غریب قوم، امیر حکمراں

جاوید قاضی  ہفتہ 9 اپريل 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کہتے ہیں امیر کا امیر ہوتا ہے غریب کا غریب تر، اب تو اس کی صداقت کے لیے آئے ہیں پانامہ سے پیامہ۔ ایک ایسی حقیقت جس سے ہوتا ہے بے نامی کاروبار، اصلی چہرے پر نقلی چہرہ سجا دیا جاتا ہے۔

ہاتھوں پر دستانے پہنائے جاتے ہیں تاکہ مجرم کا اس واردات میں نام و نشان نہ ملے۔ سرے محل سندھ کے ایک معروف سیاستدان نے نہیں لیا تھا بس ایک کمپنی تھی، آف شور کمپنی II اور یہ بات سمجھ نہ آئی کہ ایک چھوٹے سے جزیرے پانامہ میں یا ایسے ملک میں جہاں سناٹا ہو ہزاروں اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے کے نام سے کمپنیاں رجسٹر ہوں اور کاروبار کوئی نہیں جب کہ مال بہت ہے مگر ڈائریکٹرز کے نام خفیہ ہیں اور ایسے جزیرہ نما ملک کی مجموعی آمدنی کی آدھی آمدنی ہوتی ہے ۔

ایسی کمپنیوں کو رجسٹر کرنے کی مد میں اور اس طرح لگ بھگ دس لاکھ ایسی کمپنیاں وہاں رجسٹر ہیں جسے برٹش ورجن آئی لینڈ کہتے ہیں ۔ یہ کمپنیاں نہ ٹوتھ پیسٹ بناتی ہیں نہ صابن، غرض پورا کام ایسی آف شور کمپنیوں کا اصولی طور پر چہرہ مٹانا ہے اس اصل کا جو اس کے پس پردہ ہے اور دینا ہے اس کے بدلے نقلی چہرہ۔

مگر پانامہ کی ایک لا فرم نے کیا کمال کیا ، جس کا نام ہے ’’موزیک فونزیکا‘‘ یہ فرم دو وکیلوں نے مل کر بنائی۔ چالیس سال قبل، ایک کا باپ ہٹلر کی فوج میں افسر تھا اور دوسرا پانامہ کا مقامی وکیل ہے جو ناول نگار بھی ہے۔ کرتے کرتے موزیک فونزیکا نامی یہ لا فرم اب 500 افراد پر مشتمل لافرم ہے۔ شاید دنیا کی چند بڑی لا فرم میں اس کا شمار ہوتا ہے اور اس کے دو مالک خود ارب پتی بن چکے ہیں مگر کیسے؟ وہ چالیس سال سے بہت دنیا میں ٹیکس چوروں اور لوٹی ہوئی رقموں کے مالکان کو بلٹ پروف نظام دے رہے تھے جس سے ان کے اس کالے دھن تک کسی کی رسائی نہ ہو۔

موزیک فونزیکا نے اس حوالے سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ کروائیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان کے مالکان کے نام کو پس پردہ کچھ اس طرح رکھا کہ کسی کی پھر رسائی نہ ہو۔ یہاں تک کرائے کے ڈائریکٹر بھی دیے ایسے کالے دھن رکھنے والوں کو جس طرح سندھ میں ایک صاحب کی شوگر ملیں، ایک فلاں نام کے ڈائریکٹر کے ہاتھ میں۔ سر آئینہ کوئی اور ہے پس آئینہ کوئی اور۔ یہ معاملہ کوئی اصولی طور پر اپنی اصطلاح میں آف شور کمپنیوں کا بھی نہیں بلکہ ’’شیم کمپنیوں‘‘ کا ہے جن کو کارپوریٹ گورننس میں “Facade Company” کہا جاتا ہے۔

یہ وہ کمپنیاں ہوتی ہیں جو قانوناً بظاہر تو صحیح کمپنیاں ہوتی ہیں لیکن اپنے ٹرانزیکشن سے باور کراتی ہیں کہ اندر گڑ بڑ گھٹالا ہے ۔ برطانیہ کے جج لارڈ ڈیننگ نے ان کمپنیوں کے لیے Doctrine of lifting the veil کو ڈیولپ کیا اور پھر اس طرح کارپوریٹ گورننس اور مستحکم ہوئی، یہ اصطلاح گڈ گورننس کی ہمشیرہ ہے ۔ دونوں کے پیچھے اصول ایک ہے مقام الگ الگ ہیں ایسی کمپنیوں کے ، پھر کمپنی کے زمرے سے نکال کر ٹرسٹ کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے کے ان کمپنیوں کے مالکوں نے Fiduciary ڈیوٹی کے تحت عہدنامہ، بغیر تحریر کے دیا ہوتا ہے کہ وہ ایسے کام نہیں کریں گے اور جب کرتے ہیں تو ان پر Breach of Constrictive ٹرسٹ کا جرم عائد ہوتا ہے۔ مگر یہ کام امریکا و برطانیہ میں ہوتا ہے، پانامہ میں نہیں۔

اس لیے آف شور کمپنیوں کی 90 فیصد ’’شیم کمپنیاں‘‘ ہوتی ہیں۔ اس کو خود پاناما یا برٹش ورجن آئی لینڈ کا نظام تحفظ دیتا ہے اس لیے یہ آف شور ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایسی کمپنیاں برطانیہ وغیرہ میں خرید و فروخت بھی کرسکتی ہیں اور دنیا کے کسی بھی بینک سے قرضہ بھی لے سکتی ہیں ان کے پاس پراپرٹیاں گروی بھی رکھوا سکتی ہیں ، تو یوں کہیے کہ پورا کیپٹل نظام ہے جو اب بھی اتنا ہی بھیانک ہے جتنا کارل مارکس نے کہا تھا۔ٹیکس کے اس نظام سے بچنے کے لیے فیس بک کے مالک نے اپنے سارے اثاثے ٹرسٹ کو دے دیے ۔ مجھ جیسے بے وقوف اس وقت یہ سمجھے کہ یہ اپنی بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں ساری دولت فلاحی کاموں کے لیے مختص کر رہے ہیں۔ مگر پھر بھی ٹیکس کم سے کم دینا امریکا سے دوسرے ملک جانا کوئی بات نہیں ، ہاں لیکن ٹیکس چوری کرنا جرم ہے ، اور یہ ساری ’’مجرمانہ‘‘ حقیقت اس کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تیسری دنیا کے لیڈر یعنی ہم جیسے غریب ممالک کے سیاسی لیڈر، جج، جرنیل وہاں کیسے پہنچے۔ یہ ماجرا کچھ اس طرح ہی سے ہے جس طرح ایک صاحب پر الزام ہے کہ وہ لانچ کے ذریعے پیسے دبئی لے جاتا تھا۔ اس کاروبار کو پروان چڑھایا ، ہنڈی کا کاروبار اس کو کہتے ہیں جس کاروبار کے ذریعے یہاں دہشت گردی کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ کیسا نرالا گٹھ جوڑ ہے، یہ دراصل بے نامی خرید و فروخت و نقل حرکت کے اصل کا دوسرا نام تھا جو موزیک فونزیکا نامی لا فرم پانامہ میں بیٹھ کر دنیا کے لٹیروں کو سروسز فراہم کرتی تھی۔

آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے خود کوئی ایسی ’’شیم کمپنی‘‘ نہیں بنائی تھی۔ اس کی بیوی نے بنائی تھی آئس لینڈ کے لوگوں نے اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔

موزیک فونزیکا کے Client ہمارے حکمران نہیں تھے ان کے بچے تھے ۔ 24 گھنٹوں کے اندر اتنی تیزی کے ساتھ حق و باطل کے پرستار جناب ایک سابق جج صاحب خود میدان میں آئے تھے جن کو NRO میں تو کئی لٹیرے نظر آئے مگر موزیک فونزیکا کے Client نیک و پرہیز گار نظر آئے۔

موزیک فونزیکا کے جو ایک کروڑ سے زائد کاغذات ملے ہیں اس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں جو بیسویں صدی کی سب سے بڑی ڈکیتی لگی تھی اس کو باہر نکالنے میں بھی اس لافرم کے سورسز پس پردہ ہیں اور اس بات کی خود اس لافرم کے مالکان کو بھی خبر تھی۔

فقط یہ کیوں خود وہ بھیانک چہرہ جو منشیات کا کاروبار کرتا تھا اور روس میں چھوٹی عمر کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتا تھا اس کی لین دین بھی ان شیم کمپنیوں کے اوپر بیٹھی موزیک فونزیکا والی کمپنیاں اور خود یہ لافرم تھی۔

اب تو ہمیں خوب سمجھ آنی چاہیے کہ ہم غریب کیوں ہیں ایٹم بموں کے افتخار کے باوجود بجلی سے کیوں محروم ہیں، ہمارے اسکول بند کیوں ہیں، ہمارے اسپتالوں کی حالت زار رونے پر کیوں مجبور کرتی ہے۔ کیوں تھر میں بھوک سے لوگ مر رہے ہیں، اتنی ساری دولتہمارے سیاستدانوں نے کیسے بنائی ۔ بھلے کیسے وہ پاکستان کے امیر ترین اشخاص کی فہرست میں آتے ہیں۔

یہ ہے وہ درد انگیز حقیقت جس کے لیے انگریزی میں کہاوت ہے:

Behind every fortune there is crime یہ موضوع ارتقا پزیر ہے اس پر اور لکھنا چاہیے ، اس سے کالی بھیڑیں اور بے نقاب ہوں گی نہ کہ جمہوریت کے خلاف یہ کوئی سازش ہے ۔

ہماری ایک سابق حکمران کو بھی اس موزیک فونزیکا کے ہاتھوں سے بنی کمپنی کا 34 فیصد حصص کا مالک بنا دیا گیا تھا ۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ کمپنی ہے جس نے عراق حکومت کو دو ملین ڈالر رشوت بھی دی کہ ان کو کنٹریکٹ مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔