متحدہ پرپابندی کا مطالبہ مصطفی کمال کا مقابلے سے فراریا واک اوورحاصل کرنے کی کوشش

عمیر علی انجم  ہفتہ 16 اپريل 2016
مصطفیٰ کمال کو اس طرح کی غیر سنجیدہ گفتگو سے فی الحال گریزکرنا چاہیے، سیاسی حلقے: فوٹو: فائل

مصطفیٰ کمال کو اس طرح کی غیر سنجیدہ گفتگو سے فی الحال گریزکرنا چاہیے، سیاسی حلقے: فوٹو: فائل

 کراچی:  ایم کیو ایم کے باغی قافلے کی جانب سے اپنی سابقہ جماعت کو کالعدم قرار دینے کے مطالبے کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اس معاملے پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال گروپ کا کسی بھی جماعت پر پابندی کا مطالبہ اس بات کی دلیل بھی ہو سکتا ہے کہ یہ باغی قافلہ مقابلے سے فرار اختیار کر رہا ہے یا واک اوور کی خواہش رکھتا ہے۔

چند روز قبل وجود میں آنے والی مصطفیٰ کمال اینڈ کمپنی کی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو تاحال کوئی عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے، نہ ہی یہ جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصطفیٰ کمال کا ایم کیو ایم کیلیے یہ کہنا ہے کہ اس جماعت کو کالعدم قرار دیا جائے، بہت مضحکہ خیز عمل ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کو اس طرح کی غیر سنجیدہ گفتگو سے فی الحال گریزکرنا چاہیے اور پاک سرزمین پارٹی کو متحدہ کی مخالفت اور ان کے رہنماؤںکو تنقیدکا نشانے بنانے کا عمل اب ترک کرکے عملی طور پر سیاسی میدان میں آکر خودکو منوانا ہوگا، مصطفیٰ کمال کراچی کے کامیاب ترین میئر رہ چکے ہیں، وہ متحدہ کے نو منتخب میئر اور ڈپٹی میئر کو شہر قائدکی خدمت کے بارے میں مشورہ دیں اور اپنے تجربات سے مستفیدکریں، نہ کہ وہ اپنی مکمل توجہ مخالفت کی سیاست پر مرکوز رکھیں، سیاسی حلقوںکا کہنا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی میں شامل تمام رہنما ایم کیو ایم کا اہم ترین حصہ رہے ہیں، متحدہ پر عائد ہونے والے جن الزامات کو مصطفیٰ کمال ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر ان میں صداقت ہے تو ان رہنماؤں کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے، اس طرح کی بیان بازی سے کراچی کے حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال نے اپنی متعدد پریس کانفرنس میں اس بات کا ذکر کیا کہ ان کی سابقہ جماعت ایم کیو ایم کے قائد کے ’’را‘‘ سے تعلقات ہیں تو وہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ اس معاملے پر کمیشن بنایا جائے یا مصطفی کمال گروپ کے رہنما وفاقی حکومت کے سامنے پیش ہوکر یہ ثبوت کیوں پیش نہیںکر رہے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔