رمضان المبارک کے فرائض

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
رمضان المبارک کے فرائض

رمضان المبارک کے فرائض

رمضان المبارک آگیا ہے۔ مسلم معاشرے میں رمضان کی آمد ایک خوش خبری ہے۔ ہر دل کی کلی کھل جاتی ہے۔ ہر مرجھایا ہوا چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ یہ چمک دمک اصل میں ایمان کی چمک دمک ہے۔ اس کی ہر گھڑی نعمت کی گھڑی، اس کا ہر لمحہ رحمت کا لمحہ ہے اور اس کی ہر ساعت بندگان رب کی بخشش، مغفرت اور بارگاہ رب العزت میں قربت کا پروانہ لے کر آتی ہے۔

ایک طویل حدیث سے بھی اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں جو کچھ پنہاں ہے، انسان اس کو جانے، اس کو یاد دہانی و تذکیر کا عنوان بنائے اور جو کچھ اس ماہ مبارک، اس کے شب و روز اور اس کے ہر ہر لمحے میں موجود ہے، اس سے مستفید ہونے کے لیے اسے اپنے دامن میں بھرنے کی کوشش کرے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم خطبے کے لیے تشریف لائے تو منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا، آمین ۔ دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین اور اسی طرح تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے بھی آمین فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور جب منبر سے اتر کر نیچے تشریف لائے تو قدرے تجسس کے ساتھ صحابہ کرام نے عرض کیا:’’یا رسول اﷲ! آج آپ نے تین بار آمین فرمایا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ آپ کس بات پر آمین فرمارہے تھے؟‘‘

نبی اکرم  نے فرمایا:’’حضرت جبرائیل تشریف لائے تھے، جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہلاک ہو جائے برباد ہو جائے وہ شخص جو اپنے بوڑھے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے تو بلاشبہہ اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے۔ اس میں نے آمین کہا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر پہنچا تو جبرائیل نے یہ فرمایا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے نبی اکرم  کا نام نامی لیا جائے اور وہ پھر بھی آپ پر درود نہ بھیجے۔ اس پر میں نے آمین کہا۔ پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیل نے فرمایا کہ ہلاک ہوجائے، برباد ہوجائے وہ شخص جو رمضان کی برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔‘‘

جس مہینے کا ہر لمحہ برکت، رحمت اور مغفرت کا ہے، جس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، تو پھر بھی اپنی بخشش نہ کروا پانا حیران کن ہے۔

بہت سے لوگ اس حدیث کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل امین بد دعا کر رہے ہیں اور نبی اکرم اس کی تصدیق فرمارہے ہیں۔ لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ جب کیفیت یہ ہو کہ چاروں طرف بہار کا سماں ہو، گل و گلزار کی محفلیں آباد ہوں، ہر طرف مہک اور خوش بو ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں گرا پڑا بیج بھی برگ و بار لا رہا ہو، اگر کوئی بیج اس موسم میں بھی برگ و بار لانے سے رہ جائے تو اس کی بدنصیبی پر کسی بد دعا کی تو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں اس حدیث میں ایک یاد دہانی ہے اور ساتھ ہی رمضان المبارک کی برکتوں کا تذکرہ ہے کہ اس میں نافرمانی اور گناہ میں گھرا ہوا انسان بھی، اس ماہ مبارک کی برکتوں، جنت کے دروازے کھل جانے سے، شیاطین کے مقید ہو جانے سے بھی استفادہ نہ کرے اور اپنی طبیعت اور مزاج کے اندر وہ کیفیت پیدا نہ کر ے جو مطلوب ہے تو اس کے لیے ہلاکت کے علاوہ کون سا لفظ استعمال کیا جائے؟

ہر طرف یہ صدائیں ہیں: کوئی ہے جنت کا طلب گار جسے جنت میں داخل کردیا جائے؟ کوئی ہے مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہوں کو دھوکر اسے مغفرت کا پروانہ دے دیا جائے؟ کوئی ہے جو از سر نو لوٹنے اور پلٹنے والا ہو، اپنے رب کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ و استغفار کرنے والا ہو، اس کے دربار میں اپنی پیشانی کو جھکانے والا ہو اور اپنے دل و دماغ کی دنیا میں اپنے رب کی بندگی کا حوالہ مضبوط سے مضبوط تر کرنے والا ہو ۔ یعنی رحمت، بخشش اور مغفرت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ہر نیکی کا حصول آسان بنا کر اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

نبی اکرم  نے شعبان کی آخری شب میں صحابہ  کو مسجد نبوی میں جمع فرمایا، انہیں اپنی خدمت میں حاضری کا موقع دیا اور وہ طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس کے ہر لفظ کی تشریح کی جائے تو بھی اس کی تفسیر بیان نہیں ہو سکتی اور ہر لفظ اپنی جگہ معنیٰ و مفہوم کا طالب رہتا ہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا:’’یہ لمحہ دلوں کو متوجہ کرنے اور رب سے تعلق جوڑنے کا لمحہ ہے ۔ رحمتوں کی بارش ہورہی ہے، مغفرتوں کے حوالے مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ اس ماہ مبارک میں دن کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔‘‘

راتوں کو جاگنا تو ویسے بھی افضل ہے، مگر رمضان کی راتوں کو جاگنے کی فضیلت تو بے حد و حساب ہے۔ آپ نے اس کی خصوصی اہمیت وکیفیت سے لوگوں کو آگاہ کیا اور اس میں قرآن پاک سے جڑنے، قرآن پاک کا ہوجانے، قرآن پاک ہی کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنانے، اسی کو اول و آخر قرار دینے، اس کو سینے سے چمٹا کر اپنے سینے کے اندر محفوظ کرلینے اور اس کے نتیجے میں آخر اپنے اعمال کو اس کے رنگ میں رنگ کر مزین کرلینے کی طرف آپ نے بار بار توجہ دلائی۔ صیام رمضان کے ساتھ قیام رمضان یہی رمضان کی راتوں کا قیام ہے۔

انہی راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، یعنی تقریباً84سال کی دن رات کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی خطبے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس ماہ مبارک میں نفل کی ادائیگی پر فرض کا ثواب ہے اور فرض کے اجر کو سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتاہے۔ ماہ رمضان ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بے بسوں کی دل جوئی، سب کو اپنا بنانے اور ہر ایک کے دکھوں، مصیبتوں، پریشانیوں کو مل کر دور کرنے کا موسم ہے۔

اس ماہ رمضان میں ایک بار پھر ہمیں اس عہد کو زندہ و تابندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ستائیسویں رمضان المبارک کو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو خطہ زمین نعمت کے طور پر عطا فرمایا تھا، ہم پاکستان کو اس کے حصول کے مقصد تک پہنچاکر دم لیں گے اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک میں نفاذ اسلام کے ایجنڈے کی طرف آگے بڑھتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔