عبادت ِ روزہ کی رُوح

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
’’تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو اسے بے ہودہ گفت گو اور شور شرابے سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ (الحدیث)

’’تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو اسے بے ہودہ گفت گو اور شور شرابے سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ (الحدیث)

ویسے تو تمام عبادات اﷲ تعالیٰ کے لیے ہیں اور ہر عبادت کی روح اور مقصد اس کی رضا کا حصول ہے، چاہے وہ خالص بدنی عبادات ہوں یا خالص مالی عبادات یا دونوں کا مجموعہ ہو۔ مگر عبادات کے اس پورے نظام میں روزے کی عبادت کو اﷲ تعالیٰ نے اعلیٰ وصف اور امتیازی شان سے نوازا ہے۔ 

ارشاد باری ہے:’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کیوں کہ بندہ اپنی خواہش نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے۔‘‘

حضور نبی کریم  کا ارشاد پاک ہے:’’تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو اسے بے ہودہ گفت گو اور شور شرابے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اور اگر کوئی بدزبانی اور لڑائی جھگڑے پر اتر آئے تو روزہ دار صرف یہ کہے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ بندوں کے اعمال خیر کے اجر وثواب میں اضافے کا معیار اور کسوٹی کیا ہے؟ روزے میں ایسی کون سی خصوصیت ہے جو دیگر عبادات کو حاصل نہیں ہے۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ایک ہی نوع یا نام کی اشیا ہوتی ہیں، لیکن ان کی قیمت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس فرق کا انحصار اس چیز کے معیار پر ہوتا ہے۔

یہی صورت حال بندے کے اعمال خیر کی ہے، کسی بھی عبادت اور نیکی کا جوہر اور روح ’اخلاص‘ ہے۔ اخلاص نیت سے مراد یہ ہے کہ انسان جو نیکی کرتا ہے، اس سے محض رضائے الٰہی مقصود ہو، کوئی طمع، لالچ، ترغیب وتحریص یا کسی کا خوف اس کا باعث نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمل خیر چاہے بہ ظاہر کتنا ہی پرکشش، دل فریب اور دل آویز کیوں نہ ہو، اگر اس سے رضائے الٰہی مقصود نہیں ہے تو وہ ’ریاکاری‘ اور دکھاوے کے زمرے میں آتا ہے اور آخرت میں اس کا کوئی اجر نہیں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اے مومنو! احسان جتاکر اور (مفلس و نادار کو ذہنی) اذیت پہنچا کر اپنے صدقات ضائع نہ کرو، اس شخص کی مانند جو لوگوں کو دکھاوے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور (درحقیقت) وہ اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کی مثال اس چکنے پتھر کی سی ہے جس پر کچھ مٹی (جم گئی) ہو، پھر اس پر زور کی بارش ہوئی (جو اس مٹی کو بہا لے گئی) اور اسے اسی چکنی حالت میں لاچھوڑا ، وہ اپنی کمائی سے کسی چیز پر قادر نہیں ہوں گے۔‘‘ (سورۂ بقرہ:264)

دوسرے مقام پر قرآن نے منافق کی عبادت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی (کاہلی اور بے دلی) کے ساتھ اور (ان کا یہ عمل) محض لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے، اور اﷲ کا ذکر تو وہ کم ہی کرتے ہیں۔‘‘ (النساء :142)

ایک اور مقام پر فرمایا:’’تو افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے (ذہنی اور قلبی طور پر) غافل ہیں جو (محض) دکھاوے کے لیے (نماز پڑھتے ہیں)۔‘‘ (الماعون : 4تا 6)

اس کے بر عکس قرآن نے پر زور انداز میں اس امر کی ترغیب دی کہ بندہ اپنے ایمان وعمل کو اﷲ تعالیٰ کی ذات کے لیے خالص کردے۔ وہ صرف اپنے رب کا ہوکر رہ جائے۔ اس کے ہر عمل، سوچ وفکر کے ہر زاویے میں صرف رضائے الٰہی رچی بسی ہو، غیر اﷲ کے لیے اس کے قلب ونظر میں کوئی گنجائش نہ ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور انہیں تو فقط اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دین (اور بندگی) کو اﷲ کے لیے خالص کرکے صرف اسی کی عبادت کریں، سب سے رشتۂ بندگی و نیاز مندی توڑکر صرف اسی (رب ذوالجلال ) کے ہو رہیں۔‘‘ (البینہ : 5)

دوسرے مقام پر ایمان خالص اور جذبۂ عبادت و اطاعت کے پیکر خلوص کی کیفیت صبر و رضا کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:’’فرمادیجیے، بے شک! میری نماز، میرا حج وقربانی، میرا جینا و مرنا سب کچھ اﷲ ہی کے لیے ہے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ (الانعام :162)

ان آیات کا نچوڑ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں جس بنا پر بندے کا عمل مرتبۂ قبولیت پاتا ہے، وہ ہے اخلاص، تسلیم و رضا، صبر و استقامت اور ریا سے پاک عبادت! دراصل یہی اخلاص و بے ریائی روزے کی عبادت میں رچی بسی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بندے کی دیگر عبادات میں ریا ہوتی ہے، اخلاص نہیں ہوتا۔ ہر عبادت میں اعلیٰ درجے کا اخلاص ہوسکتا ہے، لیکن اس حدیث مبارک کا منشا یہ ہے کہ دیگر عبادات میں ریا کا امکان اور مواقع زیادہ ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی حج اس لیے کرتا ہوکہ لوگ اسے حاجی کہیں۔ کوئی صدقہ و خیرات اس لیے کرتا ہوکہ لوگ اسے بڑا فیاض سمجھیں۔ ذوق وشوق سے تلاوت اس لیے کرتا ہو کہ لوگ اسے اعلیٰ قاری تسلیم کریں۔ میدانِ جنگ میں داد شجاعت اس لیے دیتا ہوکہ لوگ اسے سورما تسلیم کریں ، لیکن روزے میں ایسی ریا کا تصور نہیں آسکتا، کیوں کہ ایک شخص دنیا والوں کے سامنے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرتا ہے تو دنیا والے اسے روزہ دار تسلیم کرلیں گے، لیکن اگر وہ ساری دنیا سے چھپ کر خلوت میں محض ایک گھونٹ پانی پی لیتا ہے یا ایک لقمہ کھالیتا ہے تو دنیا والوں کے سامنے روزے دار قرار پانے کے باوجود اس کا روزہ نہ رہا۔

لیکن جب وہ خلوت میں بھی ساری دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر ایک قطرہ بھی حلق سے نہیں اتارتا، کیوں کہ اس کا ایمان ہے کہ اگرچہ مخلوق میں سے اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، مگر خالق تو دیکھ رہا ہے اور یہ خیال صرف روزے سے پیدا ہوتا ہے اور اسی کا نام اخلاص وللّٰہیت و تسلیم و رضا ہے۔

اسی لیے اﷲ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ باقی ساری عبادت کا اجر دس سے لے کر سات سو گنا تک یا اس سے بھی دو چند وہ فرشتے بندے کے نامۂ اعمال میں لکھ دیں گے جو اس کام پر مامور ہیں، لیکن روزہ اس قاعدے وضابطے سے جدا ہے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے، میں ہی اس کی قدر و منزلت اور مرتبۂ اخلاص کو جانتا ہوں اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ اﷲ رب العزت قیامت میں روزے دار کو اپنی خصوصی تجلّیات کے فیضان اور دیدار سے نوازے گا۔ جب یہ اتنی عالی مرتبت عبادت ہے تو اس کی حفاظت بھی اعلیٰ اہتمام سے ہونی چاہیے۔

چناں چہ روزے کا کمال یہ ہے کہ زبان، آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، عقل وخرد، جسم وجاں حتیٰ کہ بندے کے ہر ہر انگ، ہر عضو اور ایک ایک روئیں کا روزہ ہونا چاہیے۔ رب چاہتا ہے کہ عابد بندہ مجسم عبادت بن جائے۔ اس کا پیکر ہستی روح بندگی میں ڈھل جائے۔ اس کے ذہن کے ہر زاویے میں صرف خالق ومالک کی یاد رچی بسی ہو۔ اس کا جو بھی عضو حرکت میں آئے، صرف اﷲ کی رضا کے لیے ہو۔ ایسے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ روزہ اور جھوٹ، غیبت، فحش کلامی، بے ہودگی، بہتان تراشی، آنکھ، کان اور دل کی شہوت رانی، لذت کوشی، کسب حرام اور اکل حرام ایک ساتھ جمع ہوجائیں ۔

یہی وہ مقام بندگی ہے کہ حدیث قدسی میں رب ذوالجلال فرماتا ہے:’’(میرا بندہ میرے مقرر کردہ فرائض کو ادا کرنے کے بعد) نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتے کرتے میری محبوبیت کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔

(اور وہ اس طرح تجلیات ربانی کا مظہر بنتے بنتے اس مرتبۂ مقبولیت پر فائز ہوجاتا ہے کہ) اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا کرتا ہوں، اگر وہ کسی چیز کے شر سے میری پناہ چاہے تو میں ضرور اسے اپنی آغوش عافیت میں لے لیتا ہوں، حتیٰ کہ میں اس کی روح قبض کرتے وقت بھی اس کی رضا کو ملحوظ رکھتا ہوں۔‘‘

سید المرسلین  نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی روزے دار ہوتو وہ بے ہودہ کلام نہ کرے، چیخے چلائے نہیں۔ اگر کوئی اس سے زبر دستی بدزبانی اور لڑائی جھگڑے کرے تو کہہ دے کہ بھائی مجھے معاف کرو، میں روزے دار ہوں۔ (یعنی میرا روزہ مجھے کسی فحش کلامی، گالی گلوچ، لڑائی جھگڑے اور بدی کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے میں تمہاری برائی کا جواب برائی سے دینے سے قاصر ہوں)۔‘‘

اس طرح وہ قرآن کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوجاتا ہے:

’’نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں۔ آپ (کسی کی) بدی کا جواب (دینا چاہیں تو) احسن انداز میں دیں، اس کے نتیجے میں جس شخص سے آپ کی دشمنی ہے، وہ آپ کا دوست بن جائے گا۔‘‘ (حمٓ السجدہ: 34)

اور اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مشقت تک محدود رکھا، ان کی روح کو نہ سمجھا، روزے کی روح پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، روزے کی حقیقت کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لیے رسول پاک کا فرمان ہے:’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک (و پیاس) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللیل ایسے ہیں جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔