متاثرین قدرتی آفات کے رحم و کرم پر

خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ، پنجاب، اسلام آباد میں اتوار کو زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔


Editorial April 11, 2016
خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ، پنجاب، اسلام آباد میں اتوار کو زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ فوٹو؛ فائل

ISLAMABAD: خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ، پنجاب، اسلام آباد میں اتوار کو زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اس دوران5 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے، پاکستانی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق سہ پہر3 بج کر29 منٹ پر آنیوالے اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.1ریکارڈ کی گئی، اس کا مرکز چترال کے قریب پاک افغان سرحد کے علاقے کوہ ہندوکش میں تھا اورگہرائی236کلومیٹر تھی۔

بلاشبہ دنیا بھر کے سائنس دان اور طبقات الارض کے ماہرین زلزلوں، سیلابی ریلوں، سمندری طغیانی، طوفانی بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے ہولناک پیشگوئیاں کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کرہ ارض قدرتی آفات کے ایک ہولناک دورانئے میں داخل ہوگیا ہے ، اسے فطرت کی ستم رانی اور زمینی ماحول کو لاحق غیر معمولی خطرات اور بربادیوں کے ناقابل یقین مراحل سے گزرنا ہوگا ۔

ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹیں انتباہات سے بھری ہوئی ہیں، حکومتوں کو عالمی سطح پر خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ مین و آسمان کے درمیان توازن حیات و کائنات کے نئے رشتے تلاش کریں، زمینی ماحول کی بربادیوں کو روکیں تاکہ نوع انسانی کا مستقبل سفاک موسمی تبدیلیوں کی نذر نہ ہو ۔ مگر حقیقت کیا ہے؟ کیا ارباب اختیار قدرتی آفات سے ہونے والی تباہ کاریوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں، کیا ان کے ترقیاتی منصوبوں میں قدرتی آفات سے بچاؤ کی عملی ترجیحات شامل ہیں اور اگر ہیں اور ان کی روشنی میں وسیع تر مینجمنٹ کی سطح پر اتھارٹیز ، محکمے اور ذمے دار ادارے کام کررہے ہیں تو قوم کو بتایا جائے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے، ان منصوبوں کے باعث زلزلوں ، سیلابوں، طوفانی بارشوں اور زمینی و سمندری کٹاؤ سے ہونے والے نقصانات کا تدارک کس حد تک ممکن ہوا ہے۔

تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیلابوں کی صورت میں ملنے والا کروڑوں کیوسک پانی ''شرمندہ تعمیر'' بڑے ڈیموں کو فیضیاب نہیں کرسکا یا مختلف مقامات پر تعمیر شدہ چھوٹے بڑے ذخیرہ آب اس آبی دولت کوروکنے لیے تعمیر نہیں ہوسکے، یہ کوتاہی غفلت کی انتہا ہے ، حال کے حکمراں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے غافل رہتے ہوئے ایڈہاک ازم کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں ، جب کہ ان پر لازم ہے کہ مژگاں کھولیں، انہیں بارشوں ، سیلابوں ، لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلوں سے ہونے والی انسانی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں، املاک و مویشی سمیت سرسبز و شاداب اور لہلاتی فصلوں کو سیلابی ریلے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک انسانی بربادیوں سے نمٹنے کے ہر ممکن جتن کرچکے ہیں، ارباب اختیار بھی اس سمت قدم اٹھا سکتے ہیں۔ حکومت جمود توڑے، کیونکہ دہشتگردی کے ساتھ ساتھ اب ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی حشر سامانیوں کا سامنا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی ماحول سے غیر انسانی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ بھی ہیں۔ سارا قصور فطرت کا نہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے زلزلہ کے بعد تمام وفاقی اور صوبائی ریسکیو اداروں کو چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم کا کہنا ہے کہ شہریوںکی حفاظت اورامداد کے لیے تمام وسائل متحرک رکھے جائیں، تمام متعلقہ ادارے متاثرہ علاقوں میں فوری پہنچیں، متاثرین زلزلہ کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ تاہم شدت پزیر موسمی صورتحال میں غیر معمولی تبدیلیوں کے پیش نظر انتہائی غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ریکٹراسکیل پرزلزلہ کی شدت 6.6ریکارڈکی گئی جب کہ اس کا مرکز افغانستان میں تاجکستان کی سرحد کا قریبی علاقہ بتایا گیا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق پی ڈی ایم اے کے عہدیدار نے بتایا کہ سوات، بونیر اور اپردیر میں12 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں، گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اورگلیشئیر کے ٹکڑے گرنے سے کئی مکانات کو نقصان پہنچا۔ چلاس اور گلگت کے درمیان لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شاہراہ قراقرم ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہوگئی۔اسی طرح بشام، صوابی اور صوبہ کے دیگرعلاقوں میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ کالاشاہ کاکو، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، نارووال، ننکانہ صاحب، پھولنگر، اوکاڑہ، حجرہ شاہ مقیم، ساہیوال، چیچہ وطنی، پاکپتن، عارفوالا، قبولہ، بہاولنگر، ہارون آباد، ملتان' وہاڑی، فیصل آباد، جھنگ سمیت صوبہ کے دیگر شہروں میں بھی زلزلہ آیا، اسی طرح افغانستان، بھارت، تاجکستان کے متعدد شہروں میں بھی جھٹکے محسوس کیے گئے۔دیرپائیں، بالا، شبقدر اور صوبے کے دیگر علاقوں میں شدید زلزلے کے سبب ہونیوالے جانی و مالی نقصانات درد انگیز ہیں۔

زلزلے کے فوری بعد قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے اور محکمہ صحت و سول انتظامیہ کو صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے باہم مل کر مربوط انداز میں امدادی سرگرمیوں کا بندوبست کریں جب کہ زخمیوں کے علاج کے لیے ادویات اور خوراک کی کمی بھی نہ آنے دیں۔

لیکن موسمی تبدیلی اور ان آفات سے بچاؤ کے لیے اب مائنڈ سیٹ کی تبدیلی بھی ناگزیر ہے، برس ہا برس سے زلزلوں، ہولناک بارشوں ، سیلابوں اور سمندری طغیانی سے ہونے والے نقصانات کا حجم کم ہونے کی بجائے تباہ کاریوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ بارشوں ، سیلابوں اور زلزلوں سے متاثرین کے اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2010 ء کے مون سون بارشوں اور سیلابوں سے پاکستان میں متاثرین کی تعداد 2004 ء میں بحر ہند کے سونامی،2005 کے زلزے اور2010 ء میں ہیٹی کے زلزلے سے زیادہ ہے۔ نیوزویک نے 2015 ء میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں مزید ہولناک زلزلوں اور زیر زمیں ساختیاتی ارتعاش اور گرائنڈنگ پلیٹس کی لرزش و جنبش کی بربادیوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ موسمیاتی تغیرات کا ادراک کیا جائے اور قدرتی آفات کے رحم و کرم پر قوم کو بالکل نہ چھوڑا جائے۔

مقبول خبریں