پاناما لیکس میگا سکینڈل… شفاف تحقیقات کرائی جائے!!

قانونی و اقتصادی ماہرین کا ’’پاناما لیکس‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔  فوٹو : فائل

قانونی و اقتصادی ماہرین کا ’’پاناما لیکس‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

پاناما لیکس نے خفیہ طریقے سے دولت بنانے والی دنیا بھر کی سیاسی و اعلیٰ شخصیات کے حوالے سے خفیہ دستاویزات جاری کرکے دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاناما لیکس کے نام سے ایک کروڑ 5لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کی گئیں جس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے موجودہ و سابق حکمران، سیاسی شخصیات اور فلمی ستاروں کی جانب سے ٹیکس چھپانے کے لیے کیسے خفیہ دولت بنائی گئی۔

دنیا کے 143رہنماؤں میں سے 12 اعلیٰ حکومتی شخصیات ، ان کے خاندان اور عزیز و اقارب شامل ہیں جنہوں نے خفیہ طریقے سے دولت بنائی۔ پاناما لیکس کے مطابق روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے بھی خفیہ طریقے سے 2ارب ڈالر بنائے، شام کے صدربشار الاسد، برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، یوکرین کی صدر پیٹرو پورو شنکوو، متحدہ عرب امارات کے امیر خلیفہ بن زید النیہان، مصر کے صدر رال سیسی، لیبیا کے سابق سربراہ معمر قذافی ، مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، فٹبالر لیونل میسی، بالی وڈ میگا سٹار امیتابھ بچن، اداکارہ ایشوریا رائے، ہالی وڈ اداکار جیکی چن، برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے 6ارکان،کنزرویٹو پارٹی کے 3سابق ارکان اسمبلی، چین کے حکمران ادارے پولٹ بیورو کے موجودہ اور سابق 8ارکان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

پاناما لیکس کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات کے مطابق پاکستان کے سیاستدان، بیوروکریٹس، بزنس مین اور دیگر اعلیٰ شخصیات بھی خفیہ دولت بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ پاناما لیکس کے مطابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز، حسین نواز اور بیٹی مریم نواز کئی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ مریم نواز کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں موجود نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور نیکسول لمیٹڈ کا مالک ظاہر کیا گیا ہے، نیلسن انٹر پرائزز کا پتہ جدہ میں سرور پیلس بتایا گیا ہے۔

حسین نواز اور مریم نواز نے لندن میں اپنی جائیداد گروی رکھ کر نیسکول اور دوسری کمپنی کے لیے جنیوا کے بینک سے 1کروڑ 38لاکھ ڈالر قرض حاصل کرنے سے متعلق جون 2007ء میں دستاویزات پر دستخط کیے تھے بعدازاں جولائی 2014ء میں دونوں کمپنیاں ایک اور ایجنٹ کو منتقل کردی گئیں۔ اسی طرح حسن نواز شریف کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں ہینگون پراپرٹی ہولڈنگز کا واحد ڈائریکٹر ظاہر کیا گیا ہے۔ ہینگون نے اگست 2007ء میں لائبیریامیں واقع کیسکون ہولڈنگز سٹیبلشمنٹ لمیٹڈ کو ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر میں خرید لیاتھا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے خود تو خفیہ دولت نہیں بنائی مگر نواز شریف کی بیٹی مریم نواز، بیٹوں حسن نواز اور حسن نواز نے 4 خفیہ کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر بنائے۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو، چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی، سابق وزیرداخلہ رحمن ملک، جاوید پاشا، سینیٹر عثمان سیف اللہ اینڈ فیملی، چودھری برادران کے رشتہ دار وسیم گلزار، حج سکینڈل کے شریک ملزم زین سکھیرا اور شوکت ترین کے نام شامل ہیں۔ فہرست میں بار ایسوسی ایشن کے ارکان، ایک حاضر سروس جج اور ایک ریٹائرڈ جج کے نام بھی شامل ہیں۔

پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا ہے، آئس لینڈ کے وزیراعظم عوامی احتجاج کے نتیجے میں مستعفی ہوچکے ہیں، آسٹریلیا میں 800افراد کیخلاف تحقیقات شروع ہوچکی ہیں، نیوزی لینڈ میں بھی وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے، ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے غرض یہ کہ ہر ملک اپنے اپنے قانون کے مطابق اس حوالے سے تحقیقات کررہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس حوالے سے قوم کے ساتھ خطاب کیا۔

انہوں نے خود کو اپنے خاندان سمیت احتساب کے لیے پیش کیا اور ریٹایرڈ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز بھی دی۔ ان کے اس خطاب کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے جس کی آواز ایوانوں میں گونجھ رہی ہے۔ اس بین الاقوامی، سیاسی، معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’پاناما لیکس‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں اقتصادی و قانونی ماہرین اور بزنس کے نمائندوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

میاں رحمن عزیز
(ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
پاناما لیکس کی معلومات گزشتہ سال جرمن اخبار کو دی گئیں جس نے یہ معلومات انوسٹی گیٹو جرنلسٹ سوسائٹی کو دیں لہٰذا ایک سال کی تحقیقات کے بعد اب یہ معاملہ سامنے آیا ہے جو ان کی تحقیقات کے مطابق درست ہے۔ پاناما لیکس صرف 149صفحات پر مشتمل ہے جبکہ حقیقت میں 11.4 ملین فائلز ہیں لہٰذا اگر پوری رپورٹ منظر عام پر آجائے تو دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا۔اس رپورٹ میں صرف پاکستان ہی شامل نہیں بلکہ چین، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، روس و دنیا کے بیشتر ممالک کے حکمران خاندانوں کے نام سامنے آئے ہیں اور اب ہر ملک اپنے اپنے قانون کے مطابق اس حوالے سے تفتیش کرے گا۔آف شور کمپنیاں ناجائز سودے بازی کے لیے بنائی جاتی ہیں اور اس میں ناجائز طریقے سے کمایا ہوا پیسہ بھی شامل ہوتا ہے۔

آج کے دور میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ لیے بغیرپیسہ بذریعہ فلائٹ ملک سے باہر نہیں لے جایا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ ایان علی کا معاملہ ابھی تک ہائی لائٹ ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ اگر یہ پیسہ ہمارے ملک سے گیا تو کیسے گیا؟ یہ ایک اہم معاملہ ہے اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔

میرے نزدیک جوڈیشل کمیشن کے بجائے ایف آئی اے، نیب، سپریم کورٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور اس کے لیے فرانزک فنانشل ایکسپرٹس کی مدد لی جائے تاکہ پیسے کی منتقلی کا طریقہ کار بھی پتہ لگایا جاسکے۔

جب اس حوالے سے تمام تحقیقات مکمل ہوجائیں تو پھر حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سزا بھی یقینی بنائی جائے۔ماضی میں ہمارے ہاں ریفارمز لائے گئے کہ کسی بھی قسم کا پیسہ ملک سے باہر لیجانے یا ملک میں لانے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی، اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر اس دور میں پیسہ ملک سے باہر منتقل ہوا ہے تو وہ لیگل ہے اور اس پر کوئی کارروائی نہیں بنتی۔اگر کوئی پاکستانی وہاں بزنس کررہا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ وہاں سے کمائے ہوئے پیسے کا ریٹرن فائل کررہا ہے، اگر نہیں کررہا تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

رمضان چودھری
(سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل)
آف شور کمپنیاں ٹیکس بچانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔دنیا کے بہت سارے ممالک میں ٹیکس فری زونز قائم ہیں جہاں آف شور کمپنیاں بنی ہوئی ہیں۔ ان کمپنیوں کے لیے پیسے کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا کہ آیا یہ قانونی طریقے سے لایا گیا ہے یا غیر قانونی راستہ اختیار کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ پوچھا جاتا ہے کہ یہ پیسہ کس طرح کمایا گیا کیونکہ اسی پیسے سے ان ممالک کی معیشت چلتی ہے۔پاناما کے صدر نے اس حوالے سے بیان دیا کہ ان کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی ہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اب یہ پیسہ دوسرے ممالک میں منتقل ہوجائے گا۔

البتہ انہوں نے اب تمام ممالک کی حکومتوں کو معلومات تک رسائی دینے کا اعلان کیا ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کا تقاضہ بھی ہے کہ اگر منی لانڈرنگ یا اسی قسم کے الزامات لگیں تو یہ لازم ہوجاتا ہے کہ دوسری حکومتوں کو وہاں تک رسائی دی جائے۔پاناما لیکس کے اخلاقی اور قانونی دو پہلو ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان میں سے کسی کا پیسہ جائز بھی ہو جو اس نے ٹیکس سے بچنے کے لیے وہاں لگایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے ناجائز پیسہ ہو اور ناجائز طریقے سے وہاں لیجایا گیا ہو یا جائز پیسے کو ناجائز طریقے سے لیجایا گیا ہو۔

بہرحال کسی بھی طریقے سے پیسہ ان کمپنیوں میں لے جانا اخلاقاََ جرم ہے کیونکہ یہ ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے اور وزیراعظم سمیت کسی کو بھی اس میں استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ قوم کیساتھ دھوکا ہے لہٰذا اس حوالے سے سنجیدہ کارروائی ہونی چاہیے۔ ا گر کوئی یہ جواز دے کہ میرا پیسہ جائز تھا تو اس پر یہ سوال اٹھے گا کہ وہ پیسہ ملک سے باہر کیوں لے کر گیا اور اگر لے گیا تو ہمارے ملکی قانون کے تحت گیا یا کسی ناجائز طریقے سے ؟

اگر اس کے قانونی پہلو کا جائزہ لیں تو وہ تمام کمپنیاں کسی دوسرے ملک میں رجسٹرڈ ہیں اورسرمایہ بھی ہمارے ملک سے باہر ہے۔ ان میں بہت سارے لوگ ہمارے شہری نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے دوسرے ممالک کی شہریت لے رکھی ہے ۔

اس کے علاوہ بہت سارے لوگ دوہری شہریت رکھتے ہیں جو ہمارے شہری بھی ہیں اور کسی دوسرے ملک کے بھی۔ جن لوگوں کا نام اس سکینڈل میں آیا ہے ان کے بارے میں یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے یہ پیسہ پاکستان سے پاناما میں منتقل کیا یا کسی دوسرے ملک سے لہٰذا اس حوالے پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے تحقیقاتی اداروں کو پاناما تک رسائی دی جائے گی کہ وہ ان کمپنیوں سے تفتیش کرسکیں؟ کیا ہم وہاںتفتیشی ٹیم بھیج سکتے ہیں؟ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی حکومت اس قسم کا مطالبہ کرسکتی ہے مگر پاناما کی حکومت معلومات دینے کی پابند نہیں ہے کیونکہ وہاں کے قانون کے مطابق اس میں بہت سارے تحفظات سامنے آئیں گے ۔

پاناما تک رسائی ایک مشکل مرحلہ ہے البتہ ہمارے اداروں اور ایجنسیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کسی پاکستانی پر پیسہ ناجائز طریقے سے باہر لیجانے کا الزام ہے تو اس سے اس پیسے کا ذریعہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اور پاناما کیسے پہنچایا گیا۔پاناما لیکس میں دو سو سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی طرح اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔

سیاسی خاندان تو اس میں چند ایک ہیں جبکہ باقی لوگ زیادہ ہیں اور شاید ان کا پیسہ ان سیاستدانوں سے زیادہ ہو۔ خدارا! اس معاملے کو سیاست کی نذر کرنے کے بجائے قومی فریضہ سمجھ کر حل کیا جائے۔اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس کے لیے ایف بی آر اور سٹیٹ بینک کو متحرک ہونا ہوگا۔ اس کے علاوہ فرانزک فنانشل ایکسپرٹس کی خدمات بھی لی جائیں اور معاملہ واضح ہونے پر نیب اور ایف آئی اے اپنی کارروائی عمل میں لائیں۔وزیراعظم کو اس معاملے پر تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اگر بات کرنا ہی تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ جو الزامات لگے ہیں ان کا جواب دیتے لیکن وہ ماضی کے قصے قوم کو سناتے رہے۔

وزیراعظم کے اس خطاب کا ایک پہلو قابل تعریف ہے کہ انہوں نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کردیا ہے۔ اسی طرح باقی لوگ جن کا نام پاناما لیکس میں سامنے آیا ہے انہیں بھی چاہیے کہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کا کمیشن بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی کمیشن بنتے رہے ہیں لیکن ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان کے دولخت ہونے پر، اسامہ بن لادن کے مسئلے پر اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے بھی کمیشن بنائے گئے جن کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اب جو کمیشن وزیراعظم نے تجویز کیا ہے یہ اس معاملے پر مٹی ڈالنے کے مترادف ہے جسے یکسر پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتوں نے رد کردیا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کا درست طریقہ یہ ہے کہ نیب، ایف آئی اے، ایجنسیوں، فوج سمیت تمام اداروں پر مشتمل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے اور اس میں حاضر سروس چیف جسٹس بھی شامل ہوں۔پاناما لیکس ایک قومی سانحہ ہے لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینا چاہیے ۔ ماضی میں چھوٹے چھوٹے الزامات پر حکومتیں گرتی رہی ہیں لیکن یہ تو ایک بہت بڑا معاملہ ہے، دوسرے ممالک میں وزیراعظم استعفے دے رہے ہیں لہٰذا قوم کو اس پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔

ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر اقتصادیات)
پاناما لیکس ورلڈ سٹیٹ کیپٹل ازم کا ٹکراؤ ہے اور کیپٹل ازم کے ’’فری مارکیٹ اور کمپٹیشن‘‘ کے فلسفے کی نفی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیسہ چھپانے کا مقصد غلط کام ہوتا ہے اور یہ سارا پیسہ کہیں نہ کہیں منشیات ، جرائم، جنگ اور بھوک سے جڑا ہوا ہے ۔ میرے نزدیک یہ کیپٹل ازم کی نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی اور سیاسی ناکامی بھی ہے۔ سوویت یونین کے گرنے کے بعدجو دنیا ہم نے بنائی تھی وہ ان لوگوں کی وجہ سے تباہ ہورہی ہے جو سامنے آکر مقابلے میں کاروبار وسیع کرنے کے بجائے آف شور کمپنیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔

ہمیں تو پہلے سے ہی علم تھا کہ ہمارے ملک کے چند خاندان جو بہت امیر ہوگئے وہ اسی ملک کا پیسہ لوٹتے رہے ہیں۔ این آر او میں 8ہزار بیوروکریٹس تھے ، اس سکینڈل میں بھی صرف سیاستدان شامل نہیں ہیں بلکہ بیوروکریٹس ،جج اور وہ لوگ بھی شامل ہیںجن کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پہلے انگریزوں نے ہمیں لوٹا اور اب دوہری شہریت کے حامل لوگ ہمیں لوٹ کر پیسہ ملک سے باہر لیجارہے ہیں اور ہم پر حکومت کررہے ہیں۔

حالیہ معاملات قانونی شکل اختیار کرلیں گے کیونکہ کیپٹل ازم نے تو اپنے امیروں کو تحفظ دینے کے لیے اس حوالے سے قانون سازی ہی نہیں کی۔یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے اور اب پوری دنیا اس حوالے سے قانون سازی کرے گی۔ اب دنیا کا قانون ایک ہوجائے گا کیونکہ یہ منی لانڈرگ کی بہت بڑی کہانی ہے اور غیراخلاقی دنیا اسی پیسے سے بنی ہے۔ پاناما لیکس سیاسی اور اقتصادی مسئلہ بھی ہے، جب حکمران ٹیکس نہیں دیتے تو عوام ٹیکس کیوں دیں۔اس معاملے میں بڑے بڑے مافیا ملوث ہیں لہٰذا اس پر بھی کچھ نہیں ہوگا۔

وزیراعظم کے بچے دوسرے ممالک میں کاروبار کررہے ہیں، جب ہم دوسرے لوگوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں تو اپنے بچوں کو یہاں کاروبار کرنے کا کیوں نہیں کہتے؟دنیا کے حکمرانوں کو ڈر ہے کہ اگر ان کے بعد کوئی نیشنلسٹ حکومت آگئی تو نیشنلائزیشن کے ذریعے ان کا پیسہ قومی خزانے میں چلا جائے گا، اس لیے وہ بیرونی ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔

ہماری معیشت رینگ رہی ہے، ہم کیوں دنیا کی غیر قانونی معیشت کو فروغ دے رہے ہیں؟امیر لوگ ٹیکس نہیں دے رہے بلکہ ٹیکس بچانے کے لیے دوسرے ممالک میں پیسہ منتقل کررہے ہیں لہٰذا پاکستان کو ٹیکس فری کردیں تو سارا پیسہ پاکستان آجائے گا۔ ہم نہیں چاہتے کہ جمہوریت ڈی ریل ہولیکن اسی سسٹم میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لائی جائے، اس حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ آئندہ کے لیے معاملات بہتر ہوسکیں۔

ڈاکٹر شاہد اے ضیاء
(ماہر اقتصادیات)
ہم جذباتی ہوکر اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور ہم نے خود ہی یہ طے کرلیا ہے کہ جو نام سامنے آئے ہیں سب قصوروار ہیں اور سزا کے قابل ہیں۔ دنیا بھر میں ٹیکس مراعات دی جاتی ہیں لہٰذا آف شور کمپنی کا ہونا جرم نہیں ہے۔ابھی تک تو یہ بھی طے نہیں پایا کہ آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا پیسہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم نے خطاب کرکے جلدبازی سے کام لیا تاہم خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا خوش آئند ہے۔

آف شور کمپنیاں بیرونی سرمایہ کاری ہوتی ہیں، اس لیے یہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں قائم ہیں اور سوئزرلینڈ تو چل ہی بیرونی سرمایہ کاری پر رہا ہے۔پاناما لیکس میں دو سو سے زائد لوگوں کے نام ہیں اور ابھی تک یہ طے نہیں پایا کہ یہ پیسہ ڈائریکٹ پاکستان سے گیا ہے۔ اس معاملے کا شور بہت زیادہ مچ گیا ہے اور اب آئس لینڈ کے وزیراعظم کی مثال دی جارہی ہے کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ آئس لینڈ اور پاکستان میں بہت فرق ہے، ہم وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے جذباتی فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس مسئلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے بلکہ بہتر طریقے سے معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔

پاناما لیکس میں حاضر سروس اور ریٹائرججوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں توجوڈیشل کمیشن پر بھی تحفظات آسکتے ہیں۔اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے کسی بھی کمیشن یا کمیٹی میں ایف بھی آر، ایف آئی اے اور نیب کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔اس معاملے میں وزیراعظم نواز شریف کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے خاندان کا نام ہے اور اس کے علاوہ دیگر سیاسی خاندانوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔

پیسہ بنانا ہمارا قومی مشغلہ ہے لیکن جب تک اس پیسے کے بارے میں ثابت نہیں ہوجاتا کہ غیرقانونی ہے تب تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاناما میں ہمیں معلومات تک کتنی رسائی ملتی ہے اور ہم ان سے کیا مطالبہ کرتے ہیں۔ آف شور کمپنی ہونایا اس میں پیسہ ہونا کوئی برائی نہیں ہے ، اس میں ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے اور پوری دنیا میں بزنس مین وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ٹیکس میں چھوٹ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔