بے یار و مددگار صوبہ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ کا حال الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ظہیر انور جمالی نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ کا حال الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ غلط کام کرانے ہوں یا جعلی بیعانہ بنوانا ہو تو کراچی چلے جائیں جہاں ہر کام ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی سندھ کے متعلق کہا تھا کہ ہمارا صوبہ بے یارو مددگار ہے جہاں حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کرے نہ کرے مگر عدلیہ اپنا فرض ادا کر رہی ہے اور عدلیہ اپنا فرض آئین کے تحت پورا کرتی رہے گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی بلدیاتی معاملات کے سلسلے میں درخواست کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ حکومتیں عوام کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ یہ کیس ملک کا ایک اہم کیس ہے جس کے فیصلے کے نتائج دوررس ہوں گے، اس لیے عدالت عظمیٰ فریقین کا موقف سن کر فیصلہ کرے گی۔
سندھ حکومت کی کارکردگی سے متعلق عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں اس سے قبل بھی سخت ریمارکس دیے جا چکے ہیں اور سندھ کے سابق آئی جی پولیس غلام حیدر جمالی کو ہٹانے کا بھی کہا تھا جس پر سندھ حکومت نے فوری عمل کیا ۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی آٹھ سال سے قائم موجودہ حکومت کے متعلق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان جو کچھ کہہ چکے ہیں، اس کے بعد عزت کا خیال ہوتا تو پیپلز پارٹی اپنی صوبائی حکومت کی اصلاح کرتی مگر وہ جانتی ہے کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ انھیں سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس لیے وہ سب کچھ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس لیے گزشتہ 8 سالوں سے سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر سندھ میں اپوزیشن اسمبلی میں احتجاج کرتی ہے تو شنوائی نہیں ہوتی۔ اس لیے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن جماعتوں اور سندھ کے متعدد سابق وزرائے اعلیٰ نے سندھ حکومت کے خلاف حیدرآباد سے عمرکوٹ تک ریلی نکالی اور عوامی اجتماعات میں مقررین نے سندھ حکومت پر شدید الزامات عاید کیے۔
سندھ حکومت میںکئی وزیر، مشیر اور معاونین موجود ہیں لیکن سندھ کے مسائل جوں کے توں ہیں اور عوام نے جن توقعات کو سامنے رکھ کر ووٹ دیے تھے ، وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ کہنے کو تو قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں جو ضعیفی کے باوجود اقتدار میں رہنے کے لیے کافی متحرک ہیں مگر اہم فیصلے سندھ میں کہیں اور ہوتے ہیں اور سندھ حکومت بیرون ملک سے چلائی جا رہی ہے اور حکومت چلانے کے لیے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزراء ہی نہیں اعلیٰ افسران بھی ملک سے باہر جا کر ہدایات لے کر لوٹتے ہیں۔ ہدایات لینے کے لیے جو اخراجات ہوتے ہیں اس کا پتہ تو سندھ کی حکومت کو ہو گا یا باہر آنے جانے والوں کو مگر بیرونی ہدایات پر چلنے والی سندھ کی واحد حکومت ہے جس کی مثال باقی تین صوبوں میں موجود نہیں۔
سندھ میں گزشتہ آٹھ سالوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو صوبائی حکومتیں ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بااختیار ہیں جہاں وفاقی حکومت اپنی مرضی کا چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس بھی تعینات نہیں کر سکتی کیونکہ وفاقی حکومت کی مداخلت پر سندھ حکومت وفاقی حکومت پر صوبائی خودمختاری کے نام پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام تو پہلے ہی لگا چکی ہے اور وزیراعظم نواز شریف، پی پی سے مفاہمت برقرار رکھتے ہوئے خاموش ہیں ۔
امن و امان کے سلسلے میں جو بہتری آئی ہے اس کا پورا کریڈٹ رینجرز اور حساس اداروں کو جاتا ہے اور پولیس کا اس سلسلے میں کوئی اہم کردار نہیں ہے اور سندھ حکومت کے آپریشن کپتان کو تو پتہ ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، البتہ وزیر اعظم سندھ آ کر اپنے بیان سے وزیر اعلیٰ کو خوش ضرور کر دیتے ہیں۔ رینجرز کے اختیارات کم کر کے سندھ حکومت کس منہ سے امن و امان کی بہتری کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔
سندھ کا ہر محکمہ زوال کا شکار ہے جس پر جب نیب، ایف آئی اے اور رینجرز چھاپے مارتی ہیں تو سندھ حکومت شور مچا دیتی ہے اور وزیر اعلیٰ بھی وفاقی حکومت پر برس پڑتے ہیں اور وفاقی حکومت خاموش رہتی ہے اور تین سالوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے جج صاحبان بھی خاموش نہیں رہ سکے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ سندھ حکومت اب بھی کوئی اصلاح کرتی ہے یا اپنی روایت پر ہی چلتی رہتی ہے۔