چند لوگوں کا منہ کالا کر دیا جاتا ہے‘ ان کی جگہ نئے لوگ آ جاتے ہیں جو اگلے کتنے سالوں تک اسی گندے اور مکروہ نظام کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور مال بھی بناتے ہیں۔ بینکاری کا سودی نظام اور اس کے ساتھ کارپوریٹ سسٹم کا سیکیورٹی ایکسچینج جو کمپنیاں رجسٹرڈ کرتا ہے اور لوگوں کے سرمائے سے کُھل کھیلتا ہے یہ دونوں اس پورے نظام کے اصل محرک ہیں۔ ان کے ذریعے سرمایہ کا ایک پہاڑ بنایا جاتا ہے اور اس پہاڑ میں سے چند ارب ڈالر سیاسی پارٹیوں کے فنڈ‘ میڈیا ہاؤس کے اخراجات‘ عالمی انسانی حقوق کی انجمنوں اور این جی اوز وغیرہ کو دیے جاتے ہیں۔

یہ سب کے سب اس جدید جمہوری معاشی نظام کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اسے دنیا کا اعلیٰ ترین اور کامیاب ترین تصور حکومت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس نظام سے اگر چند ڈکٹیٹر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر ڈکٹیٹر یا آمر کو نہیں پوری آمریت کو گالی دی جاتی ہے۔ حیران ہونے کی بات ہے کہ ’’ٹیکس چوروں کی یہ جنتیں‘‘ ساری کی ساری جمہوری ممالک میں قائم ہیں۔ پانامہ لیکس میں جس برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کا ذکر ہے اور ساتھ ہی کئی سو برطانوی سیاستدانوں کا، تاجروں کا تذکرہ ہے۔

وہی کیمرون اس وقت دنیا بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف مہم کی قیادت کر رہا ہے اور منافقت کا عالم یہ ہے کہ برطانیہ ہی وہ ملک ہے جس کے ماتحت ایک جزیرہ جسے ایک نیم خود مختار حکومت کا درجہ دیا گیا ہے یعنی ’’ورجن آئی لینڈ Vingin lsland‘‘ وہ ٹیکس چوروں کی دنیا بھر کی چند بڑی جنتوں میں سے ایک ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اس بڑی فرم موسیک فونسیکا Mossack Fonsecaکی زیادہ تر کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔

یہ صرف پانامہ لیکس کی بات نہیں امریکا جو دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت اور سودی معیشت کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں تو یہ راز عرصے سے ایک راز نہیں کہ وہاں کے سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیے امریکا کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ سرمایہ ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے امریکا سے باہر رکھا ہوا ہے اور یہ وہ جزیرے ہیں جن پر کسی ملک کا معاشی قانون لاگو نہیں ہوتا۔کس قدر مجرمانہ ذہنیت ہے اس جدید مغربی جمہوری معاشی نظام کی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو گوانتانامو بے کا جزیرہ رکھو اور معاشی اصولوں کی خلاف ورزیاں کرنا ہوں تو اپنے ہی زیر اثر جزیرے بناؤ جن میں قانون امریکی‘ برطانوی‘ فرانسیسی وغیرہ لاگو نہ ہوتا ہو اور جہاں ایسے چوروں اور لٹیروں کی ایک جنت آباد ہو۔

ٹیکس جسٹس نیٹ ورک جو ایک اہم امریکی ادارہ ہے اس کی 2012ء کی رپورٹ کہتی ہے، اس وقت 32 ہزار ارب ڈالر کا سرمایہ امریکی سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیے ایسی آف شور کمپنیوں میں رکھا ہوا ہے۔ اگر یہ سرمایہ امریکا میں ہوتا تو تقریباًِ 200 ارب سالانہ ٹیکس اکٹھا ہوتا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے گبریا زک مین Gobria Zucman کی سربراہی میں ٹیکس چوری کے اس نیٹ ورک کا مطالعہ کروایا۔ اس کے مطابق سات ہزار چھ سو ارب ڈالر کا سرمایہ ہالینڈ، لکسمبرگ اور آئرلینڈ کے زیر اثر ایسے جزیروں پر رکھا گیا ہے جہاں کے جمہوری حکمرانوں نے چوروں اور لٹیروں کے لیے نرم قانون بنائے ہوئے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ جسے دنیا کے سامنے خوابوں کی دنیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہاں کی طرز زندگی کو دیکھو‘ وہاں کی خوشحالی کو دیکھو‘ اس ملک میں اس رپورٹ کے مطابق صرف امریکا کے ٹیکس چوروں کا دو ہزار چار سو ساٹھ ارب ڈالر سرمایہ پڑا ہوا ہے جس کے سود سے یہ ملک امیر ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی ساٹھ بڑی کمپنیوں نے ایک سو چھیاسٹھ ارب ڈالر ان ٹیکس چوروں کی جنت میں رکھا ہوا ہے۔

1999ء میں جرنل آف پبلک اکنامکس نے رپورٹ شایع کی کہ 60 فیصد امریکی فرموں نے اپنا سرمایہ اسی طرح باہر رکھا ہے تا کہ ٹیکس چوری کر سکیں۔ پوری دنیا میں ہر ملک کو ایک (Financial Secrecy Index FSI) دیا جاتا ہے کہ وہ ملک کاروباری دولت کو کس حد تک چھپاتا ہے۔ یہ ملک معلومات خفیہ رکھیں تو ٹیکس چوروں‘ بھتہ خوروں‘ عورتوں کا دھندہ کرنے والوں‘ اسمگلروں‘ منشیات فروشوں اور ایسے دیگر افراد کو اپنا سرمایہ رکھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

اس لیے یہ جرائم پیشہ افراد اور بددیانت سیاست دان بھی اپنا سرمایہ ایسے ملکوں اور جزیروں میں رکھتے ہیں تا کہ ان کی چوری کے بارے میں معلومات نہ افشاء ہو سکیں۔ دنیا بھر میں ایسے 82 ملک اور جزیرے ہیں۔ خوش ہو جائیے‘ ناچیئے‘ دھوم مچایئے کہ ان میں اکثریت وہ ہیں جہاں جدید جمہوری معاشی‘ سیاسی اور سودی نظام رائج ہے۔

ان میں سرفہرست سوئٹزرلینڈ ہے جس کا 17652 FSI ہے اس کے بعد لکسمبرگ (14544)‘ ہانگ کانگ(12834)‘ کیمن آئی لینڈ (12335)‘ سنگا پور (12168)‘ امریکا (12129)‘ لبنان (7478)‘ جرمنی (7383)‘ جرسی (5912)‘ جاپان (5131)جمہوریت کی والدہ محترمہ برطانیہ اکیسویں نمبر پر ہے۔ یہ وہ 82ممالک اور جزیرے ہیں جہاں آپ دولت لے جائیں‘ خواہ کیسے کمائی ہو‘ جیسا چاہے کاروبار کریں آپ کے سارے کاروبار کو تحفظ حاصل ہو گا اور آپ کی معلومات کسی کو نہیں دی جائیں گی۔

اب ذرا طریق کار ملاحظہ فرمائیں۔ یہ بددیانت اور چور پہلے اس ملک یا جزیرے میں رہائش پذیر ہونے کی اجازت لیتے ہیں۔ ان میں اکثر ایسے ہیں کہ سال میں چند دن ہی وہاں رہیں تو وہ رہائشی کہلاتے ہیں‘ پھر آپ کے بزنس کی ایک شاخ وہاں کھولی جا سکتی ہے جو آپ کو وہاں کے رہائشی بنانے میں مزید آسانی پیدا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ ان جزیروں پر کمپنیاں یا ٹرسٹ بنا کر رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ آپ دنیا میں کہیں بھی کاروبار کریں آپ کا سرمایہ اسی جزیرے سے جاتا ہے اور یہیں واپس نفع کما کر آ جاتا ہے۔ یہاں اول تو ٹیکس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو بہت کم۔ یہ لوگ اپنے اس کالے دھن سے دنیا بھر کے پورے جمہوری نظام کو مستحکم کرتے ہیں۔ وہ نظام جو ان کی سرپرستی کر رہا ہوتا ہے۔ ان کا سرمایہ پارٹی فنڈنگ میں جاتا ہے۔ اوباما کو یہ لوگ سات ارب ڈالر دیتے ہیں تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ الیکشن لڑ سکے۔ ہمارے ایک وزیر نے ایک دفعہ کیسا سچ بول دیا تھا کہ نواز شریف صاحب تو اب حسین نواز سے خرچہ منگواتے ہیں۔

اسی قسم کے خرچے پوری دنیا کے جمہوری نظام کو چلاتے ہیں۔ ایسے ہی خرچے ہیں جس سے اس پوری دنیا کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا چلتا ہے۔ نوم چومسکی نے اپنی کتاب Mannufacturing Consert میں دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کی لسٹ دی ہے۔کمال کی بات دیکھیں کہ کرپشن کے خلاف سب سے بڑی عالمی این جی او ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہے۔ چلی میں اس کے صدر گونزیلو ڈیلو Gonzalo Delaveau کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا ہے جس نے اپنا سرمایہ چھپانے کے لیے آف شور کمپنی بنائی۔

چند دن شور مچے گا۔ وہ دیکھو آئس لینڈ کا وزیراعظم مستعفی ہو گیا‘ تمام ملکوں نے تحقیقات شروع کر دیں۔ دنیا کے جمہوری ملکوں کی اخلاقی حالت دیکھو کس قدر عظیم ہے۔ چوروں کو ٹھکانے لگایا جائے گا۔ اس کے بعد نئے لوگ ان جمہوری مسندوں پر بیٹھ جائیں گے اور اس جمہوری چھتری میں ان کا عظیم سودی معاشی نظام ٹیکس چوروں کی نئی جنتیں قائم کرتا رہے گا۔ یہی 82 جمہوری ملک چوروں‘ ڈاکوؤں‘ بھتہ خوروں‘ عورتوں کا کاروبار کرنے والوں اسمگلروں‘ اسلحہ اور منشیات بیچنے والوں کے سرمائے کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ چور مردہ باد‘ چوروں کا تحفظ دینے والا جدید جمہوری معاشی سودی نظام زندہ بادہ۔ اقبال نے کہا تھا

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔