دہشت گردی کیسے ختم ہو؟

ایڈیٹوریل  منگل 13 نومبر 2012
افغان امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی۔ فوٹو: ثنا

افغان امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی۔ فوٹو: ثنا

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے پیر کا دن خاصا اہم رہا ہے۔

افغان امن کونسل کے چیئرمین صلاح الدین ربانی اور ان کے وفد نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی اور پھر وزیرخارجہ حنا ربانی کھر سے مذاکرات کیے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے افغان وفد کے سامنے اتوار کو افغان نیشنل آرمی کی جانب سے پاکستانی علاقے میں بلا اشتعال گولہ باری کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ دونوں اطراف سے ایسے واقعات کے تدارک کے لیے رابطے بڑھانے پر اتفاق کیا گیاہے۔ وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور صلاح الدین ربانی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے افغانستان میں وسیع البنیاد حقیقی سیاسی مفاہمتی عمل کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان مفاہمتی عمل میں پاکستان کا جو کردار متعین ہو گا‘ ہم اس کی پاسداری کریں گے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ مفاہمتی عمل سے ہی قیام امن ممکن ہے۔ ان مذاکرات میں افغانستان میں مصالحتی عمل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے، اس کی جڑیں افغانستان سے ہی پھوٹی ہیں۔ سوویت افواج کی واپسی کے بعد جب نجیب اللہ حکومت ختم ہوئی تو مجاہدین کی تنظیمیں متحد ہو کر حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہیں اور باہم دست و گریبان ہو گئیں۔ یوں افغانستان میں قتل و غارت گری کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم ہو گیا۔ پھر افغانستان میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا اثر و رسوخ بڑھا چونکہ القاعدہ اور امریکا کے درمیان سرد جنگ جاری تھی۔ یوں طالبان حکومت اور امریکا کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہو گئے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت ختم کر دی اور کابل پر حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کی حکومت قائم کر دی۔ یہیں سے امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جو بڑھتے بڑھتے پاکستان میں داخل ہو گئی ہے۔

صلاح الدین ربانی اور ان کا وفد ابھی پاکستان میں ہے، اس حوالے سے مزید کچھ کہے بغیر ہم صرف یہ کہیں گے کہ پاکستان میں جاری بدامنی اور دہشت گردی افغان مسئلے سے جڑی ہوئی ہے۔افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو پاکستان میں جاری دہشت گردی پر قابو پانا خاصا آسان ہوجائے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کثیر الجہتی ہے۔ یہاں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ کئی دیگر تنظیمیں بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ بلوچستان کا جائزہ لیں تو وہاں بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) بھی ہے اور وہاں قبائلی دشمنیاں بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ اس طرح سرکاری ایجنسیوں کا بھی ایک رول ہے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان بدامنی اور لاقانونیت کی ذمے دار ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ خیبر ایجنسی‘ باجوڑ وغیرہ میں مقامی گروہ بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔ سوات میں مولوی فضل اللہ کا گروپ ہے۔ اس گروپ کے لوگ اب بھی سوات، دیر وغیرہ میں کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ مذہب کی آڑ میں کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کے لوگ فرار ہو کر افغانستان چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان سے بھی شرپسند بھی افغانستان جاتے ہیں بلکہ ان کی رسائی تو خلیجی ریاستوں تک وسعت اختیار کر چکی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان کے معاملات سمجھ میں آجاتے ہیں۔کراچی میں تین چار برسوں سے ٹارگٹ کلنگ‘ خودکش حملے اور بم دھماکے تواتر سے ہو رہے ہیں۔ یہاں کی صورت حال ایک نیا رخ لیے ہوئے ہے۔ یہاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بھی ہو رہی ہے اور لسانی بنیادوں پر بھی۔

نیز مجرمانہ گروہ بھی اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ اگلے روز بھی کراچی میں بد امنی کا سلسلہ جاری رہا اور 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ تنظیم اہلسنّت کی ریلی پر فائرنگ بھی کی گئی۔ کراچی کی صورت حال نے سارے ملک کو پریشان کر رکھا ہے۔یہ شہر چونکہ پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے، یہاں اگر بدامنی ہوگی تو اس سے قومی معیشت متاثر ہوتی ہے۔اس شہر میں پورے ملک سے لوگ روزگار کے لیے قیام پذیر ہیں، اس لیے کراچی کی گڑ بڑ کو محض ایک شہر کا معاملہ نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔دہشت گردوں نے اب یہاں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ شروع کررکھی ہے، اس کا مقصد ملک کو مسلکی بنیادوں پر لڑانا ہے۔ پیر کو لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت اتحاد بین المسلمین کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت اسلام کے خلاف ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے‘ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کو بھی اس سمت میں پیشرفت کرنی چاہیے۔

اس وقت مسلح گروہ پاکستان کی ریاست کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ یہ طالبان ہوں‘ القاعدہ سے وابستہ تنظیمیں ہوں‘ فرقہ پرست ہوں یا نسلی و لسانی گروہ۔ ان سب کا ایجنڈا ریاست کی رٹ کو ختم کرنا ہے۔اسی طرح فرقہ پرست بھی فسادات پھیلا کر اسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں۔گزشتہ دنوں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی کہا تھا کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس میں اب کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہیں رہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں ، ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے وطن عزیز کے تمام محب وطن طبقوں کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ ریاست کو عوامی قوت مل سکے جس کے بل بوتے پر وہ شرپسندوں‘ فرقہ پرستوں‘ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو سکے۔

اس کے لیے علمائے کرام ، مشائخ عظام کا کردار سب سے نمایاں ہوگیا ہے۔ انھیں اب قوم کی رہنمائی کے لیے آگے آنا پڑے گا۔ دہشت گردوں نے مذہب کی جو آڑ بنا رکھی ہے، اسے اس ملک کے علمائے کرام اور مشائخ عظام ہی ہٹا سکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور علمائے کرام اور مشائخ عظام ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالیںاور دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے چہرے بے نقاب کردیں، اس طریقے سے ہی وطن عزیز سے دہشت گردی کے عفریت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔