صفائی کا موسم

اوریا مقبول جان  جمعرات 14 اپريل 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کیا کبھی کسی نے ایک لمحے کے لیے اس بات پر غور کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج سے چودہ سو سال قبل مخبر صادق، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب امت کو قیامت سے قبل ہونے والی بڑے جنگ یعنی ملحمتہ الکبریٰ کے بارے میں خبردار کیا تو آپ نے مسلمانوں کی طاقت و قوت کے تین مراکز بتائے، ایک یمن، دوسرا شام اور تیسرا خراسان جسے موجودہ دور میں افغانستان کہتے ہیں۔

مسلمانوں نے تو ایک حدیث مبارکہ پر ایک لمحے کے لیے بھی غور نہیں کیا لیکن وہ جن سے ان تینوں علاقوں کے غیور مسلمانوں نے جنگ کرنا ہے یعنی مسیحی یورپ اور یہودی، انھوں نے اس حدیث کو لگتا ہے غور سے پڑھا ہے اور پھر ان تینوں علاقوں پر اپنی پوری قوت اور طاقت سے تباہی اور بربادی مسلط کر رکھی ہے۔ چونکہ خراسان کے لشکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ناقابل تسخیر بیان کیا اور بتایا ہے کہ وہاں سے اٹھنے والے پرچم ایلیا یعنی بیت المقدس میں گاڑ دیے جائیں گے۔ اسی لیے گزشتہ 36 سالوں سے خراسان یعنی افغانستان پر موت کا آسیب مسلط ہے۔

ان میں سے طالبان کے پانچ سال امن و امان کے نکال بھی دیے جائیں تو اس دوران بھی پانچ فیصد افغانستان ایسا ضرور تھا جہاں امریکا، بھارت اور ایران شمالی اتحاد کی مدد کر رہا تھا تا کہ اس خطے میں تباہی اور قتل و غارت کے بادل ہمیشہ منڈلاتے رہیں۔ افغانستان اور شام دو ایسے مقامات ہیں جہاں کے عوام پر واضح طور پر موت مسلط کی گئی۔ تیسرا علاقہ یمن باقی رہتا تھا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ وہاں کے لوگ آخری بڑی جنگ میں نصرت کے لیے شام پہنچیں گے۔

ان دونوں ممالک میں خطرے کی علامت کے طور پر دو گروہوں کو ابھارا گیا اور پھر ان کے نام پر امریکا اور اس کے اتحادی عرب ممالک اور روس اور اس کے اتحادی ایران، عراق اور شام ان کو کچلنے کے لیے تمام تر فضائی اور زمینی قوتیں لے کر میدان میں نکل آئے۔ یہ دو گروہ ہیں دولت اسلامیہ یعنی داعش اور یمن میں حوثی قبائل۔ دونوں کی کارروائیوں کا آغاز 2014ء کے آخری مہینوں میں ہوا۔ دونوں پہلے طوفان کی طرح ابھرے۔ شام میں داعش کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادی اور روس کے حواری سب اکٹھے داعش کو کچلنے پر متفق ہوئے لیکن حقیقتاً نشانے پر وہ گروہ تھے جو داعش کے وجود میں آنے سے بہت پہلے وہاں بشارالاسد کی ظالمانہ حکومت کے خلاف کئی دہائیوں سے جنگ لڑ رہے تھے۔

جن کی روح اور رگ رگ میں اس جذبے کی لگن موجود تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو حافظ الاسد کے زمانے سے قتل اور ظلم برداشت کر رہے تھے اور پھانسیوں پر جھول رہے تھے۔ یہ تمام کے تمام جب حسان عبود کی سربراہی میں اتحادالصف کے عزم کے تحت ایک ایسے اتحاد میں اکٹھے ہوئے جن میں بارہ چھوٹے بڑے گروہ شامل تھے تو شام و عراق کی سرزمین پر داعش نے قدم جما لیے اور اس گروہ پر پہلا شدید حملہ حلب میں ہوا جہاں حسان عبود سمیت 80 کے قریب اہم رہنماء شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی یہاں موجودگی کی اطلاع داعش کی جانب سے بشارالاسد کی افواج کو دی گئی تھی۔ اس کے بعد جنگ کا پانسہ دو طاقتوں کے حق میں پلٹا ایک حکومتی افواج اور دوسری داعش۔ دونوں ایک دوسرے کی دشمن ہیں لیکن دونوں ایک ساتھ ان گروہوں سے لڑ رہی ہیں اور آدھی سرحد پر بشار کی فوج اور آدھی پر داعش جنگجو امن سے ہیں۔

دوسرا میدان ہے یمن، یہاں پر حوثی قبائل کے خلاف سعودی عرب کے حملے جاری ہیں اور اب تو 34 ممالک کا اتحاد بھی بن چکا ہے۔ لیکن صرف آغاز کو دیکھیے، اکتوبر 2014ء میں جب حوثی قبائل کی جنگ کا آغاز ہونے والا تھا تو اس سے ذرا پہلے سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہزادہ بندر کی ملاقات حوثی لیڈر صالح ہبیرہ سے لندن میں ہوتی ہے تا کہ وہ اخوان المسلمون کی زیر اثر اصلاح پارٹی سے لڑنا شروع کرے۔ ڈیوڈ ہیرست David Hearst کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2014ء کے حوثی حملے جبوتی کے اس امریکن اڈے کی نگرانی میں ہوئے تھے جہاں سے سی آئی اے کے ڈرون اڑتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ حوثی قبائل نے صنعا پر قبضے کے بعد امریکی ایمبیسی کو خصوصی طور پر مسلح دستوں سے تحفظ دیا۔ تین سال قبل جب علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف یمن کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے تھے تو امریکا اور سعودی عرب نے مذاکرات کے ذریعے ہادی منصور کو وہاں سربراہ بنوایا تھا۔ اب وہاں خانہ جنگی ضروری تھی۔

اس لیے علی عبداللہ صالح کو خفیہ طور پر متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر پہنچائے گئے تاکہ وہ حوثیوں سے لڑے۔ صنعا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالسلام الربیدی نے اس پر ایک طویل مضمون تحریر کیا کہ کس طرح حوثی، صالح کی افواج اور امریکی خفیہ طور پر متحد ہیں تا کہ وہاں پر موجود ان مجاہدین کا خاتمہ کیا جا سکے جو انصار الشریعہ کے نام سے متحد ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ یمن میں اس خانہ جنگی کا اہم مقصد یہ تھا کہ اس کا براہ راست اثر سعودی عرب کے مشرق میں ضرور پڑے گا اور وہاں لوگ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ چونکہ یمن میں حوثی قبائل کو بظاہر مدد ایران دے رہا تھا لیکن ان کے آغاز کے حملوں میں امریکا اور سعودی عرب کی ایک درپردہ سپورٹ بھی شامل تھی۔ مسئلہ خانہ جنگی ابھارنا تھا۔

یمن اور شام کی جنگوں سے ایک مقصد حاصل کیا گیا اور وہ یہ کہ امت مسلمہ گروہ در گروہ تقسیم ہو کر لڑ رہی ہے۔ دو بنیادی گروہ ہیں ایک سعودی عرب کے زیر اثر ا ور دوسرا ایران کے زیر سرپرستی۔ یوں تو ان دونوں گروہوں کی تقسیم اب مسالک کے نام پر ہو چکی جو اس امت کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے لیکن یہ دراصل ایران اور سعودی عرب کی خطے میں بالادستی کی جنگ ہے۔

اس جنگ کو وہ طاقتیں ہوا دے رہی ہیں جو یہاں مستقل خانہ جنگی اور قتل و غارت دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان خطوں میں اگر مسلمان گروہ در گروہ  لڑتے رہیں گے تو وہ آخری جنگ یا معرکہ جس پر یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں مذاہب کے لوگ یقین رکھتے ہیں‘ ان مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی۔ تینوں کہتے ہیں کہ فتح کی بشارت ہمیں دی گئی ہے۔ اس معرکہ کی سرزمین میں اگر گروہی لڑائی جاری رہی تو مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور اہل مغرب اس کا اہتمام کر رہے ہیں۔

پورا مشرق وسطیٰ مسلک کی جنگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ لیکن وہ خطہ جہاں سے نصرت اور مدد کے لیے ایسے قافلے روانہ ہونے ہیں جو ایلیا میں گاڑ دیے جائیں گے یعنی خراسان وہاں طالبان نے اپنے پہلے امیر ملا محمد عمر کے نام پر ایک نئے جہادی پلان کا آغاز کیا ہے اور اس بہار کے آغاز سے ہی ان کی فتوحات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ امریکا اور افغان فوج کی پسپائی اس سے واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس وقت پچاس فیصد سے زیادہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول مستحکم ہو چکا ہے۔

لیکن جس وقت شام، یمن اور عراق کا معرکہ برپا ہو گا تو اسی دوران سید الانبیاء نے ایک اور معرکے کی بشارت بھی دی ہے اور وہ ہے غزوہ ہند۔ یہی معرکہ ہے جس کے لیے دنیا کا واحد ملک پاکستان تخلیق ہوا جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور گزشتہ ساٹھ سالوں سے وہ ہند سے ایک جنگ کے عالم میں ہے۔ لیکن رسول اکرمؐ نے جس جنگ کا ذکر کیا وہ اس وقت برپا ہونا ہے جب شام میں آخری معرکہ ہو رہا ہو گا۔ آپ نے فرمایا ’’تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا، اللہ ان کو فتح فرمائے گا، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے، پھر وہ لوٹیں گے تو شام کی طرف عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔

(کتاب الفتن، النہایہ الفتن، الملاحم)۔ پاکستان کی سرزمین سے ہند کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ عین اس وقت ہو گی جب شام میں مسلمان قوتیں مغربی طاقتوں کی اس فوج سے برسرپیکار ہوں گی جو اسی 80 جھنڈوں تلے ہو گی اور ہر جھنڈے تلے 12 ہزار لوگ ہوں گے (حدیث)۔ ایسے میں یہ میدان اب جس قدر سج چکا ہے تو یوں لگتا ہے اب سرزمین پاکستان پر بھی صفائی کا موسم آنے کی نوید ہے۔ ایک بہت بڑی صفائی جس کے بعد وہ قیادت برسراقتدار ہو گی جس نے سید الانبیاءؐ کی بشارت کے مصداق ہند کا معرکہ لڑنا ہے۔

یوں لگتا ہے صفائی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے۔ ظالم، بدیانت، چور، نکمے اور منافق بے نقاب ہوتے جائیں گے۔ ان کے چہروں پر چڑھے مصنوعی پاکبازی اور دیانت کے خول تڑاخ پڑاخ کر کے ٹوٹتے جائیں گے۔ یہ وہ مرحلہ ہو گا جو اس سرزمین کے مسلسل خاموش عوام کے سیلاب میں بدلے گا۔ کس قدر قریب ہے وہ مرحلہ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے لیکن آثار ایسے ہیں کہ ہم اس میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک تماشہ ہے کہ جس کا آغاز ہے۔ صفائی کا ایک موسم ہے جس کی بشارت مدت سے اہل نظر دیتے چلے آئے، لگتا ہے اس کا آغاز ہو چکا۔ سیلاب آتا ہے تو خوفزدہ لوگ اور جانور سب سے پہلے بھاگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔