قرآن مجید کی سائنسی تصریح     (پہلا حصہ)

نسیم انجم  اتوار 10 اپريل 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دنیا جہاں کی تعلیم کا سرچشمہ قرآن مجید فرقان حمید ہے۔ قرآن مجید کا نزول اور تاقیامت اس کا سینہ بہ سینہ محفوظ رہنا اللہ رب العزت کا بالکل اسی طرح معجزہ ہے جس طرح سمندر کا ایک مقررہ حدود تک موجود رہنا، اگر بپھر جائے تو دنیا ڈوب جائے، اسی طرح دیو ہیکل پہاڑ، نیلا ستاروں سے مرصع آسمان اور چاند و سورج کا مقررہ وقت پر نکلنا، غروب ہونا یہ سب اس مالک حقیقی کا کرشمہ ہے کہ وہ کرشمہ ساز ہے، کن کہنے سے چیزیں وجود میں آگئیں۔

قرآن کریم ہماری زندگی اور کائنات کی ہر شے کا احاطہ کرتا ہے مکمل ضابطہ حیات ہے، اس کے ایک ایک لفظ میں اس قدر تاثیر ہے کہ زندگی بدل جاتی ہے، بدنصیبی و ناکامی خوش قسمتی کی شکل میں سامنے آتی ہے، اس کے احکامات پر عمل انسان کی صحت و سلامتی اور دین و دنیا کی کامرانی کی طرف لے جاتے ہیں، جن باتوں کے بارے میں آج کے سائنس دان بتا رہے ہیں ان علوم اور حقائق کا ذکر تو قرآن مجید میں درج کردیا تھا اور اس معجزہ کو 14 سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے ایسے ہی حقائق پر مبنی کتاب جوکہ مکمل قران پاک کی آیات، ان کی تشریح اور سائنس کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے۔

بڑی محنت، عرق ریزی، توجہ، لگن اللہ اور اس کے حبیب احمد مصطفیٰ ؐ کی محبت و عقیدت کے نتیجے میں لکھی گئی ہے، اس کے مصنف انجینئر شفیع حیدر صدیقی ہیں۔ شفیع حیدر صدیقی کو مختلف علوم پر دسترس حاصل ہے۔ وہ شاعری، سفرنامہ، ماحولیات، بچوں کا ادب، قرآن، سائنس و ٹیکنالوجی پر 75 کتابیں لکھ چکے ہیں۔یہ کتاب بعنوان ’’قرآن مجید کی سائنسی تصریح‘‘ ہمیں صحافی جلیس سلاسل کے توسط سے موصول ہوئی، اس تحفہ خاص کے لیے ہم ان کے ممنون و مشکور ہیں۔

قرآن مجید کی سائنسی تصریح کا انتساب بھی سبحان اللہ کہنے پر مجبور کرتا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

گدائے بے نوا کا ایک نوشتہ تیرے نام آقا
غبارِ رہگزر ہوں دور سے سلام آقا

ہادیٔ برحق کے نام، سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام انتساب کے بعد جو تحریر ہمیں نظر آتی ہے وہ قلب کو گرماتی اور روح کو سرشار کرتی ہے، ذہن و دماغ میں اللہ کی وحدانیت، اس کی کبریائی اور اس کی حکمت سے ذہن بالیدگی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے اور یک گونہ سکون قلب حاصل ہوتا ہے۔ انتساب کے بعد درج ذیل سطور سے ابتدا ہوتی ہے ’’ یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں۔ (سورۃ ص آیت:29) تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں یا بعضے دلوں پر قفل لگے ہیں (سورۃ محمد 24)۔

یہ قرآن لوگوں کے لیے بصیرت کی باتیں اور ہدایت و رحمت ہے اس قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے (سورۃ جاثیہ، آیت: 20)۔ تو کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا، ہم نے اسے کیسا بنایا اور سنوارا اور اس میں کہیں رخنہ نہیں، زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں تاکہ ہر رجوع کرنیوالے کے لیے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔ (سورۃ ق۔ آیت نمبر 6 تا 8)۔

آج کل قلت آب کا مسئلہ تمام دنیا اور خاص طور پر ہمارے ملک میں شدت اختیار کرگیا ہے، قرآن مجید میں اس کا ذکر بار بار آیا ہے، خاص طور پر سورۃ بقرہ میں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش زمین پر رہنے والی مخلوقات کے لیے بنایا۔ مثلاً نظام شمسی کی موجودگی، سورج کا حجم اور درجہ حرارت، زمین سے مناسب دوری، زمین کا حجم، کشش ثقل، ہوا پانی اور دیگر اسباب حیات وغیرہ ایسے متوازن اور عمدہ ماحول کی ہی بدولت زمین حضرت انسان کا مسکن بنی اور اللہ تعالیٰ نے شیاطین سے محفوظ رکھنے کے لیے آسمان کی چھت بنادی اور پانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری بن گیا کہ اس کے بغیر حیات ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے زمین کو پانی کا ذخیرہ عطا کیا، آسمان سے برسا اور زمین سے طرح طرح کے پھل، پھول اور نباتات کی پیدائش کا سبب بنا، جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کرہ ارض کو 1,360,000 مکعب کلومیٹر (KM3) پانی عطا فرمایا ہے، نہ ایک قطرہ زیادہ نہ کم۔

سبحان اللہ! (الحمد اللہ رب العالمین) اسی طرح بارش، اولے، برف یا کل کرہ ارض پر Precipitation بھی محض کل پانی (1,360,000 KM3) کا 0.031 فیصد برستا ہے، سائنسدان ان دونوں انکشافات پر بے حد حیران ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قطبین سے خط استوا تک ابر و باراں کا سلسلہ رواں کرکے آبی چکر (Water Cycles) چلا رکھے ہیں، تاکہ عالم نباتات کو فروغ حاصل ہو۔ نباتات، پانی، سورج کی روشنی ، زمین کی زرخیزی اور اس میں موجود خوردبینی مخلوقات مثلاً بیکٹیریا وغیرہ کے عوامل سے بنیادی خوراک بناتے ہیں اور آکسیجن بھی مہیا کرتے ہیں، ماہرین اس عمل کو “Photo Synthesis” کا نام دیتے ہیں، یوں نباتات کے ذریعے پورے کرہ ارض پر رزق کی تقسیم اس رازق و خالق نے جاری کی، لہٰذا عبادت کے لائق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے، جو عدم سے یہ کائنات اور تمام وسائل وجود میں لایا۔ اسی حوالے سے شفیع حیدر صدیقی کے یہ اشعار قابل توجہ اور اس عظیم خالق کی وحدانیت کے اعتراف میں عقیدت کے ساتھ لکھے گئے ہیں:

مرغانِ خوش نما کو کیا خوش لحن بنایا
مردہ زمین سے سبزہ تو نے ہی لہلہایا

تو نے کلوروفل میں بھی رکھی ہے کیا عطا
کس طرح بیج پیڑ میں ڈھلتا چلا گیا

سورۃ الحجرات کے حوالے سے مصنف نے قیامت اور معاشرتی آلودگی کا ذکر بے حد سلیس پیرائے میں درج کیا ہے، جس کا پڑھنا اور سمجھنا نہایت آسان ہے اور صاحب بصیرت اور صاحب ایمان کے دل میں اترنیوالا اور توجہ کا طالب ہے۔ آج کے سائنسی دور میں ماحولیاتی آلودگی کے اثرات نمایاں ہوگئے ہیں، اس سے بچاؤ کی تدبیریں کی جا رہی ہیں، ایسے میں شور کی آلودگی (Noise Pollution) خاصی توجہ کا باعث ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو مخصوص درجہ یا “Frequency” کی آوازیں ہی سنائی دیتی ہیں اور اس شور سے طرح طرح کی بیماریوں کا خدشہ رہتا ہے، دل کے امراض اور نفسیاتی امراض کا اہم سبب شور کی آلودگی ہے، یہی وجہ ہے کہ دیہات کے لوگوں کی بہ نسبت شہر میں رہنے والے زیادہ بدمزاج اور چڑچڑے ہوتے ہیں۔ بے شک اللہ حکمت والا ہے، اس نے بداخلاقی کو منع فرمایا ہے اور صبر و تحمل کا حکم دیا ہے۔

بنیادی طور پر تمام انسان برابر ہیں یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ جنیاتی اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں، آج ہم الیکٹرون، مائیکرو اسکوپ سمیت طرح طرح کے نازک اور حساس آلات سے کام لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان میں اربوں کھربوں خلیے (Cells) ہوتے ہیں، چنانچہ اوسطاً ایک انسان میں 7×1012 خلیے ہوتے ہیں، تو خلیہ ہی ہر انسان کے پیکر کی عمارت کی بنیادی اینٹ ہے اور ہر آدمی کا DNA الگ الگ ہے، یہی اختلاف اس کی ذریت، ذات اور قبائل کی جانب اشارہ کرتا ہے اور جین کا اختلاف اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ سبحان اللہ۔ سورۃ نوح کا ذکر بھی کتاب مذکورہ میں موجود ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ سورۃ الفاتحہ سے سورۃ الناس تک کی آیات مبارکہ پر بلاغت و فصاحت، ایمان کی روشنی اور قرآن سے محبت کے نتیجے میں تصریح لکھی گئی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔