شاہراہِ ریشم کے پتھر

تنویر قیصر شاہد  پير 11 اپريل 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جناب طارق اسلام، ذوالفقار علی بھٹو کے سگے بھانجے ہیں۔ بھٹو صاحب کی ہمشیرہ محترمہ، منور الاسلام، کے صاحبزادے۔ انھوں نے حال ہی میں ایک انگریزی معاصر میں اپنے عظیم اور شہید ماموں سے وابستہ یادوں کے حوالے سے ایک نہایت انکشاف خیز اور دلچسپ آرٹیکل قلمبند کیا ہے۔ طارق اسلام لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر ظفر نیازی جب پسِ دیوارِ زنداں بھٹو صاحب سے ملنے گئے تو دیکھا کہ ان کے دانت نہایت خراب ہیں اور شدید درد کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

ڈاکٹر نیازی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو بھٹو صاحب نے کہا: ’ان باتوں میں وقت ضایع مت کرو۔ تم کسی طرح فوراً ڈاکٹر قدیر خان سے ملو اور انھیں میرا پیغام دو کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام کسی بھی حالت میں بند نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسرا یہ کہ تم نے باہر نکل کر شاہراہِ قراقرم (شاہراہِ ریشم یا KKH) بنانے والے متعلقہ لوگوں سے ہنگامی طور پر ملنا ہے اور انھیں میرا یہ پیغام دینا ہے کہ یہ شاہراہ ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچنی چاہیے۔‘ ڈاکٹر نیازی حیران تھے کہ موت کے دروازے پر کھڑے بھٹو کو اپنی زندگی کی نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور شاہراہ ریشم کی تکمیل کی فکر تھی۔‘‘

ان الفاظ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گلگت و بلتستان سے گزرنے والی شاہراہِ ریشم کی بھٹو صاحب کے نزدیک کیا اور کتنی اہمیت تھی۔ جانتے تھے کہ یہ شاہراہ پاکستان کی جغرافیائی، معاشی اور فوجی سلامتی و طاقت کے لیے اہم ترین حیثیت رکھتی ہے۔ بھٹو صاحب کی رخصتی کے تقریباً 35 برس بعد وزیراعظم جناب نواز شریف نے چین سے مل کر جس شاندار اور بے مثل CPEC (چین پاکستان اکنامک کوریڈور) منصوبے کا ڈول ڈالا ہے، اس نے گلگت و بلتستان کو مرکزی مقام عطا کر دیا ہے۔ شاہراہِ ریشم CPEC کے قلب سے گزرتے ہوئی پاکستان کے مختلف حصوں اور چین کو لازوال محبت کے رشتے میں پرونے والی ہے۔

’’عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ کو اگرچہ جی بی کے عوام کی نمایندہ نہیں کہا جا سکتا ہے مگر اس کے پلیٹ فارم سے اگر خوراک، بجلی، گندم وغیرہ کی فراہمی میں تسلسل اور قیمتوں میں سبسڈی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے بے جا اور غیر قانونی ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ اگر لاہور اور اسلام آباد/ راولپنڈی (اور عنقریب ملتان) میں میٹرو بس کے منصوبے میں عوام کو سفری سہولتیں فراہم کرنے کے نام پر ماہانہ کروڑوں اور سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی دی جا سکتی ہے اور دی بھی جا رہی ہے تو ’’جی بی‘‘ کے پسماندہ عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ انھیں بھی ہمارے حکمران، ان کے مطالبات کے مطابق، سبسڈی کی شکل میں سہولیات فراہم کریں۔

جب سے ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ (CPEC) کی تشکیل و تعمیر کا اعلان ہوا ہے، گلگت بلتستان کی اہمیت اور خصوصیت میں دو چند اضافہ ہو گیا ہے۔ چین اور پاکستان کے حکام قطعی یہ نہ چاہیں گے کہ ’’جی بی‘‘ میں حالات کسی بھی شکل اور کسی بھی رنگ میں دگرگوں ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’جی بی‘‘ کا خطہ وطنِ عزیز کے لیے ایک عظیم اور بیش بہا عطیہ خداوندی ہے۔ اس کے علاقے ’’خنجراب‘‘ کے شمال میں چین واقع ہے (اور اسی جانب سے سی پیک کے دروازے کھلنے والے ہیں) اس کی تاریخی ’’واخان کی پٹی‘‘ اور علاقہ ’’غزر‘‘ کے توسط سے وسط ایشیا کے مشہور ملک تاجکستان سے پاکستان کے روابط استوار ہوتے ہیں۔

استور اور بلتستان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے خطہ سے تعلق بنتا ہے اور اگر ’’جی بی‘‘ کے علاقے ’’دیامر‘‘ کو دیکھیں تو اس کی سرحدیں خیبرپختون خوا سے منسلک ہیں۔ اس زبردست جغرافیائی لوکیشن کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حکمران، پاکستان کے عوام اور پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ’’جی بی‘‘ کو نظر انداز کر ہی نہیں سکتی۔

دشمنانِ پاکستان خصوصاً بھارت کی نظریں بھی اسی لیے ’’جی بی‘‘ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہی وطن دشمن طاقتیں کوشاں ہیں کہ اگر جی بی کے جنت نظیر علاقے میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا دی جائے تو نہ ہی ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ کا بے مثال منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا (خاکم بدہن) اور نہ ہی پاکستان مزید آگے بڑھ کر چین سے مضبوط تعلقات استوار کر سکے گا۔ بھارت ’’جی بی‘‘ میں شرارتیں کر کے چین کو بھی پریشان کرنے کی شدید آرزو رکھتا ہے کہ اس پُر امن خطے کی سرحدیں چین کے صوبے ’’سنکیانگ‘‘ سے ملتی ہیں اور سنکیانگ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بھارت کی ’’اسٹرٹیجی‘‘ یہ ہے کہ اگر جی بی میں شورش پیدا کر کے یہاں حالات خراب کر دیے جائیں تو اس کے نہایت اور فوری منفی اثرات براہ راست (براستہ سنکیانگ) چین پر مرتب و مرتسم ہوں گے۔

(اس خواہش اور سازش میں غالباً امریکی بھی شامل ہیں) پاکستان اور چین ان بھارتی سازشوں اور خواہشات سے بخوبی آگا ہیں۔ اگر ہم معروف مغربی مصنف، اینڈریو اسمال، کی معرکۃ لآرا کتاب (The  China-Pakistan  Axis) کا مطالعہ کریں تو پاکستان کے خلاف یہ سازشیں اور سوچیں زیادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ بھارتی ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو اور افغانی انٹیلی جنس ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ کے جاسوس، عبدالاحد نورزئی، کی گرفتاریوں سے حاصل شدہ معلومات بتاتی ہیں کہ کون کون لوگ، ادارے اور ممالک شاہراہِ ریشم پر پتھر گرانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی شمالی پیٹھ کو محفوظ و مامون بنائے رکھنے اور CPEC کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت ’’جی بی‘‘ کے عوام، وہاں کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رحجانات سے ہمہ وقت آگاہ رہے۔

دشمن اس حساس علاقے کے موہوم اضطراب کو ایکسپلائیٹ کرتے ہوئے اپنے قابلِ مذمت ذاتی مفادات سمیٹنا چاہتا ہے۔ ہماری بیدار مغز اور ہمہ دم جواں ہمت عسکری قیادت کی طرف سے اگرچہ بار بار یہ اعلانات سامنے آ رہے ہیں کہ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کو ہر صورت میںمکمل بھی کیا جائے گا اور اس کا ہمیشہ تحفظ بھی کیا جاتا رہے گا۔ ضرورت مگر اس امر کی بھی ہے کہ پاکستان کی مرکزی قیادت بھی آگے بڑھ کر گلگت بلتستان کی سیاسی و مذہبی قیادتوں سے رابطہ رکھے گی۔ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو ’’جی بی‘‘ کے مقامی لوگوں سے میل ملاقاتوں کے ذریعے اس تاثر کو گہرا کرنے اور ان احساسات و جذبات کا دائرہ پھیلانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ’’جی بی‘‘ کے عوام، کسی بھی سطح پر، نہ تو بے یارومددگار ہیں اور نہ ہی بے آسرا و تنہا۔ گزشتہ دو تین ہفتوں کی مسلسل بارشوں نے ’’جی بی‘‘ میں بہت تباہی پھیلائی ہے۔

لینڈ سلائیڈنگ نے شاہراہِ ریشم کو جگہ جگہ مسدود کیا ہے اور ’’جی بی‘‘ کے بہت سے لوگ بے گھر بھی ہو گئے ہیں۔ غیر ملکی سیاح بھی وہاں پھنس کر رہ گئے۔ اطمینان بخش بات مگر یہ ہے کہ پاک فوج نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر شاہراہِ ریشم کے پتھروں سے اٹے حصوں کو دوبارہ کھول بھی دیا ہے، بیماروں تک ادویات بھی پہنچائی ہیں، شدید مریضوں و زخمیوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پشاور اور اسلام آباد بھی منتقل کیا ہے، غیر ملکی سیاحوں کو فوری طور پر ریسکیو بھی کیا ہے اور ’’جی بی‘‘ کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں تک خوراک بھی پہنچائی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’جی بی‘‘ کے منتخب نمایندے، مذہبی قائدین اپنے اپنے تعصبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور پاکستان کے مرکزی حکمران شاہراہِ ریشم کے آس پاس اور بلندیوں پر بسنے والوں سے گہرا تعلق قائم رکھیں۔ یہ تعلق جتنا عمیق ہو گا، دشمنانِ پاکستان اسی نسبت سے اپنے عزائم اور ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے احتراز بھی کریں گے اور پاکستان سے خوف بھی کھائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔