باطن کا پھول

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 13 اپريل 2016

یہودی کہاوت ہے ’’انسان جب سوچتا ہے تو خدا ہنستا ہے کیونکہ سچ اس کے ہاتھ سے نکلتا ہے‘‘ اس کائنات کی سب سے مردہ چیز اندھیرا ہے، اندھیرے میں کوئی حرکت نہیں ہے، اندھیرے میں کوئی حیات نہیں ہے، اندھیرے سے زیادہ مردہ چیز آپ کوئی نہیں پا سکتے، پتھر بھی حرکت کرتے ہیں، پہاڑ بھی سر کتے ہیں، لیکن اندھیرا بغیر حرکت کیے ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے۔

کرنیں آ کر اسے ختم کرتی ہیں اور کرنوں کے جاتے ہی اندھیرا پھر گھنا ہو جاتا ہے۔ آئیں! کچھ دیر کے لیے ہم اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیتے ہیں اور تھوڑی سی دیر کے لیے پوری دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کر لیتے ہیں اب ہم صرف اپنی زندگی اور اس کے تمام معاملات کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک لمحے میں جی صرف ایک لمحے میں ہم اس حقیقت کو جان لیں گے کہ ہم اب صرف اندھیرے ہیں اور کچھ نہیں بے جان بے حس مردہ اندھیرے جو بغیر حرکت کیے ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں، جن کے قریب سے بھی زندگی کا کوئی گزر نہیں ہمارے ارد گرد کچھ بھی ہو جائے ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے آسمان بھی آ گرے تو بھی ہم بے حرکت ہی رہیں گے۔

پوری دنیا میں آف شور کمپنیوں کے اسکینڈل پر زلزلہ آ گیا ہے تخت اور تاج اچھالے جا رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی حرکت ہوئی ہو، حرکت تو بہت دور کی بات ہے ہم میں سے کسی نے نوٹس تک نہیں لیا۔ ظاہر ہے اندھیروں نے کیا نوٹس لینا حرکت اور نوٹس انسان لیتے ہیں اندھیر ے نہیں۔ سوچتے تو انسان ہیں اندھیرے نہیں کیونکہ سوچیں زندہ چیزیں ہوتی ہیں، سوچیں ہی انسانوں کو زندہ رکھتی ہیں، انسان سانس کے ذریعے نہیں بلکہ سوچوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں اور جب انسان سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو سوچیں مرنا شروع ہو جاتی ہیں اور جب سوچیں مر جاتی ہیں تو انسان مردہ ہو جاتے ہیں اور اندھیرے ہو جاتے ہیں۔

یہ تو ہوئے ہم اور دوسری طرف ایک غول ہے جس میں لٹیرے، قبضہ خور، بھتہ خور، کمیشن کھانے والے، رشوت خور شامل ہیں جو سب کے سب نوٹ کھاتے ہیں جنہیں محلوں، ملوں، زمینوں، ہیرے جواہرات کے ذخیرے کرنے کی بیماری لاحق ہو چکی ہے جو شہر شہر، گاؤں، گاؤں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں کہ جہاں کہیں ان کو ان کی پسندیدہ چیز نظر آئے تو اس پر اپنی ملکیت کا جھنڈا نصب کر دیں یہ بظاہر آپ کو انتہائی مہذب نظر آئیں گے بڑی بڑی عالیشان گاڑیوں میں گھومتے خوشنما سوٹوں میں ملبوس مسرور کن خوشبوں میں ڈوبے انگلش میں باتیں کرتے لیکن جب یہ اپنا لبادہ نوچ کر پھینکتے ہیں تو شریف آدمی وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے، خوف سے کانپنے لگتا ہے یہ ویسے تو آپ کو ایک ہی نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ سب کے سب ایک دوسرے کے بھی دشمن ہیں۔ ایک دوسرے کو نوچنتے کاٹتے درندے یہ اس قدر بھوکے لالچی اور وحشی واقع ہوئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر وحشی جانور تک چھپ جاتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ وہ کس عذاب میں مبتلا ہیں وہ سب کے سب اپنے آپ کو دنیا کے ذہین ترین، شاطر اور سمجھدار انسان سمجھے بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نارمل اور تندرست بھی۔ حالانکہ وہ اگر اپنے آپ کو غور سے دیکھیں تو انھیں اپنے آپ میں ان گنت بیماریاں صاف نظر آ جائیں گی، جنہیں دیکھ کر انھیں اپنے آپ سے گھن آنے لگے گی۔

روس کا کرلیان ایک معمولی فوٹوگرافر تھا لیکن اسے شوق تھاکہ وہ ماورائے بصارت مظاہرات کو عکسبند کر سکے ایک مرتبہ فوٹو لیتے وقت اس کا ہاتھ کیمرے کے سامنے آ گیا اور ہاتھ کی تصویربن گئی وہ اس تصویر کو دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ اس تصویر میں اس کی ایک روگی انگلی بھی نظر آ رہی تھی جب کہ اس کی وہ انگلی حقیقت میں بالکل ٹھیک تھی لیکن فوٹو میں بالکل بیمار نظر آ رہی تھی۔

اس واقعے سے چھ مہینے بعد اس کی وہ انگلی واقعی خراب ہو گئی۔ کرلیان نے اس وقت اپنے ہاتھ کی تازہ تصویر لی تو وہ بالکل پہلے والی تصویر سے ملتی جلتی تھی۔ اس سے کرلیان کو خیال آ گیا کہ بیماری پہلے ہی اس کے جسم کے اندر موجود تھی لیکن اسے انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اس سے نیا باب کھل گیا اور اس نے حساس فلموں کا استعمال شروع کر دیا اس نے کلیوں کی تصاویر لیں تو پھولوں کی تصویر آ گئی یہ پھول چار دن بعد کھلنے والا تھا لیکن اصل میں اس کا باطنی پھول پہلے کھل جاتا ہے اور پھر اس باطنی پھول کے حکم کے مطابق پھول کی پنکھڑیاں کھلتی ہیں ۔

وہ باطنی پھول، اس پھول کی پروگرامنگ ہے جو اس قدر لطیف اور حساس ہے کہ انسانی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتی۔ اس حیرت انگیز دریافت کے بعد کرلیان نے بہت تحقیق کی اور اس بات کو ثابت کر دیا کہ ’’جسم سے بھی لطیف اور حساس ایک جسم ہے‘‘ اور وہ ’’جسم کا جسم‘‘ ہمارے جیون رس کا جسم ہے یاد رکھو تم سب کے سب بیمار ہو لیکن تمہیں اس وقت اس بات کا احساس نہیں ہے کیونکہ تم ابھی اپنے آپ کو تندرست دیکھ رہے ہو لیکن در حقیقت ان گنت بیماریوں نے تمہارے جسم پر قبضہ کر رکھا ہے جو بہت جلد ظاہر ہو جائیں گی۔ اس بات کا تمہیں جتنی جلدی احساس ہو جائے گا تو تمہارے حق میں اتنا ہی بہتر ہو گا کیونکہ اگر وقت گزر گیا تو پھر تم لا علاج ہو جاؤ گے۔

اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک نارمل اور تندرست آدمی بھوک کا غلام نہیں ہوتا وہ دوسروں کے جینے کے حق کو کبھی نہیں چھینتا، ان کی خوشیوں پر کبھی ڈاکا نہیں ڈالتا ہے وہ ان کے خواب کبھی چوری نہیں کرتا ہے وہ ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کبھی قتل نہیں کرتا ہے بھوک تمام جرائم کی ماں ہے۔ ایک دفعہ بھوک جس سے چمٹ جائے اتنی آسانی سے اس کی جان نہیں چھوڑتی ہے بلکہ اکثر اس کی جان ہی لے لیتی ہے۔ انسانی تاریخ میں بھوک کے ہاتھوں انسانوں نے بہت اذیتیں اٹھائی ہیں۔

اسی بھوک کے ہاتھوں وہ بہت ذلیل و خوار ہوئے ہیں ہم سب تمہاری مدد کر نا چاہتے ہیں تمہیں ان اذیتوں اور بھوک سے نجات دلوانا چاہتے ہیں لیکن اگر تم اسی بھوک سے چمٹے رہنا چاہتے ہو تو پھر اور بات ہے لیکن بس آخری بات یہ یاد رکھنا کہ ان اندھیروں نے اپنے اندر سے اٹھنے والی ننگی آوازوں کو اگر سن لیا اور ان کے اندر سوال پیدا ہو گئے تو پھر کیا ہو گا یہ جو سوال ہیں یہ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں جب ایک سوال پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ہزاروں بچوں کو جنم دے دیتا ہے پھر کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ بچے جائز ہیں یا ناجائز۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔