مذاق مذاق میں

عباس اطہر  بدھ 14 نومبر 2012
 Abbasather@express.com.pk

[email protected]

اصغر خان کیس کے حوالے سے الیکشن کمشنر کا یہ جملہ کسی نئی حقیقت کو آشکار نہیں کرتا کہ مجرم ثابت ہونے والے سیاستدان نااہل ہو جائیں گے، انھوں نے معمول کا ایک اصولی بیان دیاہے۔

پولیس افسر ہوں، وزارت داخلہ یا امن و امان سے متعلق ادارے اِس نوعیت کے اصولی بیانات کثرت سے جاری کرتے رہتے ہیں۔ جن کا لب و لباب یہ ہوتا ہے ’’کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ کرپشن کے مجرموں سے لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی واپس لی جائے گی۔‘‘ اِس حوالے سے الیکشن کمشنر کے بیان کا اصولی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ضرور باندھی جائے گی۔ دیر لگے گی تو اس بات پر کہ گھنٹی کون باندھے گا اور اس کے بعد کچھ مدت اس جستجو میں بھی لگ سکتی ہے کہ گھنٹی آئے گی کہاں سے۔ اصغر خاں کیس میں میاں نواز شریف کا اعتماد قابل غور اور قابل توجہ ہے۔

انھوں نے کہہ دیا ہے کہ جس سے چاہیں تحقیقات کرا لیں۔ چاہے تو ایف آئی اے سے کرا لیں بلکہ ایف آئی اے ہی سے کرائیں۔ میں نے کسی سے پیسے لیے نہ ملاقات کی، اس اعتماد کے پیچھے دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انھوں نے واقعتاً کسی سے پیسے نہیں لیے، دوسری صورت میں کچھ بدظنی شامل ہو سکتی ہے اور وجہ یہ ہے کہ انھوں نے پیسے تو لیے لیکن اس کا کوئی ثبوت کسی کتاب، کسی کیمرے یا کسی گواہ نے پکڑنے نہیں دیا۔ یونس حبیب کے بیان کو پڑھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی گواہ موجود ہی نہیں تھا۔ یہ پیسے، یونس حبیب کے مطابق ایک عام آدمی نے نواز شریف کو دیے اور اس کا کچھ پتہ نہیں۔

پتہ چل جائے تب بھی وہ محض ایک شخص ہے۔ جو عدالت میں دعویٰ کرسکتا ہے لیکن جب تک وہ اپنے حق میں کوئی گواہ نہیں لاتا، اس کا دعویٰ ثابت نہیں ہو سکتا۔ گویا کام بہت ہی لمبا ہے۔ یونس حبیب کہتے ہیں ان کے پاس رسید نہیں ہے، اس لیے کہ ایسے معاملات میں رسید نہیں لی جاتی۔ اگر رسید ہی نہیں لی جاتی تو پھر کیس میں باقی کیا رہ جاتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اس کیس کا سارا فیصلہ محض اصولی ہے، عملی طور پر کیس میں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کیس کی تفتیش ایف آئی اے سے کرائی جائے یا نیب سے یا غیر ملکی اداروں مثلاً اسکاٹ لینڈ یارڈ سے ہی کیوں نہ کرائی جائے، ایک ہی بات ہے۔

اس کیس میں کسی پر الزام ثابت ہوتا نظر آتا ہے تو وہ سابق جرنیل صاحبان ہیں جو اعتراف کر چکے ہیں کہ’’ انھوں نے جو کیا صدر مملکت کی ہدایت پر کیا جو سپریم کمانڈر تھے۔ ہمارے افسران ایوان صدر کے غیر قانونی احکامات پر عمل کیلیے مجبور تھے۔‘‘ یہ وہ بات ہے جو دونوں سابق جرنیل حضرات اپنی صفائی میں کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر کیس چلا۔

ابھی تو یہ واضح ہی نہیں ہے کہ ان دونوں حضرات پر کیس چلے گا بھی یا نہیں۔ موجودہ حکومت میں تو یہ دم خم نظر نہیں آتا۔ زیادہ تر حضرات کا خیال ہے کہ اس کیس میں حکومت چوہدری شجاعت کے فارمولے پر عمل کرے گی یعنی ’’چھڈو جی، مٹی پائو‘‘ ۔ اداروں کے وقار کے حوالے سے آرمی چیف کے گزشتہ ایک ہفتہ پرانے بیان کے بعد حکومت تو اور بھی محتاط ہو جائے گی اور بعض وزیروں کے یہ بیانات اخباری فائلوں میں دفن ہو کر رہ جائیں گے کہ سابق جرنیلوں کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ اور جب یہ کارروائی ہی ’’مٹی پائو‘‘ کے اصول کی نذر ہونی ہے تو نواز شریف یا ان تمام سیاستدانوں کے لیے جن کے نام غلط یا صحیح طور پر اس کیس میں سامنے آئے، اُن کی حقیقت کیا ہے اور انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

اس تناظر میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے لیڈر چوہدری نثار کے اس اختلاف کو بھی اصولی سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہیے جو انھوں نے اپنے قائد نوازشریف سے کیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کے اس بیان کے باوجود کہ وہ اصغر خاں کیس کی تفتیش ایف آئی اے سے کرانے کے لیے تیار ہیں، میں (نثار علی) اس موقف پر قائم ہوں کہ تحقیقات کے لیے ایف آئی اے قابل قبول نہیں۔ چوہدری نثار جانتے ہیں کہ جب تحقیقات ہی نہیں ہونی تو ایف آئی اے کے خلاف اتنا ’’ٹھوس موقف‘‘ اختیار کرنے میں کیا ہرج ہے۔

جس طرح عدالت نے ایک اصولی فیصلہ دیا اور جس طرح الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے اطلاق کے بارے میں ایک اصولی اعلان کیا بالکل اسی طرح سے چوہدری نثار کا یہ اختلاف بھی محض اصولی ہے۔ اسے کسی تنازعہ کا دیباچہ سمجھنا بھی بے معنی ہے۔ اصل میں چوہدری صاحب محض یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایف آئی اے رحمن ملک کے گھر کی لونڈی ہے حالانکہ رحمن ملک کا نام نظریہ ضرورت کے تحت ’’خالی جگہ پر کرنے‘‘ کے لیے لکھا گیا ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو۔ ایف آئی اے وزیر داخلہ کے گھر کی لونڈی ہوا کرتی ہے، ایسی لونڈی جو خود کو وزارت داخلہ کہتی ہے۔

جس زمانے میں جو بھی وزیر داخلہ ہو، اسی کا نام خالی جگہ پر لکھا جائے گا۔ چوہدری نثار کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ اب یہ لونڈی اپنا گھر بدل لے گی، الیکشن نہ ہوئے تو عبوری حکومت کا وزیر داخلہ اسے اپنے گھر ڈال لے گا۔ اور تفتیش اگر کبھی ہوئی تو اس کے شروع ہوتے ہوتے اتنے مہینے ضرور لگ جائیں گے کہ موجودہ حکومت سبکدوش ہو چکی ہو گی اور لونڈی کا گھر بھی تبدیل ہو چکا ہو گا۔

ساری بات مذاق لگتی ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں مذاق ہی سنجیدگی ہے اور سنجیدگی ہی مذاق۔ لیاقت علی خاں کا قتل ہو یا ضیاالحق کے طیارے کی تباہی، بینظیر کو راستے سے ہٹانے کی کامیاب سازش ہو یا حکیم سعید کا قتل۔ پاکستان میں ایک سے ایک قومی المیے ہوئے ہیں اور پھر اُن سب کی تحقیقات کے نتائج ایک مذاق پر اختتام پذیر ہو گئے۔ چنانچہ اسحاق خان کے زمانے میں انتخابی دھاندلی یا آئی جے آئی بنوانے کے اقدامات کی تفتیش کا نتیجہ ان سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟

ظاہر ہے ہو ہی نہیں سکتا، مذاق مذاق میں ختم ہو جائے گا اِس مستقل سچائی کے باوجود یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ اصغر خانکیس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ پاکستان میں ایسے اصولی مذاق شروع دن سے ہوتے آئے ہیں۔ اس لیے تازہ ترین ایشو کو بھی اسی کھاتے میں رکھنا سمجھداری ہے۔ اس کیس کی کوکھ سے کچھ نہ کچھ برآمد ہونے کی توقع رکھنے والے فی الحال یہ معاملہ چھوڑیں اور یہ دیکھیں کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی خونریزی سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔