نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کردیا جائے  (6)

رحمت علی رازی  اتوار 10 اپريل 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

آج کل یہ سوال بڑی شد و مد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر نیب بھی عظیم القوہ قومی مجرموں کا احتساب کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے نعم البدل کے طور پر کونسا ایسا موثر ادارہ پاکستان میں موجود ہے جو بدعنوانی کے خلاف نبرد آزمائی کریگا‘ ہر چند اگر ایسا ممکن نہ ہو پایا تو یہ مثالی کارنامہ بھی ریاست کے اعمالنامہ میں درج تصور ہو گا جس پر پہلے ہی ’’ناکام ریاست‘‘ کا لیبل چسپاں ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینے میں اب کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ نیب نے چِندی چوروں کی پکڑ دھکڑ میں تو بہت عجلت دکھائی جب کہ بڑے مگرمچھوں پر گرفت کرنے کے احساس نے اس کے افسرانِ بالا کو ہمیشہ لرزہ براندام کیے رکھا۔

نیب کی اسی روش کے باعث ناقدین و مبصرین تو کیا‘ عوام بھی کہنے لگ پڑے ہیں کہ قومی احتساب بیورو ٹھیکیداروں، پٹواریوں اور کلرکوں سے ہی پلی بارگین کر سکتا ہے‘ سیاستدانوں، افسر شاہوں، صنعتکاروں، سرمایہ داروں اور جرنیلوں کے پیٹ میں ہاتھ ڈال کر وہ ایک پیسہ بھی برآمد کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اِسے شخصی مجبوریاں کہا جائے یا حکومتی جبر، کہ آئینی و قانونی اتھارٹی ہونے کے باوجود چیئرمین نیب کبھی آزادانہ کام نہیں کر سکا حالانکہ ہر چیئرمین کو متعین کرتے وقت اس کی نیک نیتی، دیانتداری، انصاف پسندی اور جرأت مندی کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں۔

حق بات تویہ ہے کہ بڑی شخصیات کے خلاف قائم مقدمات کو انجام تک پہنچانے کی نیب افسران میں ہمت و صلاحیت ہی ناپید ہے۔ نیب کی غیرتسلی بخش کارکردگی پر انگلی اٹھاتے ہوئے اب تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھی یہ کہنا پڑ گیا کہ نیب اربوں کھربوں روپے لوٹنے والے قومی مجرموں پر ہاتھ ڈالنے سے خائف ہے اور چند لاکھ روپوں کی کرپشن کرنیوالے افسروں پر چڑھ دوڑتا ہے‘ قوم کو ایک ایسے نیب کی ضرورت ہے جو طاقتور مجرموں پر شکنجہ کس سکے۔ قائمہ کمیٹی کی طرف سے یہ آبزرویشن نیشنل بینک بنگلہ دیش برانچ میں 175 ملین ڈالر فراڈ اسکینڈل کی نیب کی جانب سے آٹھ سال بعد بھی تحقیقات مکمل نہ کرنے پر سامنے آئی ہے۔

اس اسکینڈل میں نیشنل بینک کے دو سابق صدور ملوث پائے گئے، ان کے علاوہ بھی 59 ملزمان ہیں جن میں بنگلہ دیش کے 12 شہری، بحرین برانچ کے 5 افسران، نیشنل بینک ہیڈکوارٹر کے40 افسران اور بینک کے دو سابق افسر جو کہ اب سرکاری اداروں کے سربراہ بنے ہوئے ہیں، شامل ہیں‘ ایک ملزم کو موجودہ حکومت نے ویمن بینک کا صدر بھی تعینات کر رکھا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکریٹری خزانہ، جن سے اصل کوتاہی کا ارتکاب ہوا، کو ملزمان کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

جب نیشنل بینک برانچ ڈھاکہ نے بنگالیوں کو اربوں روپے کے قرضے دیے تھے اور ازاں بعد قرضے واپس وصول کیے بغیر رہن میں رکھی گئی جائیدادیں بھی انہیں واپس کر دیں جس سے قومی خزانے کو 175 ملین ڈالرز (اب 18 ارب روپے) کا نقصان پہنچایا گیا، تب کسی ذمے دار افسر نے اس بات کا نوٹس تک نہ لیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس لوٹی گئی قومی دولت کے اصل افادی بنگالی شہری کم اور نیشنل بینک کے کرتا دھرتا حضرات زیادہ تھے۔ اس سے بھی حیرت انگیز امر یہ ہے کہ نیب کو اس اسکینڈل کے بارے میں بھِنک تک نہ پڑ سکی اور 2008ء میں قائمہ کمیٹی نے خود اس کا پتہ لگا کر تحقیقات شروع کیں‘ پھر تین سال قبل اسے نیب کو بھجوا دیا مگر افسوس کہ نیب ہنوز بنگلہ دیشی مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لے رہا ہے۔

مسلم کمرشل بینک نجکاری کے مقدمہ کو بھی نیب نے 15 سال سے لٹکا رکھا ہے‘ اس کے باوجود جب عدالتِ عظمیٰ نے دباؤ ڈالا تو چند ماہ کی اور مہلت مانگ لی گئی‘ عدالت نے اس لیے مزید مہلت دینے سے ہاتھ کھینچ لیا کہ بے تحاشا اختیارات کے باوجود جو ادارہ سالہا سال سے کسی قابلِ ذکر ملزم کو نشانِ عبرت نہیں بنا پایا وہ چند ماہ کی مدت میں کیا نتائج برآمد کر لے گا۔ نیب چھوٹے موٹے مجرموں سے پلی بارگین کے ذریعے جو 70 فیصد ریکوری کے شادیانے بجاتا ہے‘ یہ بھی کوئی حوصلہ افزاء اَمر نہیں‘ ہماری نظر میں یہ قانونی بھتہ خوری ہے، یعنی نیب افسران کا قوم کی لوٹی گئی دولت کی واپسی میں بھاگیدار بن جانا۔

مانا کہ یہ افسران کی ہمت افزائی کا ایک کارگر حربہ ہے مگر یہ رجحان ہمیشہ کی بناء پر مثبت پیشرفت کے لیے گراؤنڈ مہیا نہیں کرتا۔ پلی بارگین کا صوابدیدی فیصلہ کرنے کی آزادی کی شکل میں گویا نیب کو خود کرپشن کی کھلی چھٹی دیدی گئی ہے۔ اپنے ذاتی فائدہ کی غرض سے ہر خاص و عام مجرم کو پلی بارگین کی ترغیب دی جاتی ہے‘ اِس کاروبار سے نیب افسران خود کا بھلا تو کر سکتے ہیں، معاشرے میں احتساب کا خوف پیدا نہیں کر سکتے۔ کرپٹ عناصر کے لیے پلی بارگین کسی من چاہی نعمت سے کم نہیں کہ جب وہ کئی برسوں بعد نیب کے ہاتھ لگتے ہیں تب تک لوٹی گئی رقم کا سود ہی اتنا بن چکا ہوتا ہے جتنے کی وہ پلی بارگین کرتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ پلی بارگین کا قانون کرپشن کو ہلہ شیری دینے اور نیب افسران کے ذاتی مفاد کے لیے گھڑا گیا ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ سو روپے کی کرپشن کریں اور دس سال بعد 70 روپے واپس لوٹا کر رِہا ہو جائیں؟ اس سوچ نے تو سزا و قضاء کا تصور ہی ختم کر دیا ہے۔ روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہے عوام کے خون پسینے پر ڈاکے ڈالنے والے خونخوار درندوں کو ہر ایک لاکھ پر ایک سال کی سزا ہوتی اور سزائیں کاٹتے کاٹتے ان کی عمریں کم پڑ جاتیں‘ پھر ان کے گھر بار بیچ کر عدالتوں کے ذریعے ان سے بھاری جرمانے وصول کیے جاتے تو ان کا حشر دیکھنے والوں کو بھی عبرت ہوتی اور وہ کسی کا ایک روپیہ مارتے ہوئے بھی سو بار سوچتے۔

پلی بارگین کرپشن کو جائز قرار دینے کا ایک بھونڈا قانون ہے۔ اس قانون کے خالق یہ مضحکہ خیز منطق پیش کرتے ہیں کہ کسی پر مقدمات بنا کر اسے جیل میں ڈال دینے سے ملک کو کیا فائدہ ہونے والا ہے‘ ملک کا بھلا تو تبھی ہو گا جب لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس آئیگی۔ گویا اس سے یہی مراد لی جا سکتی ہے کہ قوم کا بھلا صرف لوٹی ہوئی دولت کا کچھ فیصد حصہ واپس لانے میں ہے، نہ کہ کرپشن کے خاتمے میں۔ اسی دلیلِ ضرار نے پاکستان کو نوع بہ نوع کے قومی ڈاکوؤں کے لیے جنت کا درجہ دیدیا ہے‘ ایسے میں کس ’شریف‘ کا یہ جی نہ چاہے گا کہ وہ اس ’جنتِ ارضی‘ کے حصول کے لیے اپنی آخرت بھی داؤ پر لگا دے؟

کلیتہً جائزہ لیا جائے تو کہنا پڑیگا کہ قومی احتساب بیورو مادر پدر آزادی کا حامل ایک ایسا ادارہ ہے جس کے خلاف کارروائی کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو ہے نہ سپریم کورٹ کو، البتہ سپریم کورٹ اس کی کارکردگی رپورٹ اور مقدمات کی تفصیل طلب کر سکتا ہے‘ اسی اختیار پر گزشتہ سال پہلی بار سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کو 150 میگا کرپشن کیسوں کی تفاصیل پیش کرنا پڑیں‘ یہ جوابدہی نیب کے خلاف بذاتِ خود ایک چارج شیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ نیب کے اندر ایسا کوئی قابلِ عمل نظام موجود نہیں جس کی بدولت وہ خود احتسابی کا طریقہ کار اپنا سکے۔ وہ افسران اپنا احتساب کیسے کر سکتے ہیں جو جعلی کریڈینشل کی بنا پر ملازمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سیاستدانوں کے جعلی ڈگری اسکینڈل کو تو بہت اچھالا جاتا ہے مگر جو لوگ جعلی اسناد پر بیوروکریسی میں گھسے ہوئے ہیں ان کی کبھی ہوا بھی باہر نہیں آئی۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ نیب کے متعدد اعلیٰ عہدیداران بھی اس لہو و لعب میں ملوث ہیں۔ ہمارے جیسے ایک صحافی نے جب یہ بات اٹھائی تو نیب نے اپنے ملازمین کا احتساب کرنے کی مہم شروع کر دی اور تمام افسران اور ملازمین کو سات دن کے اندر اندر تعلیمی اسناد اور محکمانہ ڈگریاں جمع کرانے کا حکم دیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تمام ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کرانا مقصود تھی مگر زیادہ تر افسروں نے اسے تضحیک آمیز عمل قرار دیکر اس سے صرفِ نظر کیا اور کوئی کارروائی تک نہیں کی۔ اس معاملے کی عدل پروری بھی اگر سپریم کورٹ نے ہی کرنی ہے تو پھر نیب کو خود ہی اپنا بوریا بستر گول کر لینا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے تو میگاکرپشن کے مقدمات پر کارروائی کی جو روداد مانگی تھی وہ بھی ہر لحاظ سے صفر دکھائی دی جس پر سپریم کورٹ نے عدم اطمینان ظاہر کیا‘ اس کا مطلب صاف واضح ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے خود نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ عدالتی جوابدہی کے بعد نیب کے سسٹم میں ایسے بہت سے خلاء منظرِ عام پر آئے ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر خود نیب کے ذمے داران بھی کرپٹ مافیا کی طرح احتساب کی گرفت سے بچتے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جن مقدمات کی تفصیل گزاری گئی ان میں 90 فیصد دس سے پندہ سال پرانے ہیں جسکا مفہوم ہے کہ نیب پر مقدمات کی تفتیش، انہیں نمٹانے یا ان کا چالان پیش کرنے کے لیے کوئی دباؤ ہے، نہ معیاد کا تعین۔ 31 دسمبر2015ء کو نیب نے سپریم کورٹ سے مزید تین ماہ کا وقت مانگا تھا اور اب 31 مارچ 2016ء بھی گزر چکی ہے لیکن میگا سکینڈلز کے بارے میں تاحال کوئی حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کروائی گئی جس کی بنا پر نیب یہ کہنے کے قابل ہو سکے کہ جن قومی مجرموںنے اربوں روپے ہڑپ کیے تھے ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد مل گئے ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نیب کے اعلیٰ افسران چیئرمین نیب کے ساتھ ایک صفحہ پر دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف تو وزیراعظم کی نیب کو دی گئی دھمکی کو زیرِ لب نیب کے معاملات میں کھلم کھلا مداخلت قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب جب تحریکِ انصاف لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کرتی ہے کہ نیب آزاد و خود مختار ادارہ ہے‘ وزیراعظم کو نیب کے معاملات میں مداخلت سے روکا جائے، تو چیئرمین نیب عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ وزیراعظم نیب کے اُمور میں مداخلت نہیں کر رہے، اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ موجودہ چیئرمین بھی اس جہادِ احتساب میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے‘ وہ کمر کسنے کے باوجود ہمت ہار چکے ہیں۔ وہ ایک ایسی بند گلی میں محصور ہو چکے ہیں جو دونوں اطراف سے بند کر دی گئی ہو۔

لگتا کچھ یوں ہے کہ مقتدرہ نے اسلام آباد اور تختِ لاہور کی فضاؤں میں چیئرمین نیب کو جس پرواز پر آمادہ کیا تھا، وہ معطل ہو چکی ہے کیونکہ چیئرمین صاحب حکومت کی چھتری پر اتر چکے ہیں جس نے ان کے پنکھ دوبارہ کتر دیے ہیں۔ ان حالات میں یکسر نظر نہیں آتا کہ گزشتہ چند دنوں سے ’پاناما پیپرز‘ کے افشائے راز نے ملک کے صفِ اوّل کے سیاستدانوں کے خفیہ اثاثوں کے بارے میں جو ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، اس سے متعلق نیب کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کر کے موزوں تحقیقات کے بعد آف شور کمپنیوں کے مالکان کے خلاف ممکنہ کارروائی کا آغاز کر سکے گا۔

بہ ایں ہمہ الیکشن کمیشن بھی ارکانِ پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات شایع کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اثاثوں کی تفصیلات نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر اثاثے چھپانے میں ملوث ارکان کو نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ گوشوارے داخل کرنے کی ڈیڈ لائن گزرے 7 ماہ ہو چکے ہیں لیکن کمیشن نے ابھی تک تفصیلات کو عام نہیں کیا۔ عوامی نمایندگی ایکٹ 1976ء اور سینیٹ الیکشن ایکٹ کے تحت ارکانِ پارلیمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے اور لواحقین کے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرائیں‘ یہ ہر سال 13 ستمبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کرانا ہوتے ہیں‘ ناکامی کی صورت میں الیکشن کمیشن ایسے ارکان کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے تک رکنیت معطل کر دینے کا اختیار رکھتا ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن بھی ارکانِ پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات سرکاری گزٹ میں قانونی طور پر دینے کا پابند ہے۔ جھوٹے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے پر ایسے ارکان کے خلاف دفعہ۔82 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران الیکشن کمیشن نے عوامی جائزے کے لیے ارکانِ پارلیمنٹ کے گوشواروں میں دیے گئے اثاثوں کی تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر ڈالی ہیں تاہم رواں سال ایسا ہوتا اس لیے نظرنہیں آتا کہ ارکانِ پارلیمنٹ اپنے اثاثوں کی عوامی جانچ پڑتال پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ بات اہلِ بینا اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہمارے ملک میں سیاستدانوں کا کردار ہمیشہ دوغلا رہا ہے۔ انھوں نے سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر اختیار کر رکھا ہے‘ اس سے انہیں جو کرپشن کا مال ہاتھ لگتا ہے اسے وہ منی لانڈرنگ کے ذریعے محفوظ جنتوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔

پاناما لیکس میں بھی یہی سامنے آیا ہے کہ کس طرح پاکستان کے سیاستدانوں، سرمایہ داروں، بینکرز اور ججوں وغیرہ نے ملک سے باہر آف شور کمپنیاں کھولیں۔ پاناما دستاویزات میں بڑے سیاستدانوں کے نام سامنے آئے ہیں جن میں شریف خاندان کا نام سرِ فہرست ہے۔ فہرست میں تقریباً دو سو پاکستانیوں کی نشاندہی کی گئی‘ یہ گنتی ابھی جاری ہے اور آیندہ اپریل تک یہ تعداد دو ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے جس میں بڑے بڑے پردہ نشینوں کے بے نقاب ہونے کا امکان واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایان علی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ ہو سکتا ہے تو آف شور کمپنیوں کے مالکان پر کیوں نہیں؟ آخر انہیں بدیسوں میں خفیہ کمپنیاں بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آف شور کمپنی کا قیام بھلے غیرقانونی نہیں لیکن اس کے پسِ پردہ مقاصد اسے غیرقانونی بنا دیتے ہیں۔ آف شور کمپنی وہ فرم ہوتی ہے جو کوئی شخص اپنے ملک سے باہر قائم کرتا ہے‘ اس کے لیے پیسہ ملک سے باہر لیجانے کے قانونی اور غیرقانونی دونوں طریقے ہوتے ہیں۔ یہ کمپنیاں عام طور پر ان مقامات پر قائم کی جاتی ہیں جہاں قانونی طور پر ٹیکسوں میں چھوٹ کی گئی ہو اور یہ سوال نہ پوچھا جائے کہ سرمایہ کاری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا‘ ایسی کمپنیوں کی نہ آڈٹ رپورٹ مانگی جاتی ہے اور نہ سالانہ ریٹرن ظاہر کیا جاتا ہے‘ یہ کمپنیاں یا شخصیات عموماً شیل کمپنیوں کو استعمال کرتی ہیں جسکا منشاء اصل مالکان کے ناموں اور فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے‘ ان کمپنیوں کے مالکان پر ان کے اپنے ملک کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ یہ لازم ہوتا ہے کہ مالکان اپنے ملک میں اس کمپنی کی ملکیت ظاہر کریں۔

چند سال قبل آف شور کمپنی کھولنے کے لیے 690 یورو اور 10 منٹ درکار ہوتے تھے۔ آج بھی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے آف شور کمپنی ٹیکس کی جنت سمجھے جانے والے جزیروں میں بآسانی قائم کی جا سکتی ہے، جسے خفیہ رکھنے کے لیے مزید 390 یورو کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے جسکا مطلب ہے کہ ایک لاء فرم کے نام پر اس کمپنی کا لین دین ہو گا۔ زیادہ تر آف شور کمپنیوں کے قیام کی درخواست سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے دس بڑے بینکوں نے اپنے امیر کھاتہ داروں کے لیے کی تھی جنہیں جرمنی کی ایک لاء فرم میسرز موزاک فونسیکا کا خفیہ ٹائٹل حاصل ہے۔

بظاہر یہ لگتا ہے کہ پاناما دستاویزات کے ذریعے صرف ان ممالک کی سربرآوردہ شخصیات کو ہدف بنایا گیا ہے جو عالمی نظام کو اپنی دسترس میں رکھنے کے خواہاں عناصر کو کھٹک رہے ہیں، ان میں روس اور چین کے صدور، سعودی فرمانروا اور پاکستانی وزیراعظم کا بطورِ خاص تذکرہ ہے جب کہ چند مغربی شخصیات کا حوالہ بھی انکشافات کو متوازن رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں تو یہ معاملہ انتہائی گھمبیر نظر آتاہے۔ پاکستان کے حاضر منصب وزیراعظم کی اولاد پر براہِ راست الزام لگنا معمولی بات نہیں۔ لواحقین کے اثاثے چھپانے کے جرم میں الیکشن کمیشن کو ان کی رکنیت معطل کرنے کا پورا اختیار ہے۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے رضاکارانہ طور پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہو جائیں‘ وگرنہ نیب میں تو ان کے خلاف پہلے ہی منی لانڈرنگ کی انکوائری ہو رہی ہے اور اب ایف بی آر بھی انکم ٹیکس کی دفعہ۔22 کے تحت ان کے پانچ سال کے ٹیکس گوشوارے نکال کر آف شور کمپنیوں کی چھان بین کر سکتا ہے‘ پھر شاید حسین نواز کا ملک سے 180 دن باہر رہنے کا بہانہ بھی نہ چل سکے۔ اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کے ترلے کر رہے ہیں اور اپنا سب سرمایہ انھوں نے آف شور کمپنیوں میں انڈیل رکھا ہے۔

حزبِ اختلاف کے شور پر پاناما لیکس سے متعلق وزیراعظم نے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جس عدالتی کمیشن کا اعلان کیا ہے، وقت بتائے گا کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا‘ اس طرح کی انکوائری ایسے کمیشنوں کے بس کی بات نہیں‘ اس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صرف نیب ہی کر سکتا ہے لیکن وہ بھی وزیراعظم کے استعفیٰ کے بعد۔ اتنی بڑی انکوائری سے پہلے نیب کا نظام درست کرنا از حد ضروری ہے۔ اکثر لوگ ہر دَور میں نیب کی خرابی کا ذمے دار چیئرمین کو ٹھہراتے رہے ہیں، ہماری نظر میں نیب کا اصل مسئلہ چیئرمین نہیں بلکہ وہ فرسودہ نظام ہے جو بغیر کسی قاعدہ و ضابطہ کے غیرقانونی ایس او پی پر مشتمل ہے جن کے تحت تفتیشی افسران سے وہ بنیادی اختیارات بھی چھین لیے گئے ہیں جو تفتیش کرنے کی بنیاد ہیں۔

ایک تفتیشی افسر جو اربوں روپے کے کیس کی تفتیش کر رہا ہوتا ہے، تفتیش کے لیے بنیادی ریکارڈ بھی نہیں منگوا سکتا کیونکہ ڈائریکٹر کا دباؤ ہوتاہے کہ فلاںکا ریکارڈ نہیں منگوانا اور فلاں کو سَمن نہیں کرنا۔ تفتیشی افسر ضد کر کے تو ریکارڈمنگوا نہیں سکتا کیونکہ جب تک ڈائریکٹر تفتیشی کے لکھے پر منظوری نہیں دیگا ڈپٹی ڈائریکٹر کوارڈینیشن نہ ریکارڈ منگوا سکتا ہے نہ گواہ یا ملزم کو بلوا سکتا ہے ، وجہ یہ کہ اس کا اختیار غیرقانونی ایس او پی کے تحت ڈائریکٹر کو دیا ہوا ہے جب کہ اس اختیار کا اصل مالک تفتیشی کو ہونا چاہیے۔

بعینہٖ ریفرنس فائل کرنے اور چالان کرنے کا اختیار ڈی جی یا چیئرمین کے پاس ہے اور تفتیشی کے پاس کہیں کوئی اختیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ نیب کا ادارہ ناکام و نامراد ہے‘ وقت کا تقاضا ہے کہ نیب کو آزاد، فائدہ مند اور تیربہدف بنایا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو جس شرح سے کرپشن اور لوٹ مار ہو رہی ہے اور جس حساب سے ہر ماہ اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، صرف پانچ سے دس سال کے عرصہ میں پاکستان کا دیوالیہ نکل سکتا ہے۔ یہ تو کوربینوں کو بھی دکھائی پڑ رہا ہے کہ نیب میںغیر معمولی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور اس موقع محل میں چیئرمین نیب، حساس اداروں کے سربراہان اور تمام ذمے داران کو چاہیے کہ وہ اپنا اپنا فرض ادا کریں‘ اپنی آخرت کے لیے، اپنی قوم کے لیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نیب میں جو نوٹنکی بند کمروں میں ہوتی ہے وہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ ڈائریکٹر صاحبان تفتیشی افسران کو اے سی آر سے ڈرا کر اور نئے افسران کو ان کی پروبیشن کنفرم نہ کروانے کا خوف دلا کر جو داستانیں رقم کر چکے ہیں ان کا احاطہ ان کالموں میں ممکن نہیں۔ ان سب استادکاریوں اور ذاتی کیفیتوں کا چیئرمین کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو سکتا کیونکہ ریجن میںجو ڈی جی بیٹھے ہوتے ہیں ان تک کو پتہ نہیں ہوتا کہ نیچے ونگ میں کیا کیا کھچڑی پک رہی ہے اور تفتیشی افسران کے سینوں میں کیا کیا راز مدفون ہو رہے ہیں۔

اگر کوئی کہتا ہے کہ تفتیش کار فائلوں پر اختلافی نوٹ کیوں نہیں لکھتے تو ان کا یہ خیال ہے کہ جو نوکری ان کو قسمت کے دھنی ہونے کی وجہ مل گئی، وہ اسے گنوا کر اپنے آپ کو دوبارہ بیروزگاری کے سمندر میں غرقاب کیوں کریں کیونکہ نیب تو وہ بے سرو پا محکمہ ہے جس میں انکوائری کا کوئی سرپیر ہی نہیںہوتا۔ انکوائری افسران بغیر کسی مناسب ثبوت اور بغیر کسی غیرمبہم الزام کے ہی فرعونیت کے تحت لکھ دیتے ہیں کہ تم قصوروار ہو اور بس نوکری سے نکال کر گھر بھیج دیتے ہیں، اس ضمن میں اپیل اس لیے بیکار ہوتی ہے کہ اسے بہرحال خارج ہی ہونا ہوتا ہے کیونکہ ججز کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ حقائق کی تفصیلات میں جائیں‘ اکثر و بیشتر تو وہ رِٹ ایڈمٹ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے ڈس مس ہی کر دیتے ہیں۔

اس کا مجرب حل یہی ہے کہ انویسٹی گیشن کا عملہ ڈائریکٹر کے کہے پر مِن و عن چلتا جائے، نہ ڈی جی کو بتائے نہ چیئرمین کو خط لکھے کیونکہ ان کے پاس ایسے غیر اہم مکالموں اور خطوط سننے پڑھنے کے لیے وقت کہاں۔ گویا ثابت ہوا کہ سیاستدانوں کی طرح اعلیٰ بیوروکریسی کے نزدیک بھی انصاف، میرٹ، پاکستان، انسانیت وغیرہ، سب فضول کے فلسفے ہیں! ہاں اگر چیئرمین کو کوئی شک ہو تو وہ پچھلے تین سال کے بند کیے گئے کیسز کی آزاد اور بے رحمانہ سکروٹنی کروائیں، جے آئی ٹیز بنوائیں، ایف آئی اے اور آئی بی اینٹی کرپشن سے بھی بندے لیں تا کہ انہیں چانن ہو کہ اربوں کی کرپشن کے کیسز کی فائلیں بغیر ریکارڈ حاصل کیے، بغیر ملزمان کے ذاتی اور اداروں کے اکاؤنٹس کا ریکارڈ حاصل کیے اور بغیر انکوائری و تفتیش مکمل کیے ثبوت ناکافی ہونے کا بہانہ بنا کر بند کر دی گئی ہیں۔

جب چیئرمین ہمت پیدا کر کے متجسس نگاہ سے چھان بین کروائینگے تب یہ عقدہ ان پر کھلے گا کہ تفتیشی افسران کتنے زیادہ بے بس اور کس قدر غلام ہیں‘ تبھی انہیں اندازہ ہو گا کہ اصل بگاڑ کدھر ہے اور مسئلے کی جڑ کیا ہے۔ جب تفتیش کے اصول ہی طے نہیں ہونگے اور تفتیشی کو اختیارات ہی تفویض نہیں ہونگے تو بلاشبہ ریکوری کا ٹارگٹ حاصل نہیں ہو گا۔ اب تک کی گئی کل 262 بلین کی نام نہاد ریکوری کو چھوڑیں، پچھلے سات سال کی ہی ریکوری جمع کر کے دیکھ لیں آپ یقینا کہنے پر مجبور ہو جائینگے کہ اس سے زیادہ تو محکمہ اس کام پر خود خرچ کر چکا ہے۔ ایسے نیب کے ہونے کا نقصان اس کے نہ ہونے سے بھی زیادہ ہے کہ اب تو نیب کے اندر کرپشن کرنیوالوں کی کھال سے بھی خوف جاتا رہا ہے کیونکہ محکمانہ شکایت کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔

بھئی جب سب کو حصہ پورا جائے گا تو شکایت کیونکر ہوگی؟ اس پر بھی پانچ سے دس فیصد چانس ہے کہ کچھ ثابت ہو پائیگا، اور بالفرضِ محال اگر ہو بھی جائے گا تو وی آر اور پی آر ہے ناں! یعنی چیک نیب کے منہ پر مارو اور پھر سے لگ جاؤ منا بھائی۔ ویسے بھی دس فراڈ کرو گے تو چانس ہے کہ پکڑا تو ایک ہی جائے گا، اسی کی وی آر کرو اور بس! جہاں تک غیر موثر نیب کا تعلق ہے تو اس کی مجموعی کارکردگی پر آنسو ہی بہائے جا سکتے ہیں تاہم موجودہ ڈی جی صاحبان کی انفرادی کارگزاری کسی حد تک تسلی بخش کہی جا سکتی ہے مگر وہ فرداً فرداً تو نیب کو چلانے سے رہے جب ان کے پاس ماتحت عملہ اور تفتیشی افسران ہی مطلوبہ صلاحیت کے نہیں ہیں۔ نیب کے لاہور آفس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے ڈائریکٹرز کا تفتیش کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی حال بلوچستان کا ہے‘ ان کے تمام ڈائریکٹرز بھی تفتیش سے نابلد اور ناتجربہ کار ہیں۔

نیب ملتان میں ڈی جی ایک کمزور افسر ہیں جن پر ایک گروپ حاوی ہے جس نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس ’’جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ جیسی دو عارظہ صورتِ احوال میں اگر ہم بیوروز کے ڈی جی صاحبان کو یہ حلیمانہ صلاح دیں کہ وہ پہلی فرصت میں اپنے نااہل اور نکمے افسران سے جان چھڑا لیں تو یہ نفع آور نہ ہو گا کیونکہ یہ ایسی با رسوخ مافیا ہے جس سے حکومتیں بھی خوف کھاتی ہیں‘ اس نجاسیہ کو قلعی کرنے کی یگانہ ترکیب یہی ہے کہ چیئرمین نیب تمام ڈی جیز کے ساتھ مشاورت سے ایسے تمام ناقص الوجود افسروں کی فہرست بنا کر ان کی سبکدوشی کو صفاتی وجوہ کے ساتھ میڈیا میں مشتہر کر دیں اور ان کی جگہ تازہ جوہرِ قابل کو اوپن میرٹ پر بھرتی کا موقع دیں‘ یہی ایک طرزِ حکمت ہے کہ نیب کے مردہ گھوڑے میں نئی روح پھونکی جا سکے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔