درختوں کے روٹھتے سائے

شبینہ فراز  اتوار 17 اپريل 2016
یومِ ارض اورگرین پاکستان پروگرام کے تناظر میں کچھ حقائق ۔  فوٹو : فائل

یومِ ارض اورگرین پاکستان پروگرام کے تناظر میں کچھ حقائق ۔ فوٹو : فائل

بائیس اپریل کو دنیا بھر میں ’’یوم الارض‘‘ منایا جاتا ہے، جسے زمین سے تجدید محبت کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اس سال یہ دن کرۂ ارض کے لیے شجر یا Trees for Earth کے نعرے کے تحت منایا جائے گا۔ اس سال پاکستان کے پاس بھی ’’ گرین پاکستان پروگرام‘‘ کے حوالے سے ایک اچھی خبر موجود ہے۔

پاکستان موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور خطرے سے دوچار ممالک میں اس کا شمار اولین دس ممالک میں کیا جاتا ہے۔ بے موسم اور کم دورانیے میں تیز بارشیں اور پہاڑی علاقوں میں مٹی کا کٹائو یا لینڈسلائیڈنگ کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان قدرتی آفات یا موسمی تغیرات سے نمٹنے کا آسان اور قدرتی حل زیادہ سے زیادہ درختوں کا لگانا ہے، تاکہ ان کی جڑیں مٹی کو روک سکیں۔ یہی درختوں بارشوں کے تیز پانی کو روک کر سیلاب کے خطرے کو کم کرتے ہیں اور پانی زمین میں جذب ہوکر زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ کرتا ہے۔ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی یہی درخت جذب کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ’’کلائمیٹ چینج‘‘ نامی بلا پر صرف شجرکاری کے ذریعے قابو کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہی بات ہمارے وزیراعظم کو کسی نے سمجھا دی ہے اور انہوں نے ’’گرین پاکستان پروگرام‘‘ شروع کردیا ہے۔

اس پروگرام کے تحت آئندہ پانچ سال میں 10کروڑ نئے پودے لگائے جائیں گے۔ اس منصوبے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد بھی حاصل کی جائے گی۔

اس پروگرام کے تحت بین الاقوامی طریقۂ کار کے مطابق جنگلات اور جنگلی حیات کے ساتھ پورے ملک میں جنگلات اور جنگلی حیات خاتمے کی وجوہات کا تعین کرکے اس کے تدارک کے لیے فوری اور طویل المدت کے منصوبوں کی تشکیل کی جائے گی۔ اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت، اسپارکو کے تعاون سے چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور فاٹا میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔

موسمیاتی تبدیلی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کو جنگلات کی کٹائی اور ان کے انحطاط پر ایک رپورٹ جسے Report on state of Forestryin Pakistan کا نام دیا گیا ہے، GIS لیبارٹری پنجاب اور فاریسٹ انونٹری کے پی کے کو، سپارکو کی تیکنیکی مدد سے معینہ مدت میں رپورٹ مرتب کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کو نایاب جنگلی انواع اور ان کے مساکن کا فوری طور پر زولوجیکل سروے کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

ہمیں حکومت کی نیت اور اس کے اقدامات پر بھروسا ہے، لیکن شجرکاری کے ساتھ ساتھ جب تک ٹمبر مافیا کو قابو نہیں کیا جائے گا، کسی بھی اقدام کے اچھے اثرات نہیں ہوں گے۔ ہر شہر اور گائوں میں مختلف وجوہات کے تحت بڑے درختوں کی کٹائی تیزی سے جاری ہے۔ درختوں کی کٹائی سے ہمارے پہاڑی علاقے بھی محفوظ نہیں ہیں جہاں سیکڑوں سال پرانے اشجار موجود ہیں۔

پچھلے سال ہی مجھے ایوبیہ نیشنل پارک جانے کا اتفاق ہوا۔ انتہائی حیرت کی بات تھی کہ ایوبیہ نیشنل پارک کے انتہائی سرسبز درختوں سے ڈھکے پہاڑوں کے بیچوں بیچ کہیں کہیں انتہائی بنجر اور درختوں سے خالی بھورے پہاڑ بھی موجود تھے! یہ پہاڑ بلوچستان کے پہاڑوں کا منظر پیش کررہے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی وجہ بیان کریں، آئیں کچھ تذکرہ ایوبیہ نیشنل پارک کا ہوجائے۔

ایوبیہ نیشنل پارک پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد میں واقع ہے۔ یہ نیشنل پارک مغربی ہمالیائی پہاڑی سلسلے سے منسلک ہے، جو بین الاقوامی طور پر ماحولیاتی اعتبار سے ایک اہم علاقہ ہے۔

اسے 1984میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا، تاکہ اس میں پائی جانے والی منفرد نباتات اور جنگلی حیات اور خصوصاً بقا کے خطرے سے دوچار نوع ’’تیندوے‘‘ کو قانونی تحفظ دیا جاسکے اور اس علاقے کی خوب صورتی کو برقرار رکھا جاسکے۔ یہ مری سے 26 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس پارک میں واقع نتھیا گلی کا شمار ملک کے حسین ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے، جہاں ہزاروں ملکی وغیرملکی سیاح اس کے خوب صورت مناظر اور موسم کا لطف اٹھانے آتے ہیں۔ نتھیا گلی سے تقریباً 2 کلومیٹر پر ڈونگا گلی ہے، جہاں دنیا کے چند بہترین ٹریکس میں سے ایک ٹریک ’’ڈونگا گلی ایوبیہ ٹریک ‘‘ واقع ہے۔ اسے پائپ لائن ٹریک اور زیرو ٹریک بھی کہتے ہیں، اس ٹریک کو انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کروایا تھا جو آج بھی بہترین حالت میں موجود ہے۔ اس ٹریک کی مسافت چار کلومیٹر ہے، لیکن اسے پیدل صرف آدھے گھنٹے میں بھی طے کیا جاسکتا ہے۔

یہیں پر کچھ فاصلے پر ایوبیہ چیئر لفٹ موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایشیا کی پہلی چیئرلفٹ ہے اور یہ صدر ایوب کے دور میں 1962میں لگائی گئی۔ اس پارک کا نام صدر ایوب کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کے انتظامی امور کی دیکھ بھال محکمۂ جنگلی حیات خیبر پختونخواہ کرتا ہے۔ پارک کا ابتدائی رقبہ 1,684 ہیکٹر تھا، جسے بڑھا کر 3,312 ہیکٹر کردیا گیا ہے۔ اس کے گرد سات بڑے گائوں اور تین چھوٹے قصبے یعنی نتھیا گلی، ایوبیہ اور خانسپور موجود ہیں۔

ایوبیہ نیشنل پارک میں پہاڑی سلسلے کی دو مشہور چوٹیاں ’’میراں جانی‘‘ 9,930 فٹ اور ’’مشکبوری‘‘ 4,900 فٹ بلند، پائی جاتی ہیں۔

اس پارک میں مختلف اقسام کے پرندوں کی 203 اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں مرغ زریں، جنگلی کوا، چڑیا، کلیج مرغ، کالی بلبل، ہدہد، گریٹ باربیٹ، فلائی کیچر،گرے بش چیٹ اور کٹ کٹ بڑھئی (ووڈ پیکر) وغیرہ شامل ہیں۔ ایوبیہ نیشنل پارک میں اگر آپ علی الصبح چہل قدمی کررہے ہوں تو آپ کو یہ پرندے بہ آسانی نظر آجائیں گے۔ ممالیہ جانوروں کی 31، رینگنے والے جانوروں کی 16 جب کہ خشکی اور تری میں رہنے والے جل تھلیوں کی 3 اقسام پائی جاتی ہیں۔

ایوبیہ نیشنل پارک کے خطرے سے دوچار جانوروں میں تیندوا اور اُڑنے والی گلہری شامل ہیں۔ کم یاب انواع میں یہاں نیلا کرلا پایا جاتا ہے، جو مغربی ہمالیائی سلسلے میں عام طور پر ملتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ سوتا ہے اور مارچ میں نیند سے بیدار ہوتا ہے۔ یہ گہرے سبز رنگ یا سرمئی رنگ کا ہوتا ہے اور اس کے جسم کے اطراف چھوٹے چھوٹے دھبے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سرخ سانپ پایا جاتا ہے لیکن یہ زہریلا نہیں ہوتا۔ یہ رات کے وقت شکار کرتا ہے اور کبھی کبھی دن کے وقت بھی نظر آجاتا ہے۔ یہ پہاڑی علاقوں میں چٹانوں کی درزوں میں رہتا ہے اور جنگل میں پانی کے قریب ملتا ہے۔

ایوبیہ نیشنل پارک میں بے انتہا قیمتی بل کہ کم یاب اور نایاب درختوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں دیودار، پائن کی تین اقسام ، برمی، چیڑھ اور پڑتل وغیرہ شامل ہیں۔ دیودار پاکستان کا قومی درخت ہے۔ یہ ہمالیائی مرطوب جنگلات میں پائی جانے والی سدا بہار درخت کی ایک قسم ہے، جو عموماً 1500سے2300 میٹر کی بلندی پر ملتا ہے۔ دیودار سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب خدا کی لکڑی ہے۔ دیودار طبی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ج بکہ اس کی لکڑی بھی بہت قیمتی تصور کی جاتی ہے۔ یہ لکڑی گھروںکی تعمیر اور فرنیچر بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

جب درختوں سے خالی پہاڑوں کے متعلق مقامی لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایوبیہ نیشنل پارک میں رہنے والوں کا شدید سردی میں بچائو کے لیے ان بیش قیمت درختوں کو کاٹنا ایک عام سی بات ہے، جس کی وجہ سے درختوں سے ہرے بھرے پہاڑچٹیل پہاڑوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ مزید معلومات کے مطابق ان علاقوں میں سات افراد کے ایک خاندان کو سالانہ 3.7ٹن لکڑی کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم فی خاندان درختوں کی کٹائی کا تناسب 11.2ٹن ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں درختوں کو کس بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق سطح سمندر سے 5سے 8ہزار فٹ بلند جنگلات 60 فی صد مون سون کا سبب بنتے ہیں اور 1760ایم ایم سالانہ بارش کو برسانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ درختوں کی وجہ سے اگر بارش معمول سے زیادہ ہو جائے تو یہ گھنے جنگلات بارش کے پانی کو 72گھنٹے روکے رکھتے ہیں اور درخت بارش کے پانی کا بڑا حصہ اپنے تنوں میں جذب کرلیتے ہیں، جسے بعد ازاں وہ آہستہ آہستہ زمین مین منتقل کرتے ہیں۔ یہ پانی زیرزمین قدرتی راستوں سے ہوتا ہوا نرم زمین سے ابھر آتا ہے، جو چشمے کی صورت میں مقامی آبادیوں کے لیے پانی کا بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم درختوں کی بے دریغ کٹائی کے سبب یہاں کے عوام ان قدرتی چشموں سے محروم ہو تے جارہے ہیں۔ قلت آب کی کمی کے سبب مقامی خواتین کو کئی کئی کلومیٹر دور سے اور مشکل پہاڑی راستوں سے پینے کا پانی لانا پڑتا ہے اور صرف ایک مٹکا پانی لانے کے لیے ان خواتین کے 6گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں۔ ایوبیہ نیشنل پارک میں 27 قدرتی چشمے بہتے تھے جس میں سے اکثر چشمے خشک ہوچکے ہیں۔ 1884میں انگریزوں نے گلیات کے پانی پائپ لائن کے ذریعے مری اور ملحقہ آبادیوں کو سپلائی کرنا شروع کیا، جو تاحال جاری ہے اور مقامی آبادی کے لیے اب یہی پانی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

ایوبیہ نیشنل پارک یا اس جیسے دیگر پہاڑی علاقوں میں سب سے اہم مسئلہ درختوں کی کٹائی ہے۔ خصوصاً برمی Taxus wallichianaدرخت کی کٹائی بہت تیزی سے جاری ہے۔ یہاں کا شدید موسم پہاڑوں پر ان درختوں کی کٹائی کا سبب بن رہا ہے۔ کوئی متبادل نہ ہونے کے باعث لوگ سردی سے محفوظ رہنے کے لیے بے دریغ درخت کاٹ رہے ہیں۔ لوگوں کے مطابق سب سے زیادہ اور تیزی سے برمی Taxus wallichiana نامی درخت کاٹا جارہا ہے۔ برمی کا درخت درمیانے قد کا اور ایک سدا بہار درخت ہے۔ یہ درخت کینسر کے علاج کی حیرت انگیز صلاحیت رکھنے کے باعث طبی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اس کے علاوہ اس کی ایک اور حیرت انگیز خصوصیت اس کی لکڑی میں گلنے سڑنے کے خلاف قوت مدافعت ہے، جس کی وجہ سے تعمیرات اور فرنیچر میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ لکڑی کی اسی خصوصیت کی بنا پر برمی کی لکڑی کو مقامی سطح پر قبروں کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ استعمال صدیوں سے مقامی سطح پر جاری ہے۔ ڈبلیو ٹبلیو ایف نتھیا گلی کے زیراہتمام 2011 میں گلیات کے 5 گائوں پر محیط ایک سروے کیا گیا، جس کے مطابق فی گائوں سالانہ 10 سے15 بالغ درخت صرف قبروں کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جب کہ گھروں کی تعمیر اور فرنیچرسازی میں برمی کا استعمال اس سے علیحدہ ہے۔

برمی درخت کی کٹائی روکنے اور اس درخت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے علاقے کے اسکولوں اور مقامی سطح پر شعور کی بیداری کی مہم چلائی گئی، تاکہ مقامی لوگ اس درخت کی ماحولیاتی اور طبی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں اور اس درخت کی حفاظت اپنے ایک قیمتی وسیلے کے طور پر کرسکیں۔ لوگوں کو برمی کی کٹائی سے روکنے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی متبادل تو چاہیے تھا، اس لیے WWF نے تجرباتی طور پر ایوبیہ نیشنل پارک کے ارد گرد 5 گائوں کا انتخاب کیا، جن میں بکوٹ، نتھیا گلی، پالاک، نملی میرا اور بروٹ شامل ہیں، اور وہاں کی چھوٹی چھوٹی مقامی تنظیموں (CBOs)کو فنی اور مالی امداد فراہم کی، تاکہ وہ مقامی افراد کو قبروں کی تیاری کے لیے برمی کی لکڑی کے بجائے سیمنٹ کی سلیبوں کے استعمال پر راغب کریں۔

اچھی بات یہ ہے کہ مقامی افراد نے اپنی صدیوں پر محیط عادت یا روایت کو بدلتے ہوئے سیمنٹ کی سلیب کے استعمال کو قبول کرلیا ہے اور اب قبروں کی تیاری کے لیے سیمنٹ کی سلیب کا استعمال شروع ہوچکا ہے۔ یہ ایوبیہ نیشنل پارک میں درختوں کی کٹائی روکنے کے حوالے سے ایک انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔

برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایوبیہ نیشنل پارک میں 80 اقسام کے ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں۔ یہ پودے مقامی دواساز ادارے دوائوں کی تیاری میں استعمال کررہے ہیں۔ ان ادویاتی پودوں پر تحقیق کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور پشاور یونیورسٹی کے طلبہ بھی یہاں آتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کا سرسبز سایہ زمین سے ہٹتا جارہا ہے۔ قومی سطح پر جو بھی بلندبانگ دعوے کیے جائیں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم دن بہ دن اپنے جنگل کھوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جنگلات پر انحصار کرتی حیاتیاتی تنوع بھی۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک و زراعت(FAO) کے مطابق پاکستان کے جنگلات صرف 2.2 فی صد یعنی 1.687 ملین ہیکٹرز پر مشتمل ہیں اور ان میں سے 42,000 ہیکٹر سالانہ کے حساب سے ہم مزید جنگلات کھو رہے ہیں۔ اسی تنظیم کے مطابق ہم 1990سے 2010 کے دوران 840,000 یعنی جنگلات کا 33.2 فی صد کھوچکے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے جنگلات سکڑ رہے ہیں اور اس کے ذمے دار بھی ہم خود ہی ہیں۔

ایک بالغ درخت سالانہ دو سے تین کیوبک میٹر لکڑی فراہم کرتا ہے۔ 4.6 ٹن آکسیجن مہیا اور 6.3 ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ سالانہ جذب کرتا ہے، اور 55 کلوگرام نامیاتی مادے، جانوروں کے لیے چارہ اور جلانے کے لیے لکڑی مہیا کرتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرنے کے تیکنیکی عمل کے ذریعے ہوا کو صاف کرتا ہے، جس کی قدر 102ڈالر سالانہ ہے۔

ایک بالغ درخت 30,000 لیٹر پانی اپنی جڑوں کے ذریعے زمین میں جذب کرتا ہے اور ایک چھوٹے آبی ذخیرے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بارش کے پانی کو تیزی سے بہہ کر ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور مٹی کے کٹائو کو روکتا ہے۔

اگر سرسبز اور زرخیز اور حیاتیاتی تنوع سے مالامال ایوبیہ نیشنل پارک اور اس جیسے دیگر پہاڑی علاقوں کے وسائل کو محفوظ رکھنا ہے تو ہمیں فوری طور پر مقامی آبادی کو متبادل ایندھن کے ذرائع مہیا کرنے ہوں گے، تاکہ جلانے اور سردیوں کی شدت سے خود کو بچانے کے لیے انہیں یہ قیمتی درخت نہ کاٹنے پڑیں۔ اگر ہم انہیں یہ متبادل ذرائع مہیا نہیں کرتے تو پھر بہت جلد یہ سرسبز پہاڑ بلوچستان کے پہاڑوں کا منظر پیش کررہے ہوں گے۔

اب جب کہ وزیراعظم نے قومی سطح پر ’’گرین پاکستان پروگرام‘‘ اور خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبائی سطح پر ’’بلین ٹری سونامی‘‘ کا آغاز کردیا ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ وہ نئے پودے لگانے کے ساتھ ملک بھر کے جنگلاتی وسیلے کی حفاظت بھی پیش نظر رکھیں گے تبھی منظر میں کوئی تبدیلی آسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔