باراک اوباما کا نیا وعدہ

شیخ جابر  منگل 13 نومبر 2012
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

کہتے ہیں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، اور یوں بھی سیا سی وعدوں اور نعروں کا کیا اعتبار؟ لیکن ایک وعدہ ایسا بھی ہے جس کے لیے ہم دست بہ دُعا ہیں۔ دوسری مدت کے لیے اپنے انتخاب کے فوراً بعد امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ میں ’’امریکا کو جنگ سے دور لے جائوں گا۔‘‘ صدرِ امریکا کے اِس وعدہ نما دعوے پر غور کریں تو چند سوالات جنم لیتے ہیں۔

1۔ کیا ریاستی پالیسیاں نو منتخب صدر بنایا کرتے ہیں؟ 2۔ کیا امریکی تاریخ اور امریکی دانش جنگ مخالف ہے؟ جنگیں، ہتھیار اور منشیات آج کا سب سے بڑا کاروبار ہیں۔ آزاد منڈی کی معیشت اور سرمائے کی بڑھو تری ریاستوں کا غیر متبادل اصول ہے۔ 3۔ کیا صرف ایک صدر کے ایک خواب، خواہش یا وعدے کے لیے سرما یہ دار سب سے بڑی اور منفعت بخش صنعت کی بساط لپیٹ دیں گے؟

ریاستی پالیسیاں صدور نہیں طے کیا کرتے۔ وہ البتہ پیش ضرور کرتے ہیں۔ رائے دہندگان کو یہ التباس البتہ ہو سکتا ہے کہ اُن کی رائے سے تبدیلیاں آتی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے مرغِ باد نما کو کوئی یہ باور کروا دے کہ ہوائوں کے رُخ کا تعین وہی کرتا ہے۔ جانی مانی بات ہے کہ مروجہ نظام میں افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آپ دیکھیں گے امریکا میں صدور کی تبدیلی سے پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ خود ہمارے ہاں بہت سے افراد نے تو باقاعدہ شکایتاً کہا تھا کہ موجودہ حکومت مشرف دورِ حکومت کا تسلسل ہے۔ لہٰذا پہلے سوال کے جواب میں امریکی صدر کے ایفائے عہد کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔

دوسرے سوال کے ابتدائی حصے کے جواب میں امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وہ کشت و خون اور جنگ و جدل سے عبارت نظر آتی ہے۔ اِس کی بنیادوں ہی میں 15کروڑ سُرخ ہندیوں کا لہو شامل ہے۔ دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے امریکی ریاست نے ہوائی (1898)، پوئیرٹو ریکو، گوام، اور فلپائن (1898)، مشرقی ساموا (1899) اور بحرالکاہل کے جزائر (1945) پر تسلط حاصل کر لیا تھا۔ فلپائن میں اس نے نو آبادیات کے خلاف برپا ہونے والی بغاوت (1898-1902) کو جبر و استبداد کے ذریعے کچل دیا اور انضمام کی مخالفت کرنے والے متعدد مسلمانوں کا بے تحاشہ قتل عام کیا (1901-1913)۔

تنہائی پسند جاپان کو بحری طاقت کے استعمال کی دھمکی دے کر اسے بیرونی تجارت کے لیے کھول دیا (1853-1854)۔ اس ابھرتی ہوئی قوم نے جنگوں اور مداخلت کاریوں کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھایا اور اُن کا تحفظ کیا۔ امریکا نے برطانیہ کے خلاف جنگ (1812-14)، میکسیکو کے خلاف (1846-48)، اسپین کے خلاف (1898)، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ کے خلاف (1916-18)، جاپان، جرمنی اور اٹلی کے خلاف (1941-45)، شمالی کوریا اور چین (1950-53)، شمالی ویت نام (1961-75)، اور عراق کے خلاف (1991) کی جنگیں لڑیں۔ مسلح مداخلتوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: پیکنگ (1900): پاناما (1903)، روس (1918-19)،

نکاراگوا (1912-25)، ہیٹی (1915-34)، لبنان (1958)، ڈومینکن جمہوریہ (1965-66) اور صومالیہ (1992)۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا نے گرے ناڈا میں (1983) اور پاناما میں (1989) مداخلت کر کے حکومتوں کو اقتدار سے معزول کر دیا اور مداخلت کی دھمکی دے کر ہیٹی (1992) میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مداخلت یا حملوں کے ذریعے اس نے کمبوڈیا (1970) اور لائوس (1971) میں امتناع کی راہ اختیار کی، لیبیا 1986-2011))، افغانستان (1998)، اور سوڈان (1998) میں انتقام لینے کے لیے حملے کیے اور عراق (1993)، بوسنیا (1995) اور یوگو سلاویہ (1999) میں جنگی اور حربی مفادات آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کرنے کے لیے حملے کیے۔ 9/11 کے بعد افغانستان جو اب تک جاری ہے۔ تفصیل اِس اجمال کی بہت ہے چند چیزوں کی نقل تک خود کو محدود رکھتے ہوئے ہم اِس سوال کے دوسرے حصے یعنی امریکی دانش کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ کیا امریکی کیا غیر امریکی کوئی بھی ہلاکت گریز رجحانات کا حامل نہیں۔

افلاطون سے شروع کرتے ہیں، اُس کی مثالی’’ جمہوریہ‘‘REPUBLIC میں فلسفی حاکم دراصل ایک جنگ باز ہے اور جنگ سیاسی زندگی کی بنیادی حقیقت ہے۔ ارسطو کی ’’سیاست‘‘POLITICS میں ہتھیاروں پر اختیار صاحبِ جائیداد کا ہو گا اور فوجیں ایک لازمہ ہیں۔ میکاولی کا تو خیر ذکر ہی کیا جو حکمرانوں کے قتل کرنے کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تھامس ہابس اپنی کتاب LEVIATHAN میں اور جان لاک اپنی کتاب حکومت کے دو اصولTWO TREATIES OF GOVERNMENT میں دیگر فلاسفروں کی طرح اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ سیاسی حکمرانی ہلاک کرنے کے لیے تیار رہنے کو ضروری بنا دیتی ہے۔

’’ژاں ژاک روسو‘‘ کہتا ہے، جب برسر اقتدار حکومت ایک شہری سے کہہ دے: ریاست کے مفاد میں تمہارا مرنا ضروری ہے تو اسے مر جانا چاہیے، کیونکہ… اس کی زندگی صرف عطائے فطرت نہیں ہے، بلکہ ریاست کی جانب سے ایک مشروط تحفہ ہے۔ [عمرانی معاہدہ، دوسرا حصہ، باب پنجم] کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز بھی ہلاکتوں کو جواز فراہم کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ’’کمیو نسٹ مینی فیسٹو‘‘ میں درج ہے، استحصال زدہ طبقات متوقع طور پر سوسائٹی کے معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی تبدیلی کے لیے پر تشدد بغاوت برپا کر سکتے ہیں۔

بیسویں صدی کے، جرمنی کے با اثر سیاسی معاشیات کے ماہر اور عمرانیات کے نظریہ ساز، میکس ویبر ’’سیاست بطور مقدس پیشہ‘‘ میں، جو میونخ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر پر مبنی ہے، اس خیال کو قطعی طور پر مسترد کر دیتا ہے کہ سیاست ہلاکت گریز پیشہ ہو سکتی ہے۔ ’’جو روحانی نجات کا خواہاں ہے وہ اسے کوچۂ سیاست میں تلاش نہ کرے، کیونکہ سیاسی اہداف صرف تشدد کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ امریکی صدر ’’ جارج واشنگٹن ‘‘ نے کہا تھا کہ ’’قیام ِ امن کے لیے جنگ ضروری ہے۔‘‘ یہ ہے ایک مختصر سا جائزہ اہل مغرب و امریکا کے افکار کا نتیجہ آپ خود نکال سکتے ہیں ۔

اب آتے ہیں تیسرے سوال کے جواب کی جانب، 2009 کی عالمی کساد بازاری نے ہر شعبہئِ زندگی کو متاثر کیا سوائے اسلحے کی تجارت کے۔ SIPRI کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کی 100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی تجارت 2008 میں 14.8 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2009 میں 40.1 بلین ڈالر ہو گئی۔ یعنی 8 فی صد اضافہ۔ 2009 میں یہی بڑھ کر 56.9 فی صد کے مجموعی اضافی تک جا پہنچی۔100 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے78 کا تعلق امریکا اور مغربی یورپ سے ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کو DEFENCE CONTRACTORS کا خوش نما نام دیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے فوجی اخراجات کا تخمینہ 1.5ٹریلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ اب فیصلہ خود کر لیجیے کہ امریکی صدر کا وعدہ بات برائے بات ہے یا اِس کا واقعی کوئی نتیجہ بھی نکلنے والا ہے۔ ہماری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ کاش ایسا ہو سکے ۔

بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کارِ آسماں کیسے کروں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔