کچھ اور بھوتوں کا اضافہ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 9 اپريل 2016

سارے کا سارا جھگڑا ہی سمجھ کا ہے ۔ مولانا رومی سے پوچھا گیا’ زہر کسے کہتے ہیں؟‘ انھوں نے جواب دیا ’ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زائد ہو وہ ہمارے لیے زہر ہے خواہ وہ قوت و اقتدار ہو دولت ہو بھوک ہو انانیت ہو لالچ ہو سستی و کاہلی ہو محبت ہو نفرت ہو یا کچھ بھی ہو۔

پوچھا گیا ’خوف کس شے کا نام ہے جواب ملا غیرمتوقع صورت حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے، اگر ہم غیر متوقع کو قبول کر لیں تو یہ ایک ایڈونچر ایک مہم جوئی میں تبدیل ہوجاتا ہے، پھر پوچھا گیا ’حسد کسے کہتے ہیں‘ جواب ملا ’دوسروں میں خیر اور خوبی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے ۔‘ پوچھا غصہ کس بلا کا نام ہے جواب ملا ’ جو امور ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں ان کو تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ ہے ۔‘ نفرت کسے کہتے ہیں جواب ملا کہ ’کسی شخص کو جیسا کہ وہ ہے تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت ہے ۔‘

ہم نرے جاہل کے جاہل رہے، اب تک لفظوں کے سیدھے سادے سے معنیٰ تک کو نہیں سمجھ پائے اور الفاظ کے ذریعے اپنے سروں کو پھوڑتے چلے آرہے ہیں۔ الفاظ سے اپنے آپ کو زخمی کرتے چلے آرہے ہیں، جو الفاظ کے معنی ہیں ، ان کو تو ہم نے کبھی جاننے تک کی کوشش نہیں کی اور جوان کے معنیٰ ہی نہیں ہیں۔

ان کی دن رات تشریح کرتے پھرتے ہیں، ہمیں یہ تک احساس نہیں کہ ہمارے اس عمل سے سماج میں کتنی ہولناک اور وحشت ناک بیماریاں پھیل چکی ہیں ۔ نجانے کتنی ہی خرابیوں اور برائیوں نے ہمارے اس شرمناک عمل سے جنم لے لیا ہے اور جنہیں ہم پال پوس کر جوان کرچکے ہیں۔ اس لیے کہ جب لفظوں کے معنی تبدیل کردیے جاتے ہیں تو لفظ مطلب بگاڑ دیتے ہیں ۔ ایک بگاڑ ایک ہزار بگاڑوں کو جنم دے دیتا ہے اورایک ہزار بگاڑ ایک لاکھ اپنے بچے پیدا کردیتے ہیں پھر اس کے بعد ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے پھر آپ لاکھ ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں ہر دفعہ آپ ناکامی کا ہنستا ہوا منہ ہی دیکھتے ہیں۔ اسی لیے اب ہم سب ہی کو ہم سب ہی سے خطرہ ہے ۔ ہم سب الفاظ کی آگ میں جل رہے ہیں۔

فلپس بروکس کہتاہے ’’ آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہوں گے یاکسی بڑی خواہش سے نبرد آزما ہورہے ہوں گے لیکن اصل جدوجہد کا وقت اب ہے ’’ اب ‘‘ یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طورپر فیل ہوجائیں گے یا کا میابی آپ کے قدم چومے گی ۔ کردار ایک مستقبل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا ‘‘ ہم سب کے کچھ خواب ہیں جنہیں ہم روز دیکھتے ہیں جنہیں ہم روز سو چتے ہیں ہم سب ایک خوشحال، کامیاب ، خوشیوں سے بھری پر سکون تمام خوف تما م ڈر سے محفوظ زندگی کے خواہش مند ہیں لیکن ہماری موجودہ زندگی ہماری سوچی گئی زندگی سے بالکل الٹ ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ یہ زندگی ہمیں صرف ایک بار ہی جینے کو ملی ہے ہمار ے خواب ہمیں صرف ایک بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے خوابوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں یا ان کی عزت کرتے ہیں ہم انھیں حقیقت بنادیتے ہیں یا پھر انھیں ڈراؤنی چڑیل کا روپ دے دیتے ہیں۔

آپ اپنی زندگی کے خود اکلوتے مالک ہیں اس کا کوئی حصے دار نہیں ہے، شاید آپ ’’ مین آف لامانچا ‘‘ Man of La Mancha نامی نغماتی ڈرامے سے واقف ہوں، یہ قرون وسطیٰ کے ایک نائٹ (Knight) کی خوبصورت کہانی ہے ، جس میں یہ نائٹ ایک بازاری عورت سے ملتا ہے سب اس عورت کے شائق ہیں اوراس کی طرز زندگی کے متوالے ہیں اور یوں یہ سب لوگ اسے مستقل یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ وہ بڑی اچھی زندگی گذار رہی ہے لیکن یہ شاعر نائٹ اس عورت میں کچھ اور ہی دیکھتا ہے کچھ بہت خوبصورت اور پیارا وہ اس کی خو بیوں کو جان لیتا ہے اور وہ اس کے سامنے انھیں باربار دہراتا ہے وہ اسے ایک نیا نام دے دیتا ہے۔

ڈل سینیا Dulcinea ایک نیا نام جو ایک نئے زوایہ نظرکی علامت ہے شروع میں وہ یہ سب نہیں مانتی ۔ اس کے پرانے خیالات کی اس کے ذہن پر اتنی زبردست گرفت ہوتی ہے کہ وہ اس کی کسی بات پرکان نہیں دہرتی اور اسے ایک کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والا جنونی سمجھ کر نظر انداز کردیتی ہے لیکن وہ بڑا مستقل مزاج ہے وہ مستقل غیر مشروط پیارکی بڑی رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرواتا رہتا ہے اور دھیرے دھیرے اس کے دل میں اترنے لگتا ہے وہ اس کی اصل فطرت میں اتر کراس کو چھوتا ہے۔

اس کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اور پھر وہ بھی جواب دینے لگتی ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے لگتی ہے وہ اس پر یقین کرنے لگتی ہے اور اب اپنے نئے زوایہ نظر کے مطابق عمل کرنے لگتی ہے جوکہ اس کے پاس گرد باقی تمام لوگوں کو اچھا نہیں لگتا اور وہ اس سے دور ہونے لگتے ہیں۔

بعد میں جب وہ اپنے پرانے زاویہ نظر کی طرف لوٹنے لگتی ہے تو وہ اس کو اپنے بستر مرگ پر بلاتا ہے اور وہی خوبصورت گانا گا تا ہے ’’ غیر ممکن خواب‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے ’’ کبھی نہ بھولنا کہ تم ڈل سینیا ہو‘‘۔ گوئٹے نے کہا تھا ’’کسی آدمی کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہے تو وہ ویسا ہی رہے گا اور کسی شخص کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا کہ وہ ہوسکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے تو وہ ویسا ہی بن جائے گا جیسا کہ وہ ہو سکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے‘‘ یہ بات سمجھ میں بالکل نہیں آتی کہ ہم اپنے ساتھ اتنا برا سلوک آخر کیوں کررہے ہیں ۔

کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوچکی ہے یا ہم اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیں یا اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں، آخر کیوں ہم نے دنیا بھر کی تمام لعنتوں ، برائیوں اور خرابیوں کو اپنے بچے بنا لیے ہیں۔

آخر کیوں ہم نے اس قدر گندگی میں رہنا پسند کررکھا ہے۔ اس قدر گندگی کہ ایک شریف آدمی کا ذرا سی دیر کھڑا ہونا مشکل ہوجائے اور ہم ہیں کہ اپنے دن رات اسی گندگی میں گذار رہے ہیں۔ بغیر چیخے چلائے چپ چاپ عذابوں کو پیے جارہے ہیں۔ دنیا بھر کے سماجوں کے بھوتوں کو اپنے گھروں میں کرایہ دار بنائے جا رہے ہیں اگر یہ سلسلہ دیر تک اسی طرح سے جاری رہا تو ایک روز ہم خود بھوت بن چکے ہوں گے اور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوکر بھاگ رہے ہونگے اگر ہم نے اپنے لیے یہ ہی سب کچھ سوچ رکھا ہے تو پھر خوش رہیے دنیا میں کچھ اور بھوتوں کا اضا فہ ہی تو ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔