پانامہ لیکس کا بھوت

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 16 اپريل 2016

انسان سب سے کم قابل بھروسہ جانور ہے وہ چونکہ معاشرتی جانور ہے، اس لیے اپنے فائدے اور تحفظ کے لیے وہ معاشرہ تشکیل دیتا ہے معاشرے کے تحفظ کے لیے قوانین تشکیل دیتا ہے، اسے چلانے کے لیے سسٹم بناتا ہے لیکن اپنے فائد ے کے لیے جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے وہ ان قوانین اور سسٹم کو توڑنے کے لیے سب سے آگے آگے ہوتا ہے۔ اسی بنانے اور توڑنے کے کھیل میں مسائل کا جنم ہوتا ہے، انسان مسائل کا باپ اور ماں دونوں ہوتا ہے یہ وہ واحد دوہرا رشتہ ہے جو وہ بڑی ہی خوبصورتی سے ادا کرتا ہے ۔ لہٰذا انسان ہی مسائل کو جنم دیتے رہتے ہیں اور انسان ہی مسائل کا خاتمہ کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح سے دنیا بھر کے معاشرے آگے بڑھتے رہتے ہیں، ہمارا شمار اس دلچسپ قوم میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ ہی اپنے مسائل ختم کیے بغیر انھیں دفنا کر ان کی قبریں بنا ڈالی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں انسانوں سے زیادہ ہمارے مسائل کی قبریں ہیں جنہیں گنا نہیں جاسکتا، اب مسائل کا اتنا بڑا قبرستان بن گیا ہے کہ جہاں تک نظریں جاسکتی ہیں ، وہاں تک آپ کو قبریں ہی قبریں نظر آئیں گی، دنیا کا سب سے طویل قبرستان ۔ چونکہ مسائل زندہ درگور دفن کیے گئے تھے۔ اس لیے وہ سب کے سامنے بھوت بن کر ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔ اب ہم ہیں اور ہمارے چاروں طرف کھڑے بھوت قہقہے لگا رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں مسائل کے قبرستان میں ایک نئی قبر کا اور اضافہ ہوگیا ہے پانامہ لیکس کی قبر کا جس پر وزیروں کی پوری فوج دن رات چراغاں کرنے میں مصروف ہیں۔ قبر پر ہر وقت پانی کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے، سارا وقت اگر بتیاں جلائی جارہی ہیں ہر گلی، محلے میں اسی قبر کا چرچا ہو رہا ہے ۔ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ ہے تو کسی کا رنگ پیلا پڑا ہے، کسی کے چہر ے پر لالی آگئی ہے تو کسی کا چہرہ ڈراؤنا ہوگیا ہے کہیں تو گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ پانامہ لیکس کو ’’را‘‘ کی سازش قرار دیا جا رہا ہے ۔ اب چاہے کچھ بھی کہہ لو کچھ بھی کرلو پانامہ لیکس کا بھوت کسی بھی صورت تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ یہ ہمارے بھوتوں میں سب سے زیادہ ڈراؤنا بھوت ہے جو نہ تو جینے دے گا اور نہ ہی سونے دے گا ۔

اب چاہے کوئی کتنا ہی الحمداللہ ، ماشاء اللہ یا انشاء اللہ کا ورد ہی کیوں نہ کرلے اس سے جان چھڑانا اب ناممکن ہے لیکن اپنی سے کوششیں اب تک جاری ہیں۔ دنیا بھر میں عاملوں کو ڈھونڈا جا رہا ہے، مشورے پر مشورے ہورہے ہیں، فال نکلوائی جارہی ہیں استخاروں پر زور ہے، نامی گرامی باباؤں کو تلاش کیا جا رہا ہے لوگوں کی ایک ٹیم تو بنگلہ دیش بھی جاچکی ہے جو نامور بنگالی عاملوں کو لے کر بس پہنچنے ہی والی ہے۔ کراچی میں تین ہٹی کے پل کے پاس ایک زمانے میں جو عاملوں کی پوری فوج بیٹھا کرتی تھی ان کو گھر گھر تلاش کیا جا رہا ہے ۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اس بھوت سے جان چھڑانے والے کے لیے بڑے بڑے انعاموں کے اشتہارات دینے کی پلاننگ ہورہی ہے۔

متاثروں کے گھروں میں وظیفے پڑھے جارہے ہیں جس کسی کے بھی ہاتھ میں آج کل آپ تسبیح دیکھیں تو سمجھ جائیے گا کہ وہ متاثرین میں سے ایک ہے متاترین خلاؤں کو گھورتے ہوئے ایک ہی بات باربار کہے جارہے ہیں کہ آخر انسان کا دشمن انسان کیوں ہے ہر کوئی دوسرے کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے۔ انسان کو دوسرے کی خو شحالی اور خوشیاں کیوں برداشت نہیں ہوتی ہیں۔ آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک خود ساز اور دوسرے تاریخ ساز خود ساز آدمی کی ترجیحات کا مرکز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اور تاریخ ساز آدمی کی ترجیحات کا مرکز انسانیت ہوتی ہے۔

خود ساز آدمی کی سوچ اس کی ذاتی مصلحتوں کے گرد بنتی ہے۔ اس کے جذبات وہاں بھڑکتے ہیں، جہاں اس کے ذاتی فائدے کا کوئی معاملہ ہو خود ساز آدمی اپنے ذاتی نفع کے لیے ہر دوسر ی چیز کو قربان کرسکتا ہے خواہ وہ کوئی اصول ہو یا کوئی قول و قرار ہو خواہ وہ کوئی اخلاقی تقاضہ ہو یا کوئی انسانی تقاضہ ہو وہ اپنی ذات کے لیے ہر دوسری چیز کو بھلا سکتا ہے وہ اپنی خواہشات کے لیے ہر دوسرے تقاضے کو نظر انداز کر سکتا ہے۔

تاریخ ساز انسان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے، وہ اپنی ذات کے خول سے باہر نکل آتا ہے وہ اصولوں کو اہمیت دیتا ہے نہ کہ مفادات کو وہ اپنے آپ میں رہتے ہوئے اپنے آپ سے جدا ہوجاتا ہے خود ساز آدمی آخر میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں پاتا ہے۔

سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا ’’ میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا مگر مو ت نے مجھ کو فتح کر لیا افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک عام آدمی کو حاصل ہوتا ہے ‘‘ نپولین بونا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے ’’ مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں، میں دو چیزوں کا بھوکا تھا ایک حکومت دوسری محبت، حکومت مجھے ملی مگر وہ میرا ساتھ نہ دے سکی محبت کو میں بہت تلاش کیا مگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا انسان کی زندگی اگر یہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقیناً انسانی زندگی ایک بے معنیٰ چیز ہے کیوں کہ اس کا انجام مایوسی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘ ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا مگر آخر عمر میں اس نے کہا ’’ میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوششیں کیں پھر بھی میں غم غلط نہ کرسکا میں نے بے حد غمگین اور فکر کی زندگی گذاری ہے زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں گذرا جو میں نے بے فکری کے ساتھ گذارا ہو۔

اب میں موت کے کنارے ہوں جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی یہ ہی ہر انسان کا آخری انجام ہے مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے ‘‘۔ خلیفہ منصور عباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا ’’اگر میں کچھ دن اور زندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگا دیتا جس نے مجھے بار بار سچائی سے ہٹا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے مگر یہ بات مجھ کو اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لیا‘‘ دنیا کے اکثر کامیاب ترین انسانوں نے اس احساس کے ساتھ جان دی کہ وہ دنیا کے ناکا م ترین انسان تھے ، لیکن افسوس کیا کریں یہ سچائی ہمیشہ انسان کو آخری وقت میں ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے کامیاب ترین انسان کس احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔