کوئلے کے ساتھ کوئلہ بننے والوں کی حالت زار

ضمیر آفاقی  پير 11 اپريل 2016
پہاڑوں کا پیٹ چیرتے ہوئے انکی گہرائی میں جاکر کوئلے کیساتھ کوئلہ بننے والے کان کنوں کی زندگیاں ہر وقت خطرے کا شکار رہتی ہیں لیکن المیہ دیکھیے کہ حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ فوٹو: رائٹرز

پہاڑوں کا پیٹ چیرتے ہوئے انکی گہرائی میں جاکر کوئلے کیساتھ کوئلہ بننے والے کان کنوں کی زندگیاں ہر وقت خطرے کا شکار رہتی ہیں لیکن المیہ دیکھیے کہ حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ فوٹو: رائٹرز

زندگی صرف ایک بار ملتی ہے جسے بہترین انداز میں گزارنے کا حق ہر انسان کو ملنا چاہیئے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستان میں انسانی جان کی حرمت، تکریم اور تحفظ کے لئے نہ تو سوچا جاتا ہے اور نہ ہی عمل کیا جاتا ہے۔ کسی حادثہ، بم دھماکے، خود کش حملے یا کسی بھی سانحہ، ڈاکٹرز کی غفلت کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو قدرت کے کھاتے میں ڈال کر ہم سب بری الذمہ ہوجاتے ہیں جبکہ ان حادثات اور سانحات کے ’’مرتکبین‘‘ کو نا ہی قانون کے کٹہرے میں لا کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں اور نہ ہی ان وجوہات کا کھوج لگا کر ان کا سدباب کیا جاتا ہے جن کی بناء پر کوئی بھی حادثہ اور سانحہ جنم لیتا ہے۔

بڑے بڑے واقعات پر تو پھر بھی حکمرانوں اور میڈیا کی نظر پڑجاتی لیکن کچھ حادثات ایسے بھی ہیں جن پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ پاکستان میں کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدروں کی حالت زار اور حادثات کو تو زیرِ بحث لایا ہی نہیں جاتا، حالانکہ پاکستانی کانوں میں بہترین کوئلہ پیدا ہوتا ہے جس سے ملک کو بڑی تعداد میں زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ اس کوئلہ کا ایک ٹن اوپن مارکیٹ میں 10 سے 11 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو 60 کلومیٹر طویل اور 20 کلو میٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں 5 سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت 2 ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔

لیکن المیہ دیکھیے کہ پہاڑوں کا پیٹ چیر کر اور ان کی گہرائی میں جا کر کوئلے کے ساتھ کوئلہ بننے والے کان کنوں کی زندگیاں ہر وقت خطرے کا شکار رہتی ہیں، لیکن اِس قدر محنت کے باوجود بھی اِن کو ملنے والا معاوضہ انتہائی معمولی ہے۔ ایک کان کنوں کو 3 سو سے 5 سو روپے تک مزدوری ملتی ہے۔ یہ لوگ ایک طرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں تو دوسری جانب ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پاکستان میں کان کنوں کے ساتھ اکثر رونما ہونے والے حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کان کنی کی نجی کمپنیوں کے پاس مناسب اوزار نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے مزدوروں کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور ہر وقت جان سولی پر لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

مزدور مجموعی طور پر کوئلے کے ایک ٹرک کی لوڈنگ کا معاوضہ 3 سے 4 ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں، جو تمام مزدوروں میں برابر کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے، پھر بعد میں یہ کوئلہ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ بلوچستان ہو یا ملک کے دیگر علاقے، کوئلہ کی کانیں موت کی کانیں بن چکی ہیں، غریب کان کن یہاں محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں لیکن ناقص انتظامات کے سبب یہ غریب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئلہ کی کان کنی کا آغاز 1873ء میں ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ صدی گزرنے کے باوجود کان کنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صوبے کی 5 ہزار سے زائد کانوں سے سالانہ 20 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے، یہاں 40 ہزار سے زائد مزدور 18، 18 گھنٹے تک دن رات اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کان کنی کرتے ہیں۔ انہیں نہ جدید آلات میسر ہیں اور نہ ہی حفاظتی قوانین سے آگاہی دی جاتی ہے۔ بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کی 140 سالہ تاریخ میں اب تک 70 بڑے حادثات ہوچکے ہیں۔ پچھلے 5 سال کے دوران 3 سو سے زائد کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں ایک ہزار فٹ سے لیکر 5 ہزار فٹ تک کان کنی ہورہی ہے۔ محکمہ معدنیات کے حکام زیادہ گہرائی میں کان کنی کو ہی حادثات کی اہم وجہ بتاتے ہیں۔ محکمہ معدنیات بلوچستان نے 140 خطرناک کانوں کو بند کرنے کے نوٹس تو دیے مگر کان مالکان کے با اثر ہونے کی وجہ سے بیشتر کانیں سیل نہ ہوسکیں۔ صوبے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی پر کان مالکان کے خلاف سینکڑوں کیس بھی عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔

کچھ یہی صورت حال صوبہ پختونخواہ کی ہے جہاں گزشتہ دنوں اورکزئی ایجنسی کے علاقے ڈوالی میں کوئلے کی ایک کان دھماکے سے بیٹھ گئی جس کے نتیجے میں 5 مزدور جاں بحق ہوگئے۔ اس افسوس ناک واقعہ پر پولیٹیکل انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جس کان میں حادثہ پیش آیا وہ بغیر اجازت کھولی گئی تھی، جس پر مالکان کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ لیکن ابھی تک کیا کارروائی ہوئی کسی کو کچھ خبر نہیں، جبکہ گزشتہ ماہ بھی اورکزئی ایجنسی میں کوئلے کی ایک کان میں ہونے والے حادثے میں 6 کان کن جاں بحق ہوگئے تھے۔ ایسے حادثات میں ہلاکتوں کی بڑی وجہ کان کنوں کی حفاظت کے مناسب انتظامات نہ ہونے کو قرار دیا جاتا ہے۔

میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور ایک مقامی صحافی کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ کے گاؤں پورن کے کئی باشندے معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شانگلہ ایک پہاڑی علاقہ ہے، یہاں روزگار کے دیگر ذرائع نہیں، مجبور اور لاچار لوگ کوئلے کی کانوں میں کام نہیں کریں گے تو کھائیں گے کیا؟

کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کیلئے کوئی لیبر یونین نہیں ہے اور کوئلہ مالکان ان کو یونین بنانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ کانوں میں حفاظتی انتظامات کا کوئی وجود نہیں اور مزدور روایتی طریقوں سے کھدائی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر اوقات کانوں کے اندر حادثات پیش آتے ہیں۔ یہ ایسی بیگار ہے جس کا شکار یہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بھی بلند نہیں کرسکتے اور اگر کوئی ہمت کر ہی لے تو مالکان فوراً نوکری سے فارغ کردیتے ہیں۔

پاکستان میں جزا اور سزا کے قوانین کا اطلاق بھی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، یہاں قانون کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی جاتی ہے جسے طاقتور توڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے۔ پاکستان میں تو آج تک ایسے کسی کان کے مالک کو سزا ہوتے نہیں دیکھی گئی جبکہ امریکہ میں کوئلے کی کان کے ایک سابق عہدیدار کو ایک سال قید اور ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ یہ سزا 2010ء میں امریکی ریاست مغربی ورجینیا کی کان میں ہوئے ایک دھماکے کے جرم میں دی گئی تھی جس میں 29 کارکن ہلاک ہوگئے تھے۔ میسی انرجی کمپنی کے سابق سربراہ 66 سالہ ڈان بلیکنشپ پر ارادی طور پر کارکنوں کی صحت اور تحفظ کے معیار کی خلاف ورزی کی سازش میں ملوث ہونے کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کاش ہمارے ہاں بھی اس طرح کی کوئی نظیر قائم ہو۔

کیا آپ نے کبھی کان کنوں کی پریشانیوں کے بارے میں سوچا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔