خان صاحب، آپ آٹھ لاکھ کے مقروض ہیں

اقبال خورشید  پير 11 اپريل 2016

آپ کا دعویٰ ہے کہ پاناما لیکس نے آپ کے موقف کی تصدیق کردی اور مجھے آپ کے دعوے پر کوئی اعتراض نہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ آپ نے مخالفین پر اخلاقی فتح حاصل کرلی،آپ آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، احتجاج کی کال دینا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، جوجی چاہے کیجیے۔ اسلام آباد میں دھرنا دیں یا راؤنڈ میں۔ یہ ہمارا دردسر نہیں۔ہم تو فقط آپ کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں صاحب کہ آپ آٹھ لاکھ کے مقروض ہیں۔

آپ کو یہ ناگوار گزرا کہ شوکت خانم جیسے فلاحی ادارے کو اِس معاملے میں گھسیٹا گیا۔ حکومت مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے آزما رہی ہے، وزراء جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔ آپ کی تمام باتیں سر آنکھوں پر۔ مگر جناب، ہمیں ان کی پروا نہیں۔ ہماری شکایت تو فقط یہ کہ آپ آٹھ لاکھ کے مقروض ہیں۔

یہ قرض آپ پر تین سال قبل چڑھا تھا۔ یہ 2013 کی بات ہے۔ وہ زمانہ ، جب آپ اپنے اوج پر تھے۔جب نوجوان آپ کے دیوانے تھے۔بچوں اور بوڑھوں نے آپ سے امید باندھ لی تھی۔ صحرائے تھر سے افغان سرحد تک آپ کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔لوگوں کی زبان پر تبدیلی کا گیت تھا، آنکھوں میں امید تھی۔ بس، اسی سنہری زمانے میں آپ پر آٹھ لاکھ کاقرض چڑھا، مگر بدقسمتی سے پھر آپ اس قرض کو یکسر بھول گئے۔ کبھی ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ قرض آپ پر تب چڑھا تھا، جب آپ نے ایک عہد کو دیوانہ بنا رکھا تھا، ہزاروں لوگ آپ کو سننے کے لیے جلسہ گاہ میں امڈ آتے، کتنے ہی گھرانوں نے اپنی برسوں پرانی سیاسی وابستگی ترک کرکے آپ کی حمایت کی۔ الیکشن ہوا، تو لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ امیدوار کون ہے، اس کا نام کیا ہے۔ ان کے ذہنوں میںفقط آپ کا عکس تھا، تبدیلی کا نعرہ تھا، انھوں نے بلاخوف وخطر بلے پر مہر لگادی۔بس، اسی روز آپ آٹھ لاکھ کے مقروض ہوگئے۔

یہ آٹھ لاکھ کراچی کے وہ شہری تھے، جنھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ کی حمایت کی کہ آپ کی انتخابی مہم کا محور پنجاب اورخیبر پختون خواہ تھا، یہ آٹھ لاکھ کراچی کی وہ مائیں بہنیں اوربچے تھے، جنھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ کو ووٹ دیا کہ تحریک انصاف کراچی میں تنظیم سازی میں سنجیدہ نہیں۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھوں نے یہ جانتے ہوئے بلے کو مہر لگائی کہ آپ کراچی کی جنگ کم ازکم اِس ہلے میں تو نہیں جیتنے والے۔یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے یہ جانتے ہوئے آپ کا ساتھ دیا کہ انھیں اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔

وہ زیر عتاب آسکتے ہیں۔ انھیں آپ سے محبت مہنگی پڑسکتی ہے۔انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ کو ووٹ دیا کہ کراچی میں روٹی سے سستی گولی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ مخالفین کے شکار میں ماہر ۔ عوام پر دہشت طاری کرنے کے لیے تشدد نہیں، قتل کرنے کے قائل ۔خان صاحب، ان آٹھ لاکھ افراد نے یہ جانتے ہوئے آپ کو ووٹ دیا کہ انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔

2013 میں تحریک انصاف کو کراچی میں بسنے والے پشتون، پنجابی اور دیگر قومیتوں نے ووٹ دیا، اوربھرپور دیا، لیاری بھی آپ کی جانب متوجہ ہوا۔ البتہ اکثریت اُن افراد کی تھی، جنھوں نے ماضی میں نہ تو پی پی کو ووٹ دیا تھا، نہ ہی ن لیگ کو۔ یہ وہ لوگ تھے، جنھیں وفاقی حکومت خال خال ہی درخوراعتنا ء جانتی کہ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعتوں کا کراچی میں کوئی خاص ووٹ بینک نہیں تھا۔یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے ماضی میں جماعت اسلامی کو کسی حد تک سراہا ضرور، مگر اپنی قسمت کی کنجی اسے نہیں سونپی۔ یہ وہ تھے۔۔۔ جن کی نمایندگی کی دعوے دار ایم کیو ایم تھی۔

جی ہاں خان صاحب، 2013 میں آپ کو جو آٹھ لاکھ ووٹ پڑے، اُس کی اکثریت اردو بولنے والوں کی دین تھی۔ ان لوگوں کی، جنھیں مہاجر اورکبھی کبھی ہندوستانی کہا جاتا ہے۔ جو دھرتی سے جڑے بھی ہیں، جدا بھی ہیں۔ آپ کے ووٹرز میں اکثریت ان لوگوں کی تھی، جو کل تک ایم کیو ایم کو ووٹ دیا کرتے تھے۔ گلشن اقبال، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، بہادر آباد،نارتھ کراچی، اردو بولنے والوں کے ان اکثریتی علاقوں میں آپ کو اتنے ووٹ پڑے کہ تجزیہ کار انگشت بدنداں رہ گئے، آپ کی مسرت میں بھی حیرت کی آمیزش تھی۔ ادھر ایم کیو ایم کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ذرا ان آٹھ لاکھ ووٹرزکے بارے میں سوچیے۔وہ آپ کی محبت میں کس حد تک گئے۔

انھوں نے فقط برسوں پرانی سیاسی وابستگی ترک نہیں کی، بلکہ جب آپ نے کراچی میں دھاندلی کے خلاف دھرنوں کا فیصلہ کیا، تو یہ ووٹرز اپنی جان کی پروا کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئے۔ دو تلوار کا دھرنا کوئی معنی نہیں رکھتا حضور۔ وہ بے وقعت تھا کہ وہ پوش اور محفوظ علاقہ ۔کراچی نے وہ انوکھا منظر بھی دیکھا، جب جذبات سے سرشار آپ کے حامی ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، یہاں تک نارتھ کراچی کی چورنگیوں پر جا بیٹھے اور یہ علاقے نہ تو پوش تھے، نہ ہی محفوظ۔ اپنے حامیوں کی اتنی قربانیوں کے بعد،اُن کی جواں مردی، بے خوفی اور دلیری کے بعد آپ نے کراچی کے ووٹرزکوکیا تحفہ دیا؟تحریک انصاف کا ایک لولالنگڑا ڈھانچہ۔ زمینی حقائق سے لاعلم عہدے دار۔ ڈیفنس تک محدود قائدین۔ سیاست سے نابلد کارکن۔آپ نے کراچی کو کیا دیا؟ علی زیدی جیسا جذباتی اور نا تجربے کار لیڈر،جواپنی شکست ، اپنی ناکامی پر آگ بگولا ہوکر یہ کہہ بیٹھا ’’ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والوںکو شرم آنی چاہیے۔‘‘

افسوس۔ افسوس۔ افسوس۔ یہ وہ تحفے ہیں، جو آپ نے کراچی کو دیے۔نہ تو عمران اسماعیل دوبارہ جاوید کی نہاری کھانے آئے، نہ ہی عارف علوی نے پلٹ کر این اے 250 کے پس ماندہ علاقوں کی خبر لی۔ فیصل واڈا کے ثبوت بے معنی ثابت ہوئے۔ ضمنی انتخابات ہوئے، بلدیاتی انتخابات ہوئے، شکست، پھر شکست، پھر شکست۔ یہ ہیں وہ تحفے، جو آپ نے کراچی کے ان آٹھ لاکھ ووٹرزکو دیے، جنھوں نے 2013 میں بلے کو مہرلگائی تھی۔ جنھوں نے آپ پر اعتبار کیا تھا۔

کراچی میں تحریک انصاف اختلافات اور شکست و ریخت کا شکار ۔ گروہ بنے ہوئے ہیں۔ نامزد امیدوار آپ کے چکنے ہاتھوں سے پھسل رہے ہیں۔ گزشتہ تین برس میں ایم کیو ایم کے کمزور ہونے سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا، آپ کے منتخب کردہ لوگ اسے پر کرنے میں ناکام رہے۔ مگر شاید آپ کو اس کی پروا نہیں، شاید آپ کی دلچسپی کا محور فقط پاناما لیکس ہیں، شاید آپ کودھرنے عزیز، قوم سے خطاب کی زیادہ فکر۔۔۔ شاید آپ کراچی کو خاطر میں نہیںلاتے۔ یکسربھول گئے ہیں کہ آپ پر آٹھ لاکھ کا قرض ہے۔

خان صاحب، آج نہیں توکل، آپ کو یہ قرض چکانا ہوگا۔ ورنہ مستقبل میںآپ بھی ان ہی لوگوں کی صف میں کھڑے ہوں گے، جن کے خلاف آپ آج برسرپیکار ہیں۔افسوس۔ افسوس۔ افسوس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔