عالمی امور : بھارت میں جاری نئی جنگ

سید بابر علی  اتوار 17 اپريل 2016
قوم پرستی کے نام پر انتہاپسندی کُھل کھیل رہی ہے،روشن خیال بھارتی تنگ نظری کے خلاف پوری قوت سے صف آراء ۔  فوٹو : فائل

قوم پرستی کے نام پر انتہاپسندی کُھل کھیل رہی ہے،روشن خیال بھارتی تنگ نظری کے خلاف پوری قوت سے صف آراء ۔ فوٹو : فائل

یہ دلی کی ایک سرکاری جامعہ جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کی کام یابی ہے، جس نے بھارتی راج دہانی میں بیٹھ کر ذات پات کی بنیاد پر مسلط کی جانے والی نام نہاد قوم پرستی اور حب الوطنی کو للکارا ہے۔۔۔ جو بحث پارلیمان اور اعلیٰ ایوانوں کو طے کرنی چاہیے۔

اسے طے کرنے کا بار انہوں نے اٹھا لیا ہے۔ کیا کیا جائے، جب منتخب نمائندے بھی  انتہاپسندی کے پروردہ ہوں اور سماج سے لے کر تعلیمی اداروں تک روک لگانے کے لیے کوئی بند باندھنے والا نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہونے والوں نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی حوالے سے ممتاز بھارتی دانش وَروں کی جانب سے بھارتی قومیت کے حوالے سے کیا کہا جا رہا ہے، قارئین کی نذر ہے۔

٭ ’’پی جے پی نیشنلزم کے نام پر ہندو ازم مسلط کرنا چاہتی ہے‘‘
کمیونسٹ پارٹی انڈیا کی رکن برندا کراتنے نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بی جے بی کے ’نیشنلزم‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ: انتہاپسند بھاتی جنتا پارٹی پورے ملک میں قوم پرستی  کے نام پر ہندوازم مسلط کرنا چاہتی ہے۔

جے این یو شروع ہی سے انتہاپسندوں کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ملک کی ہر یونیورسٹی کو اپنی تنظیمی شاخ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ روہت ویمولا کے قتل کے بعد تمام ملک کی یونیورسٹیز میں بغاوت کی لہر پھیل چکی تھی اور روہت کے اس ادارتی قتل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی  جے پی اور آر ایس ایس ہر یونیورسٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ ہر یونیورسٹی کی خود مختاری ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف پورے ملک میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اور اس تحریک کا دھارا بدلنے کے لیے انہوں نے سوچا کہ چلو اسی بہانے ہم تمام یونیورسٹیز کو قوم دشمن قرار دے اس پوری تحریک کو ہی ختم کردیتے ہیں۔ لیکن آپ لوگوں (طلبا)نے جس طرح بی جے پی کے مذموم ارادوں کو اپنی ہمت و حوصلے سے شکست دی ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ صرف جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی جیت نہیں ہے بل کہ یہ ان تمام طاقتوں کی جیت ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی سنسکرتی (تہذیب) کے نام پر ہر کسی کو قوم کا مخالف  قرار دینے کے خلاف ہیں۔ ایک طالب علم کی گرفتاری سے بھارتی حکومت پوری دنیا میں بدنام ہوگئی ہے۔ ہم قوم پرستی کے نام پر نریندر مودی کو ملک تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ لوگوں کے آئینی حق پر حملہ ہے۔

٭ ’’ہندو معاشرہ دنیا کا سب سے پُر تشدد معاشرہ ہے‘‘
کنہیا کمار کی گرفتاری کے بعد پورے بھارت میں قوم پرستی کے نام پر چھر جانے والی  جنگ میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اساتذہ بھی طلبا کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام لکھاری اور جے این یو میں سیاسیات پڑھانے والی پروفیسر نویدیتا مینن کا ہے۔ نویدیتا نے طلبا سے خطاب میں بھارتی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ہر وہ شخص جو بی جے پی کی مخالفت کرے وہ قوم دشمن ہے۔ اُن کے نزدیک بھارت کا شمال مشرقی علاقہ تو پورا ہی قوم دشمن ہے، کشمیری مسلمان ہونے کی وجہ سے قوم دشمن ہیں، تامل ناڈو والے ہندی نہیں بولتے اس لیے قوم دشمن ہیں، جینز پہننے والی، فیشن کرنے والے خواتین بھی قوم دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا: پوری دنیا کہتی ہے کہ بھارت کشمیر پر قابض ہے۔ حال ہی میں ایک کانفرنس میں مجھ سے سوال پوچھا گیا گیا کہ ہمیں (طلبا کو) کبھی یہ بات کیوں نہیں بتائی گئی کہ کشمیر بھارت کا حصہ کیسے بنا؟ ہمیں ہمیشہ یہی سکھایا جاتا ہے کہ ’کشمیر از ا ے انٹیگرل پارٹ آف انڈیا۔‘ یہ سوال بہت ہی گمبھیر ہے۔ زیادہ تر لوگ تاریخ کے بارے میں اتنا نہیں جانتے جتنا انہیں جاننا چاہیے۔

اور اگر آپ تاریخ کو جان گئے تو پھر آپ پر قوم دشمن ہونے کا الزام دھر دیا جائے گا۔ پندرہ اگست 1947کو تقسیم سے قبل اس خطے میں جسے آج ہم انڈیا کہتے ہیں بہت ساری خودمختار ریاستیں تھیں، جو برطانوی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کی رو سے چل رہی تھیں۔ اُن کی اپنی ایک تاریخ تھی۔ آپ شمال مشرقی ریاست منی پور ہی کو لے لیجیے۔

تقسیم کے بعد منی پور کانسٹی ٹیوشن ایکٹ کے بعد وہاں کے راجا کی سربراہی میں ایک جمہوری حکومت قائم کی گئی۔ لیکن ایک سال بعد ہی مہاراجا بدچندرا کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا گیا اور ایسا نہ کرنے پر 1949میں قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرکے اسے بھارت کا حصہ بنادیا گیا۔ آپ ناگالینڈ کو دیکھ لیں۔ برطانوی حکومت اور ناگالینڈ نیشنل کونسل کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ انہیں plebiscite (مجلسِ عوام) کا حق دیا گیا تھا۔ ناگالینڈ کو دس سال کے لیے پروٹیکٹیو اسٹیٹس دیا گیا، لیکن برطانیہ کے جاتے ہی انڈین راشٹریہ راج نے ناگا کی سرزمین کو اپنا ڈیکلیئر کردیا۔ کشمیر کو ساتھ ملاتے وقت بھی وہی اصول اپنانے چاہیے تھے جو جوناگڑھ کے لیے اپنائے گئے۔

جوناگڑھ کے حکم راں مسلمان تھے، وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے ، لیکن عوام کی اکثریت ہندو اور بھارت کے ساتھ رہنے کی خواہش مند تھی، لہٰذا عوام کی ہی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے جوناگڑھ بھارت کا حصہ بنایا گیا۔ کشمیر میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ یعنی عوام کی اکثریت مسلمان اور حاکم ہندو تھے۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ حالات بہتر ہوتے ہی عوام کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیر کا فیصلہ کردیا جائے گا، لیکن یہ آج تک نہیں ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں یہ مانا جاتا ہے کہ ’بھارت کشمیر پر غیرقانونی طور پر قابض ہے۔‘ بین الاقوامی میڈیا پر چھپنے والے بھارت کے نقشے الگ ہیں، لیکن ان پر ہمارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی پابندی عاید کردی جاتی ہے۔

ان کاپیوں کو نذرآتش کردیا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب دنیا بھر میں کشمیر پر غیرقانونی قبضے کی بات ہورہی ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی کشمیر کی آزادی کا نعرہ بلند کرتا ہے تو یہ ایک جائز نعرہ ہے۔ کم سے کم ہمیں یہ تو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں انڈیا کو ایک سام راجی ملک سمجھا جاتا ہے۔ تو کیا ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے؟ ہم جانتے ہیں چھتیس گڑھ ہو یا کشمیر ان جگہوں پر روزانہ ہی ہنگامی حالات ہوتے ہیں، اور یہ ناانصافی، یہ ظلم ہمارے نام پر کیا جا رہا ہے، کیوں کہ ظلم کرنے والوں کو ہم ہی لوگوں نے منتخب کرکے اسمبلیوں تک پہنچایا ہے۔ آج کشمیر ہمارا ہے لیکن کشمیری ہمارے نہیں ہیں۔ ہم جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اگر یہ مستحکم ہے تو پھر کشمیر کے حق میں نعرے لگانے والے طلبا کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیوں جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے ٹینک اور گنیں استعمال کی جارہی ہیں؟

 ٭ ’’کسی کو قوم دشمن قرار دینا ہمارا نہیں عدالتوں کا کام ہے‘‘
حکم راں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے چھے راہ نما بھی قوم پرستی کے حق میں کنہیا کمار کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام ماضی کے مشہور اداکار اور بی جے پی کے راہ نما شتروگھن سنہا کا  ہے۔ ان کا کہنا ہے: میں نے اس ویڈیو کو اچھی طرح دیکھا اور سنا ہے اور اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو غیرآئینی یا قوم پرستی کے خلاف ہو۔ میری حب الوطنی پر کسی کو انگلی اٹھانے کا حق نہیں ہے، اگر کوئی آپ سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ قوم پرستی کے خلاف ہے۔

کسی بھی فرد کی حب الوطنی کا تعین کرنا ہمارا اور آپ کا کام نہیں ہے، اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ ایک طالب علم کی گرفتاری اس کے ساتھ سماجی زیادتی ہے۔ ہمیں اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا پڑے گا۔ اب کیا آپ اسکول اور کالج کے بچوں پر بغاوت جیسے سنگین جُرم کا الزام عائد کریں گے؟ مہاتماگاندھی کے زمانے میں انڈیا کے بڑے بڑے نیتا ان کے خلاف تھے، لیکن ان میں سے تو کسی پر بغاوت کا الزام نہیں لگا اور نہ ہی انہیں کسی نے قوم دشمن کہا۔ ہماری سپریم کورٹ کہتی ہے کہ بھارت بنانا ری پبلک نہیں ہے، یہاں انصاف کا راج ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ صرف نعرے لگانے سے کسی پر بغاوت کا چارج نہیں لگتا، آپ یہ الزام اسی وقت لگا سکتے ہیں جب کوئی عملی طور پر کوئی ایسا کام کرے جو بغاوت کے زمرے میں آتا ہوں۔

٭پروفیسر رومیلاتھاپر اور پروفیسرہربنس مکھیا
بھارتی مورخ اور قدیم بھارت کی تاریخ پر کئی کتابوں کی مصنف رومیلا تھاپر بھی قوم پرستی کی جنگ میں جے این یو کے طلبا کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جے این یو میں طلبا کے ساتھ اظہاریکجہتی کے لیے گئی گئی تقریر میں انہوں نے کہا: تاریخ اور قوم پرستی کے درمیان بہت گہرا رشتہ ہے۔ قوم پرستی میں آپ کو معاشرے اور اس میں اپنی شناخت کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔ماضی میں بھی قوم پرستی کی تعریف کو گم راہ کُن بنانے کی کوششیں کی گئیں۔

آج بھی یہی کوشش کی جارہی ہے۔ قوم پرستی کی ایک معتبر تعریف ہے۔ ہمیں اپنی معلومات میں اضافے کے لیے تاریخ کا تنقیدی جائزہ لینے کی بہت ضرورت ہے۔ قوم پرستی ایک شہری کی شناخت بناتی ہے جو کہ سب سے افضل بات ہے، لیکن برتری کے لیے اس شناخت کا دعویٰ کسی ایک انفرادی گروپ کی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ اس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہونے چاہیے۔ صحت مند بحث و مباحثے قوم پرستی کا ایک حصہ ہے۔

یہ طرزعمل تاریخ اور قوم پرستی کے درمیان تعلقات کا بھی حصہ ہے اور بلاشبہہ جامعات اس طرح کے مباحثوں کے لیے بہترین جگہ ہیں۔ قوم پرستی کسی ایک شناخت پر منحصر نہیں ہے، اس میں سب شامل ہے۔ قومی تاریخ کے بلاشبہہ اپنے پُر مسرت لمحات ہیں، یہ ماضی کے سنہرے اور مثالی دور تھے، لیکن قومی شناخت کو جس قدر موجودہ شناخت پر ترجیح دی گئی، اگر سب کو ساتھ ملا کر کی گئی تو مفید لیکن اگر اسے کسی مخصوص گروپ کے لیے کیا گیا تو یہ تباہ کُن بھی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک ماہ سے یونیورسٹی کو توڑنے کی کوششوں نے مجھے بہت اداس کردیا ہے، لیکن افضل گرُو کی پھانسی کے خلاف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب کے بعد موجودہ قوم پرستی سے جامعہ کے مستقبل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ اس ادارے کو دنیا بھر کے دانش وروں اور اہل علم کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ رومیلا تھاپر نے 1930 میں افریقی اور جرمن قوم پرستی کی مثالوں سے انفرادی اور گروہی قوم پرستی کے فرق کو واضح کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’قوم پرستی سوسائٹی کے ایک فرد کی حیثیت سے اپنے معاشرے کو بہت زیادہ سمجھنا اور اپنی شناخت تلاش کرنا ہے۔ تاریخ قومی نظریے کے لیے لازمی ہے، لیکن یہ منقسم تاریخ ہونی چاہیے۔

تاریخ کسی ایک شناخت کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی، بل کہ اس میں سب کا ہونا ضروری ہے۔ برصغیر میں نوآبادیاتی حکم راں ہندو مسلم الگ قوم کی کہانی تخلیق کرنے کے ذمے دار تھے۔ نوآبادیاتی اسکالر ز ہندو قوم اور مسلمان قوم کے بارے میں بات کرتے سمے ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ کیسے یہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بنے۔ تاریخ کی تشریح دو قومی نظریے کی بنیاد پر کی گئی اور اسی نظریے نے ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنایا۔ یہ نوآبادیاتی مخالف قوم پرستی تھی، جس پر بھارتی قوم پرستی کا پہلا دعویٰ کیا گیا۔ بنیادی شناخت انڈین تھی، ایک ایسی شناخت جس میں ہر ایک یکساں حقوق کے ساتھ برابر تھا۔

مورخین نے اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ کیسے قوم پرستی اور کمیونلزم مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کے لیے اہم تصور بنا، اور یہی تصور دو قومی نظریے کی طرح آج مستعمل ہے۔ اس موقع پر ہربنس راج نے کہا کہ: نظریاتی اختلاف کو ملک سے بغاوت قرار دینا، بغاوت کے قانون کے تحت طلبا پر مقدمے درج کرنا، پولیس کا جامعات میں گھُس کر طلبا یونین کے لیڈر کو گرفتار کرنا، اساتذہ اور طلبا پر عدالت کے احاطے میں حملہ کرنا، شہریوں کے بنیادی حقوق پر کیے جانے والے سنگین حملے ہیں۔ جمہوریت کا حسن اختلاف رائے میں ہے لیکن قوم پرستی کے نام پر ہونے والے حالیہ واقعات نے جمہوریت کی جڑوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

طالب علموں اور اساتذہ پر کھلے عام ہم سب کے لیے باعث تشویش ہیں۔ پرُامن مظاہرہ کرنے والے طالب علموں کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے اور قانون ناٖفذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اختلاف رائے رکھنا اور دماغ میں ابھرتے  سوالات کا جواب مانگنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ جے این یو کے طلبا پرامن طریقے اور مہذب طریقے سے اپنا حق استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں اور عوامی مقامات پر طالب علموں، اساتذہ اور جے این یو کے ساتھ ہم دردی رکھنے والے افراد کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔

٭جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور طلبا سیاست
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا شمار بھارت کے معتبر تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ 2012 میں نیشنل اسسمینٹ اینڈ ایکریڈیشن کونسل نے جے این یو کو 4میں سے3اعشاریہ 9 کا درجہ دیا تھا، جو ملک بھر میں کسی بھی یونیورسٹی کو دیا جانے والا سب سے بلند درجہ ہے۔ تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ اس کی وجہ شہرت یہاں کی طلبا سیاست بھی ہے۔  اہم قومی اور بین الاقوامی نظریات کو چیلینج کرنا ہمیشہ سے جے این یو کا خاصہ رہا ہے۔

اسی سبب اس یونیورسٹی پر ماضی میں بھی ملک دشمنی کے الزامات لگائے جاچکے ہیں۔ اگرچہ اسے ’بائیں بازو‘ کی یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس یونیورسٹی میں ہر سیاسی اور مذہبی نظریے کو چیلینج کیا ج اور اس کے ہر پہلو پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ کیمپس کی کلاسز، سیمینار ہالز، کھانے کی میزوں سے ہاسٹل کے کمروں تک، ہر جگہ بحث و مباحثے کی ایک شان دار اور صحت مند روایت قائم ہے۔ یہاں بغیر خوف وخطر کسی بھی موضوع پر عوامی بحث کی جاسکتی ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کسی مخصوص کی تابع نہیں بلکہ سائنسی نظریات اور جستجو کی درس گاہ ہے۔ روشن خیالی اور بائیں بازو کی طلبا سیاست کی وجہ سے جے این یو ہمیشہ سے انتہاپسندوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کے درمیان مختلف سیاسی معاملات پر تصادم یہاں کا معمول ہیں، اور ان میں سے کچھ کے اثرات ملکی سیاست پر تنازعات کی شکل میں بھی مرتب ہوتے ہیں۔

اپریل 2010میں جے این یو کیمپس میں دو حاضر سروس فوجی افسران کو مشتعل طلبا نے تشدد کا نشانہ بنایا، کیوں کہ ان افسران نے کیمپس میں منعقد ہونے والے پاک ہند مشاعرے میں دو پاکستانی شعرا کی جانب سے جنگ مخالف نظمیں پڑھنے پر اظہارِبرہمی کرتے ہوتے اسلحے کے زور پر تقریب میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تھی۔

اس کے قیام کا سہرا اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے جے این یو  میں روشن خیال اور بائیں بازو کے رجحان رکھنے والے پروفیسرز کا تقرر کیا اور اس یونیورسٹی کو ایک معیاری اور سائنسی نظریات پھیلانے والے تعلیمی ادارے کے طور پر فروغ دینے کی پوری ذمہ داری ان پروفیسرز پر ڈال دی۔ اپنے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی جے این یو کا شمار بھارت کی معتبر جامعات میں ہونے لگا۔ یہاں سیاست سے فلسفے، مذہب سے لے کر تاریخ تک کلاسز اور کلاسز سے باہر بحث ومباحثے کی ایک ایسی روایت قائم ہوئی

جس کی مثال بھارت کی کسی دوسرے یونیورسٹی میں نہیں ملتی۔ جے این یو کا بجٹ بھی دوسری جامعات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

اس جامعہ کی ایک پہچان یہاں سے فارغ التحصیل طلبا ہیں، جو بیوروکریسی اور اہم سیاسی عہدوں پر فائز ہیں۔

جے این یو میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب بچے بلا امتیاز، رنگ و نسل اور ذات پات داخلہ دیا جاتا ہے۔ کنہیا کا شمار بھی ایسے ہی طالب علموں میں ہوتا ہے، جو بہار کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ کنہیا کے بعد طلبا یونین کو فعال طریقے سے چلانے والی نائب صدر شہلا راشد ایک نرس کی بیٹی ہے۔ یونیورسٹی کیمپس میں شروع ہی سے روایتی طور پر اعتدال پسند اور لبرل رجحان رکھنے والے اساتذہ اور طلبا کا غلبہ رہا ہے۔ جے این یو میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ آزادخیال اور بھارتی طرز کے سوشلسٹ گروپ طلبا سیاست کے محور رہے ہیں۔ کانگریس، بھارتی جنتا پارٹی اور آر ایس ایس متعدد کوششوں کے باوجود جے این یو پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے میں کام یاب نہیں ہوسکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔