آخری فیصلے کا انتظار کرو

اوریا مقبول جان  ہفتہ 21 جولائی 2012
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بستیوں کی اکثریت جب یہ فیصلہ کر دے کہ جو ہم کہیں گے وہی حق ہے، جسے ہم پسند کرتے ہیں وہی بہتر ہے، خواہ وہ بددیانت ہو، جھوٹ بولے، عہد شکنی کرے، دھوکا دہی سے اپنی قسمت بہتر بنائے تو پھر تاریخ کے اوراق ان بستیوں کے عبرت ناک انجام سے بھرے واقعات کی خون آلود سیاہی سے بھرے پڑے ہیں اور تباہی و بربادی، عذاب اور دہشت کے آثار آج بھی دنیا کے ہر خطے میں کھنڈرات کی صورت میں محفوظ ہیں۔ جس کائنات کو تخلیق کرنے والا واحد، یکتا اور لاشریک رب کتنے طمطراق کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ صرف وہی ہے جو طاقت کا سرچشمہ ہے۔

انسان کو جو طاقت، ہمت، قوت اور صلاحیت میسر ہے اسی کی عطا کردہ ہے۔ اسی کی سدا رہنے والی بادشاہی کے مقابلے میں جب لوگوں کی اکثریت ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اپنا قد بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ ہم جسے چاہیں تخت پر بٹھا دیں اور جس سے چاہیں تخت چھین لیں۔ جسے چاہیں عزت دیں اور جسے چاہیں ذلت‘ تو مخلوق اس تاج کو پہننے کی جسارت کرتی ہے جو صرف میرے اﷲ کو زیبا ہے۔

ایک ایسے دعوے کا اعلان کرتی ہے جو اﷲ بار بار کرتا ہے۔ وہ کلمہ جسے ہم شیطان سے نجات کے لیے بولتے ہیں ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ اس میں کہیں شیطان کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی لعنت اور پھٹکار کی گئی ہے کہ وہ ڈر کر بھاگ جائے بلکہ اسے پڑھنے والا ایک واضح اعلان کرتا ہے کہ ’’کوئی طاقت اور قوت نہیں سوائے اﷲ کے۔‘‘ یہاں وہ زمین پر بسنے والے ہر ذی روح کی طاقت اور قوت کی نفی کرتا ہے۔ لیکن انسان بھی کس بلا کا نام ہے کہ جس دعوے کی جرأت ازل سے لے کر آج تک شیطان جیسا مردود نہ کر سکا کہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہے،

یہ دعویٰ حضرت انسان بار بارکرتا ہے، ڈھول کی تھاپ پر کرتا ہے اور رقص کے عالم میں کرتا ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا ’’حسن‘‘ اور اس کا ’’کمال‘‘۔ اسی لیے اس خالق حقیقی نے جس نے انسان کو تخلیق کیا۔ جو اس انسان کی سرشت سے واقف ہے اس نے اس پورے جمہوری نظام کی جڑ کاٹتے ہوئے سورہ الانعام کی آیت نمبر 116 میں واضح اعلان فرمایا ’’اگر تم زمین پر بسنے والوں کی اکثریت کی پیروی کروگے تو وہ تمہیں اﷲ کے راستے سے بھٹکا کر چھوڑیں گے۔‘‘ یہ ہے وہ ازلی ابدی اعلان جو اﷲ نے فرمایا۔

آیئے ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کیا کبھی سچ، حق، انصاف اور واضح اخلاقی اصولوں کا اکثریت نے ساتھ دیا۔ تاریخ اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ اس طاقت کے سرچشمہ عوام کی اکثریت نے ہمیشہ حق، سچ اور انصاف کے خلاف پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔ سقراط کا مقدمہ ایک ایسی عدالت اور جیوری کے سامنے پیش ہوا تھا جس کا ہر شہری ممبر تھا۔ پورے کے پورے شہر کی اکثریت بلکہ متفقہ اکثریت نے اپنا ’’جمہوری‘‘ حق استعمال کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ سقراط کا سچ ہمیں قبول نہیں۔ پورے شہر نے انصاف اور سچ پر فتح حاصل کرلی تھی۔ اور کتنے فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی عدالت عوام کی ہوتی ہے۔

لیکن وہ مالک کائنات جس نے اپنی نازل کردہ سچائیوں کو زندہ رکھنا ہوتا ہے، اس نے آج تک ایتھنز کے عوام کو ہیرو نہیں بننے دیا، بلکہ تین ہزار سالہ تاریخ کی گالیاں ان کا مقدر بنیں اور آج بھی بن رہی ہیں۔ کیا حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارہ حواریوں کے سوا کوئی اور تھا جوان کے ساتھ گلیلی کے بازاروں میں گھسیٹا گیا ہو، جب وہ صلیب اٹھا کر چل رہے تھے‘ لیکن کوئی ہے جو آج سر اونچا کر کے کہے کہ گلیلی کی اکثریت اور طاقت کا سرچشمہ عوام نے جو صلیب پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تھا وہ عین درست تھا‘ کیونکہ آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔

کوفہ کے گلی کوچوں نے تو یہ تماشا کئی بار دیکھا۔ مسلم بن عقیل کے پیچھے صفیں باندھے نمازی نماز مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک فیصلہ کرتے ہیں، اکثریت کا فیصلہ، طاقت کے چشمہ کا فیصلہ اور نماز بیچ میں چھوڑنے کے ساتھ مسلم بن عقیل کو بھی تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا کربلا کی تپتی ریت پر جگر گوشۂ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حق کی آواز کے ساتھ وہاں کی اکثریت نے ان کا ساتھ دیا۔ اکثریت تو ویسا ہی کر رہی تھی جو میرا اﷲ فرماتا ہے کہ اگر تم ان کی پیروی کروگے تو یہ تمہیں اﷲ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔

لیکن لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کے مقابلے میں آج بھی سیدنا امام حسینؓ اور ان کے بہتر ساتھیوں کے نام ستاروں کی طرح روشن ہیں اور آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے، کہنے والے چودہ سو سال سے پھٹکار کے مستحق۔ کوفہ میں یہ منظر نامہ رکتا نہیں۔ ایک اور شخص آل رسول کا حق پرست ستارہ حضرت زین العابدین کا فرزند زید بن علی حق و انصاف کی آواز بلند کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت تو ایک جانب، اپنے ماننے والوں، ولایت علی کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس جاتا ہے کہ میرا ساتھ دو۔ ان کی اکثریت بھی اس کا ساتھ دینے سے انکار کرتی اور ساتھ نکلنے والوں میں صرف تین و تیرہ نفوس ہوتے ہیں۔

یہ عوام کی اکثریت اور طاقت کے سرچشمے کے فیصلے بھی غضب کے ہوتے ہیں۔ بل کلنٹن کو ووٹ دینے والی خواتین میں سے 75 فیصد نے کہا کہ ہم نے اس شخص کو اس لیے ووٹ دیے کہ یہ راتوں کو میرے خوابوں میں آتا تھا۔ رچرڈنکس جب اپنے زمانے کے خوبصورت ہیرو نما شخص جان ایف کینڈی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہا تھا تو وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ میں اس قدر احساس کمتری میں مبتلا تھا کہ میں نے کتنے ہی ماہرین جلد اور فیشن سے رابطہ کیا، طرح طرح کی کریمیں اور لوشن راتوں کو لگائے، چہرے کو خوبصورت بنانے کے لیے میک اپ کروائے لیکن پھر بھی ہار گیا۔ کینیڈا کے ٹروڈو سے لے کر ارجنٹائن کی خوبصورت اور جاذب نظر صدر تک ہزاروں مثالیں ایسی ہیں جن میں اکثریت کے اس ’’عظیم‘‘ فیصلے کی جھلک نظر آتی ہے۔

لیکن ان سب رویوں سے، اور ایسے بے وقوفانہ فیصلوں سے نہ اﷲ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور نہ معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ لیکن جب کسی قوم کی اکثریت اس بات پر فیصلہ کرے، ووٹ دے کہ ہم دیانت کے بجائے بددیانتی، انصاف کی جگہ ظلم، سچ کی جگہ جھوٹ اور حق کی جگہ باطل کا ساتھ دیتے ہیں تو پھر اﷲ قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا کرتا ہے۔ دنیا میں آج تک پوری جمہوری تاریخ میں کسی قوم نے اس بات پر اکثریتی فیصلہ نہیں دیا کہ ہم انصاف کے مقابلے میں عدالت کی نفی کرتے ہیں اور ہمارا فیصلہ عدل اور عدلیہ سے زیادہ افضل ہے۔ کیا کبھی کسی ملک میں کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، بدعہدی اور دھوکا دہی کے حق میں ریفرنڈم ہوا۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوا۔

یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے۔ یہ اعزاز حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو بھی حاصل ہوا تھا۔ جنہوں نے کہا تھا کہ ہماری اکثریت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کم تولنا جائز ہے۔ حضرت شعیب کے ساتھ صرف تیرہ سو کے قریب لوگ تھے۔ لوگوں نے کہا آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ لیکن اس واحد و جبار و قہار نے کہا۔ آخری فیصلہ میرا ہوتا ہے اور آج وہ قوم عبرت سرائے دہر ہے، ان کے کھنڈر ہیں اور بے بسی کی تحریریں۔ آخری فیصلہ میرے اﷲ کا ہوتا ہے۔ اس کا انتظار کرو۔ آپ کی عدالت نے تو فیصلہ دے دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔