نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کر دیا جائے (آخری قسط)

رحمت علی رازی  اتوار 17 اپريل 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ہمیں جب یہ ذہنی تجربہ ہوا کہ قومی احتساب بیورو ایک ایسے بے جان قالب کی ہیئت اختیار کر چکا ہے جسے نفسی حوادث اور داخلی خلفشار نے ایک جیتے جاگتے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، تو ہم سے رہا نہ گیا اور شدتِ احساس کے غلبہ نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ موہنجوداڑو کے ان آثار کو ان کے اصل روپ میں لا کر اپنے حصے کی چمن آرائی ہی کر لی جائے۔

نیب پر قلمبند کیے گئے ہمارے کثیرالمواد کالم کی یہ ساتویں اور آخری قسط ہے۔ گزشتہ چھ اقساط میں ہم نے حتیٰ المقدور یہ بلیغ کاوش کی کہ ریاضیاتی اصولوں کی روشنی میں نیب کے ساختیاتی و تعمیری نقائص اور قانونی و انتظامی خامیوں کو طشت از بام کیا جائے۔ اس حصہ میں ہماری سعی ہو گی کہ احتساب بیورو کی اصلاح کے لیے چند معقول داخلی و خارجی تجاویز پیش کر سکیں، جیسا کہ ہم نے عہد بھی کیا تھا۔

ہمیں بخوبی ادراک ہے کہ حکومتی ذمے دار حلقے ہمارے ان نیک مشوروں کو مالِ مفت کا درجہ بھی نہ دینگے‘ تاہم مسرت کن اَمر یہ ہے کہ کم از کم تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے چند اہلِ دانش و بینا نے ہماری اس محنت کو ضرور لائقِ اعتناء جانا اور جو جزئیات انہیں قابلِ عمل نظر آئیں انہیں بِِل کی شکل میں پارلیمان میں بھی پیش کر دیا۔ پچھلی قسط میں ہم نے نیب کے ’’لاء فار پیراڈائز‘‘ یعنی پلی بارگین کے منفی پہلوؤں پر کافی سیر حاصل بحث کی تھی اور اسے بدعنوان مافیا کی راحت و حمایت کے لیے وضع کیا گیا ایک بھونڈا قانون قرار دیا تھا۔

تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں نیب کے خلاف جو بِل متحرک کیا، اس میں یہی معروضی موقف اختیار کیا کہ پلی بارگین ایک ملزم دوست نظام ہے، اسے نیب کے رولز آف لاء سے فی الفور حذف کیا جائے یا اس میں ترمیم کر کے اس قابل بنایا جائے کہ غریب عوام کا ایک دھیلا لوٹنے والے بھی کرپشن ثابت ہونے پر مُک مکا کرنے کے بجائے سیدھے پسِ دیوارِ زنداں پہنچ جائیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ بڑے بڑے قومی مجرم جب نیب کے ہتھے چڑھتے ہیں تو وہ لوٹی ہوئی دولت کا ساٹھ سے ستر فیصد حصہ قسطوں میں واپس کر کے برأتِ جرم لے لیتے ہیں‘ گویا پلی بارگین کا قانون بااثر ملزمان کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

ہماری مجوزہ رائے یہی ہے کہ معاشرے میں احتساب کا سخت خوف راسخ کرنے کے لیے پلی بارگین کے قانون کو پہلی فرصت میں ختم کر دینا چاہیے اور اس کی بجائے ایک ایسا قانون متعارف ہونا چاہیے جس کی رو سے کرپشن ثابت ہو جانے پر ملزمان سے پائی پائی کا حساب بھی سود سمیت وصول کیا جا سکے اور اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے انہیں جیل کی چکی بھی پیسنی پڑے۔

اس بابت کرپشن کی مالیت کا والیم مقرر ہونا چاہیے جس کے مطابق سزا کا تعین ہو سکے‘ بالفرض پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے کی کرپشن پر چھ ماہ یا ایک سال کی سزا ہو‘ پھر اسی تناسب سے لوٹی گئی کُل دولت پر سزا کی میعاد کو ضرب دیدی جائے۔ سرکاری ملازمین اگر کرپشن میں سزاوار قرار پائیں تو ان کی ملازمت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں اور پنشن کی رقوم بھی مسدود کر دی جائیں۔

اگر کسی سیاستدان کو کرپشن کے ضمن میں خواہ ایک دن کی بھی سزا ہو جائے تو الیکشن کمیشن کا یہ اولین فریضہ ہونا چاہیے کہ ایسے سیاستدان کو تاعمر بلیک لسٹ قرار دیدے۔ کونسلر سے لے کر وزیراعظم اور گورنر سے لے کر صدر تک جس پر بھی کرپشن کا الزام لگے، نیب اس کی بنیادی چھان بین کر کے یہ واضح کرے کہ آیاکیس میں کوئی جان ہے یا نہیں‘ اگر کیس میں کچھ ثابت کیے جانے کا امکان ہو تو ملزم کو نوٹس جاری کیا جائے کہ وہ فوراً سرکاری عہدے سے الگ ہو اور تفتیش کے لیے تیار ہو جائے‘ ایسی صورت میں صدر اور وزیراعظم جیسی ہستیوں کو بھی بلاتوقف مستعفی ہو جانا چاہیے۔

میگا سکینڈل کے معاملہ میں ملزم کی پروفائل اور کرپشن کے ثمرات کو تمام اخبارات میں مشتہر کیا جائے اور ملزم کے سوشل کریکٹر پر عوام الناس کی رائے طلب کی جائے، اس سلسلے میں عوام کی طرف سے نشاندہی کے لیے معقول نیٹ ورک قائم کیا جائے اور جب جب ملزم کو تفتیش کے لیے سَمن کیا جانا مقصود ہو، نشاندہی کنندگان کو بھی ملزم کے روبرو بلایا جائے جب کہ  تحقیقات کی جملہ کارروائی میڈیا پر لائیو نشر کی جائے۔

نیب میں زیادہ ترعیوب محکمانہ ہیں‘ بعض ملازمین کو شکایت ہے کہ ان کی آواز چیئرمین تک نہیں پہنچتی‘ اس غایت سے چیئرمین نیب کا ایک ذاتی میل ایڈریس ہونا چاہیے جس پر تمام افسران چیئرمین کو معہ دستاویزی ثبوت یا بغیر دستاویزی ثبوت کے اپنی شکایات بھیج سکیں جن کی ڈائریکٹر سطح کا ایک آفیسر سکروٹنی کرے جس کی روشنی میں چیئرمین کی مقرر کردہ ماہر نگران ٹیمیں نیب کی متعلقہ فائلیں قبضہ میں لے کر سخت چھان بین کر سکیں‘ اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ جب کوئی کیس افسر، ڈائریکٹر یا ڈی جی وغیرہ کسی تفتیشی افسر کو ہراساں کر کے اس کے ضمیر کے خلاف کوئی فیصلہ کروانے لگے گا تو تفتیشی افسر چیئرمین نیب کو اپنا موقف پہنچا کر اس کا تدارک کروا سکے گا۔

اگر چیئرمین نیب یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ڈائریکٹرز اور کیس افسران تفتیشی افسر کی میرٹ پر دی جانیوالی رائے کا احترام کرتے ہیں اور دیانتداری سے اپنی رائے قانونی احکامات کے مطابق فائل پر لکھ کر دیتے ہیں یا تفتیشی کو اپنی منشاء کے مطابق ریکارڈ منگوانے، اپنی صوابدید پر ملزموں کو سَمن کرنے یا نہ کرنے کا پابند بنانے اور اپنی من مرضی کی تفتیشی رپورٹ لکھوانے پر مجبور نہیں کرتے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ چیئرمین صاحب تلخ زمینی حقائق سے مطلقاً آگاہ نہیں ہیں۔

تفتیشی افسر کے پاس گنتی کے چند اختیارات ہوتے ہیں‘ اگر ان پر بھی قدغن لگا دیا جائے تو وہ تھانہ محرر سے بھی گیا گزرا ایک منشی بن کر رہ جائے گا۔ کیس کے میرٹ کے مطابق کون کون سا ریکارڈ کہاں کہاں سے طلب کرنا ہے‘ کس کس چشم دید گواہ کو، کس کس ماہر کو، کس کس مشتبہ شخص کو اور کس کس  مدعی کو سَمن کرنا ہے‘ پھر کس کس جگہ کا گراؤنڈ چیک کرنا ہے، کس کس جگہ کا سرچ وارنٹ عدالت سے لینا ہے اور کس کس کو کب کب گرفتار کرنا ہے، یہ سب تفتیشی آفیسر کے حدود و دوائر ہیں جنہیں وہ کسی بھی کیس کی تفتیش کے دوران استعمال میں لا سکتا ہے‘ وہ ڈی جی سے لے کر چیئرمین تک اور ٹرائل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کیس کی تفتیش کا ہر طرح سے ذمے دار ہے مگر اس کی اوقات صرف اور صرف کیس کے ایک تفتیشی افسر کی ہے‘ اسے ایک اختیار بھی تفویض نہیں کیا گیا اور اس کے ہر ایک حرکہ و سکنہ پر کئی ویٹو پاور لگا دی گئی ہیں۔

یعنی ڈائریکٹر کی رضاء و رغبت کے بغیر وہ ریکارڈ منگوا سکتا ہے نہ کسی بندے کو میرٹ کے مطابق طلب کر سکتا ہے کیونکہ خطوط جاری کرنے کا اختیار بھی نام نہاد ایس او پی کے ذریعے ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کے تحت القلم کر دیا گیا ہے۔ ایسی مثال دوسرے کسی بھی تفتیشی ادارے بشمول ایف آئی اے، اے سی ای اور پولیس وغیرہ میں کہیں نہیں ملتی۔ جنابِ چیئرمین اگر ڈائریکٹر کو ایماندار اور تفتیشی افسران کو کرپٹ تصور کرتے ہیں تو ہماری حلیمانہ صلاح ہے کہ وہ تفتیشی اور کیس افسروں سے صرف کلرکی کا کام ہی لیں جب کہ  ریمانڈ درخواستوں، وارنٹ گرفتاری کے اجراء کی سفارشات اور انکوائری و تفتیشی رپورٹوں پر ڈائریکٹرز کے دستخط کروایا کریں، عدالت میں چالان بھی ان ہی کے دستخطوں سے ہی بھیجا کریں۔

ایگزامینیشن اور جرح بھی ان ہی پر ہوا کرے اور نتائج کے بنیادی ذمے دار بھی وہی ہوا کریں۔ نیب کا سب سے بڑا نقص ہماری نظر میں یہ ہے کہ اختیارات کسی اور کی جیب میں ہیں جب کہ  ذمے داری کسی اور کے کندھوں پر ہے حالانکہ ساری دنیا کے نظاموں میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ صرف پاکستان کا احتسابی ادارہ ہے جہاں ڈائریکٹرز باقاعدہ خدا بنے ہوئے ہیں اور سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ وہ وِنگ کے اور وِنگ کے تمام کیسز کے مالک ہیں لہٰذا ان ہی کی خواہشات کیمطابق کیسوں کے فیصلے ہونگے۔

وہ جسے چاہیں گے گنہگار کروائیں گے اور جسکا چاہیں گے چالان کروائیں گے‘ لیکن وہ فائل کی نوٹنگ شیٹ پر ایسا کچھ نہیں لکھیں گے اور صرف تفتیشی افسر سے ہی رپورٹ تبدیل کروائیں گے، وہ بھی زبانی احکامات کے تحت یا پیلی پرچیوں پر کچی پنسل سے لکھ کر۔ اگر تفتیشی افسر ایسا کرنے سے انکار کریں تو ان کی چھٹی روک لی جاتی ہے‘ کوئی گمنام درخواست ڈلوا کر انکوائری لگوا دی جاتی ہے، ڈی جی کے کان بھر دیے جاتے ہیں، ٹرانسفر کروا دی جاتی ہے یا پی ای آر خراب کروا دی جاتی ہے۔

اگر اب بھی رئیسِ نیب کی فہم میں یہ بات نہیں آتی کہ تفتیشوں کا رزلٹ صحیح کیوں نہیں نکل رہا اور نیب کی پرفارمنس قابلِ اطمینان کیوں نہیں، جتنی کہ اس کی اہلیت ہے، تو پھر انہیں اپنی اہلیت کے بارے میں ضرور غور کر لینا چاہیے۔

ہمارے علم میں آیا ہے کہ کچھ نامعقول افراد نے چیئرمین کو گمراہ کیا ہے کہ تفتیشی افسران پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے ان کی ہر ایک حرکت کو ڈائریکٹر کے تابع رکھنا ضروری ہے، یہ کیسی احمقانہ منطق ہے۔ بھئی چیک اینڈ بیلنس تو کسی کو اختیار تفویض کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے ناں، کہ وہ اپنا اختیار صحیح طور پر استعمال کر رہا ہے یا نہیں۔ جب اسے اختیار دیا ہی نہیں تو پھر چیک اینڈ بیلنس کیسا؟ چیک اینڈ بیلنس تو ڈائریکٹر پر ہونا چاہیے جسکے پاس سارے اختیارات ہیں مگر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ ایس او پیز کو دوبارہ زیرغور لایا جائے اور جسے تفتیشی مقرر کیا جائے اختیارات بھی اسی کو دیے جائیں۔

ہاں اس پر نگرانی بڑھا دی جائے اور ملزمان کے دوستوں، عزیزوں، دفتری ساتھیوں اور وکیلوں سے اس کی اریبی تصدیق جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی تفتیشی ٹھوس شواہد کی روشنی میں کرپشن میں ملوث ثابت ہو تو اسے قرار ِواقعی سزا دی جائے۔ الزام اور شک کا فائدہ اس پر کرپشن کا جرم ثابت ہونے تک حسبِ دستور اسے دیا جائے کیونکہ نیب کے تفتیشی افسر پر اصولوں پر کاربند رہنے کیوجہ سے ملزم فریق کی طرف سے غیر مصدقہ الزامات لگنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

تجویز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام تفتیشی افسران کو کوئی ایسا چینل تفویض کر دیا جائے جسکا ہیڈ براہِ راست تفتیشی افسران کی خفیہ فیڈ بیک ملاحظہ کر لے اور اس کی ابتدائی جانچ پڑتال کر کے چیئرمین نیب کو بریف کر سکے تا کہ چیئرمین صاحب نیب ہیڈ کوارٹرز کی تجربہ کار اسپیشل ٹیمیں روانہ کر کے تفتیشی افسران کے ساتھی افسران اور سینئرز کی کرپشن پکڑ سکیں۔ ایسا کرنے سے بہت سے ایسے کیس پکڑے جا سکیں گے جن کا والیم اور پوٹینشل کروڑوں اربوں کا ہو  گا لیکن ڈائریکٹر صاحبان نے ملزمان سے ملی بھگت کر کے بِنا انکوائری اور تفتیش کے شواہد کی عدم دستیابی کے بہانہ پر ان کی فائلوں کو داخل دفتر کر کے قالین کے نیچے چھپا دیا ہو گا۔ تجویز کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جتنی بھی انکوائریاں یا تفتیش گزشتہ دو سالوں میں بند ہوئی ہیں۔

ان سب کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے اور نتائج دیکھ کر حیران و پریشان ہونے کے بجائے اس کے لیے ایف آئی اے، پولیس اور نیب افسران پر مشتمل جے آئی ٹیز بنا کر بھیجی جائیں۔ بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ جو ٹیم انسپیکشن کے لیے جاتی، میزبان اس کی خوشامد اور سیوا ہی اس قدر کر دیتے ہیں کہ بعض معائنہ کار ان سے پیار کرنے لگتے ہیں اور ان پر اندھا اعتماد ظاہر کرنے لگ جاتے ہیں۔

ایسے بند کیسوں کا تفتیشی آڈٹ ایسے ایماندار افسران سے کرایا جائے جو بذاتِ خود تفتیشی رہے ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ معاشیات کا کوئی لیکچرار، زراعت کا کوئی ماہر یا لوکل گورنمنٹ میں سیوریج کی نگرانی کرنیوالا کوئی ایسا انجینئر کیسوں کے آڈٹ پر مامور کر دیا جائے جسکے سابقہ محکمہ سے آئے ہوئے خط میں واضح طور پر لکھا ہوا ہو کہ بندہ ہٰذا محکمہ کا ریگولر افسر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی گزشتہ سروس مستقبل میں پرموشن کے لیے شمار ہو سکتی ہے۔ تجویز کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ بند کیے گئے کیسز کی تصدیق کے وقت یہ بھی دیکھا جائے کہ تفتیشی اور اس کے ڈائریکٹر نے کہاں کہاں سے کتنا ریکارڈ منگوایا؟ کتنے لوگوں کو سَمن کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے؟

اگر ایسا نہ کیا گیا ہو اور تفتیشی حضرات اور ڈائریکٹر صاحبان نے اگر یہ لکھ کر کیس بند کروا دیا ہو کہ سرِدست ثبوت دستیاب نہیں ہیں، تو نیب ہیڈکوارٹرز کی ٹیم ان سے دریافت کرے کہ انھوںنے کون کون سا ریکارڈ اکٹھا کیا، کون کون سے ثبوت حاصل کرنے کی کوشش کی یا پھر ملزمان کی فیور میں کیس کو بند کرنے کے لیے کون کون سے دفاعی ثبوت جمع کیے اور کن شواہد کی بنیاد پر کیس کو بند کروایا۔ تفتیشی اور ڈائریکٹر سے یہ بہرطور پوچھا جائے کہ انکوائری کرتے وقت شواہد اکٹھے کرنا تو ان کی ذمے داری تھی اور انہیں شواہد یا تو ملزم کے خلاف اکٹھے کرنا تھے یا اس کے حق میں۔ اگر شواہد اس کے خلاف تھے تو کیس اگلی سٹیج پر لیجانا تھا اور اگر شواہد ملزم کے حق میں مل گئے تو کیس بند کرنا تھا۔

پھر یہ شواہد دستیاب نہ ہونے والا بہانہ کیا ہوا؟ معائنہ ٹیم کے لیے یہ جائزہ لینا اور بھی ناگزیر ہو گا کہ اگر ایک کیس میں مزید تین سو ٹرانزیکشنز تھیں جن کی ویری فکیشن کرنا مقصود تھی جب کہ تفتیشی صاحبان نے300 میں سے صرف 10 کی تصدیق کی ہے، باقی 290 کا ذکر ہی نہیں‘ بلکہ ان کا تو ریکارڈ تک منگوانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ کیا یہ کام پیسے لے کر کیا گیا یا صرف تعلق بنانے کے لیے‘ یا پھر اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ آپ کو ایسے کیسز بھی ملیں گے جن کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ منگوا کر جانچ پڑتال کرنے سے کئی ارب روپے کا کیس بن سکتا تھا جو نیب کی نیک نامی کا باعث بھی ہوتا، لیکن ملزم پارٹی کے بااثر اور ارب پتی ہونے کی وجہ سے متعلقہ افسران نے اپنے پیشہ ورانہ فریضے پر ان سے تعلق بنانے کو زیادہ ترجیح دی۔

ہر کیس میں نیب افسران رشوت وصول نہیں کرتے بلکہ ملزم پارٹی کو جتوا کر اس پر احسان چڑھا دیتے ہیں اور بعدازاں ان سے مختلف انواع و اقسام کے مالی و معاشرتی فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں، ایسے افسران کا سخت ترین محکمانہ احتساب ہونا چاہیے کیونکہ نیب کے ادارہ کا حقیقی دار و مدار ایسے کیسوں کے بنیادی تفتیشی پہلوؤں سے ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیب کی اصلاح کے لیے ہماری ایک تجویز یہ بھی ہے کہ نیب کے انٹیلی جنس کے نظام کو مستقل بنیادوں پر ترتیب دیا، پھیلایا اور منظم بنایا جائے۔ نیب کا موجودہ انٹیلی جنس نظام خودفریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہر ریجن میں صرف ایک ایک کرنل تین تین افراد کے ساتھ بٹھایا ہوا ہے، نہ تو ان کرنل صاحبان کے پاس اسٹاف کی مطلوبہ تعداد ہے۔

نہ ان کے پاس کوئی آلات ہیں، نہ گاڑیاں ہیں اور نہ ہی مخبروں کو دینے کے لیے اضافی فنڈز۔ یہ تین افراد نیب کے اوسطاً 100 افراد، ان کے پانچ سو کیسز اور ان کیسز کے لگ بھگ دو ہزار ملزمان کی کیا جاسوسی اور کیا نگرانی کرینگے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ نیب ہیڈکوارٹر کی سطح پر انٹیلی جنس کا مکمل ڈائریکٹوریٹ جنرل بنایا جائے۔ نیب کے کل جتنے افسران تفتیش میں سرگرمِ عمل ہیں ان کی ایک چوتھائی تعداد انٹیلی جنس افراد پر مشتمل ہونی چاہیے‘ جن کا ایک تہائی حصہ نیب کے اپنے تفتیشی افسران کی نگرانی و اسکروٹنی کے لیے مقرر کر دیا جائے‘ یہ کل افسران کی تعداد کا صرف 8.3 فیصد بنے گا جو ہمارے خیال میں کم از کم تعداد ہے۔ اس ہیڈکوارٹر کے ڈائریکٹر جنرل کے ماتحت تین ڈائریکٹر صرف نیب ہیڈکوارٹر میں ہی بیٹھیں۔

’نیب ہیڈکوارٹر انٹیلی جنس‘ کے تین شعبے ہوں۔ ایک شعبہ اندرونی نگرانی و اسکروٹنی کا کام کرے۔ دوسرا ملزمان کی نقل و حمل، مالی معاملات، فرنٹ مین، کارِخاص، دوستوں اور ملازمین کی معلومات اکٹھی کر کے تفتیشی افسران کے ساتھ تعاون کرے۔ تیسرا شعبہ مختلف دفاتر، مارکیٹوں، یونیورسٹیوں اور جنرل سوسائٹی میں آئی بی کی طرز پر انٹیلی جنس کو ترتیب دے کر پھیلائے اور کرپشن کے میگا سکینڈل ڈھونڈ کر نیب کے چیئرمین کو رپورٹ کرے کیونکہ نیب کے دیباچہ کے مطابق نیب کا سب سے پہلا کام کرپشن کا سراغ لگانا ہے۔ نیب ہیڈکوارٹرز انٹیلی جنس کے ڈی جی اپنے ریجنل ڈائریکٹر کے ساتھ رابطے میں رہیں اور ان سے براہِ راست ان کے ریجن میں تینوں شعبوں کی معلومات یکجا کر کے چیئرمین کو رپورٹ کریں اور ان کا فالو اَپ بھی کریں۔ ہر ریجنل ڈائریکٹر تین تین اے ڈی اپنے ماتحت رکھے جو ریجن کے تینوں شعبوں کے علیحدہ علیحدہ انچارج ہوں۔

ہر اے ڈی اپنے ریجنل ڈائریکٹر کو بھی اور فیلڈ کے متعلقہ ہیڈکوارٹر کو بھی بریف کرے۔ نیب انٹیلی جنس اندرونی احتساب و نگرانی کے شعبہ کے امورِ کار میں تمام ملزمان سے تفتیشی افسروں اور دیگر افسروں کے بارے میں مطلوبہ معلومات اکٹھی کر کے اسے کراس چیک کرے کیونکہ زیادہ تر ملزمان میرٹ والے تفتیشی افسران کے دشمن ہوتے ہیں جو غلط معلومات ہی مہیا کرینگے جن کی مکمل اسکروٹنی ساتھ ساتھ ہی ہوتی رہے گی‘ اس سے بیگناہ افسران بیگناہ قرار پائیں گے اور جو کرپٹ ہونگے وہ ثبوتوں کے ساتھ گرفت میں آ جائینگے۔ علاوہ ازیں یہ انٹیلی جنس وِنگ ہر سطح کے آفیسر کی خفیہ نگرانی بھی کرے اور چونکہ بڑے عہدہ کے افسران کے اختیارات اور ذمے داریاں غیرمعمولی ہوتی ہیں، اس لیے چیکنگ کا معیار بھی اسی حساب سے ہونا چاہیے۔

ایک بات بہرحال طے ہو جانی چاہیے کہ نیب کے افسران اہم ملکی نوعیت کا کام پر مقرر ہوتے ہیں چنانچہ ان کے بارے میں قیاس و تفریض پر مبنی بے بنیاد رپورٹ بازی پر بھی سزا کا قانون ہونا چاہیے۔ اس انٹیلی جنس وِنگ کو چاہیے کہ تفصیل میں جا کر کام کرے اور کم از کم افسروں کی آڈیو، ویڈیو، تعاقب، دستاویزاتی ثبوتوں، کرپشن کی رقوم، جیولری یا جائیدادوں کو ٹریس کیے بغیر ان کے خلاف بے بنیاد رپورٹیں جاری نہ کرے‘ انٹیلی جنس چیف اپنے خفیہ افسروں سے یہ ضرور دریافت کرے کہ نیب افسر نے مشکوکیت کس بات میں دکھائی ہے؟ کیا اس نے کیس کے ملزم زیادہ ڈالے اور پیسے لے کر کم کر دیے ہیں؟ کیا ملزمان کی واجب ادائیگی کم کر دی ہے؟

کیا کسی کیس کو بے بنیاد دلیلوں پر بند کر دیا ہے؟ کون سا ثبوت اکٹھا کر کے ریکارڈ سے غائب کر دیا ہے؟ نیب کا نام استعمال کر کے کس شخص سے دستاویزاتی ثبوت حاصل کیے ہیں اور کس بندے کو وہ ثبوت واپس کر کے پیسے لے لیے ہیں؟ کس کی دکان یا مکان کا قبضہ اس سے کتنی رقم لے کر واگزار کروا کر دیا ہے؟ کس کی ٹرانسفر پوسٹنگ کروا کر اس سے کتنے پیسے لے لیے ہیں؟ کس کس کو ٹھیکے لے کر دیے ہیں اور ان میں اپنا حصہ رکھ لیا ہے یا کمیشن وصول کر لیا ہے؟ کس ملزم کو کونسا ثبوت یا کاغذ یا معلومات بیچ دی ہیں‘ اور وہ ثبوت یا کاغذ اگر اس افسر کا کیس نہیں ہے تو کہاں سے حاصل کیا ہے؟ اگر کسی دوسرے ساتھی افسر کے کیس کے سلسلے میں کوئی ڈیل کر رہا ہے تو ظاہر ہے اس تفتیشی افسر کو بھی شریک ِراز بنایا ہو گا۔ اگر وہ کسی ٹی وی میڈیا گروپ کے بندے سے مل رہا ہے تو میڈیا والے کو اپنے کس کیس کی معلومات دے رہا ہے اور وہ معلومات کون سے ٹی وی چینل پر کب چلی ہیں؟

اگر وہ کسی ٹی وی میڈیا گروپ کو اپنے کسی ساتھی آفیسر کے کیس کی معلومات دے رہا ہے تو اس ساتھی آفیسر کو شریکِ راز، شریک جرم بنائے بغیر وہ معلومات یا دستاویزات کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ اگر اسے شریک ِجرم بنایا ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اگر وہ کسی انٹیلی جنس ادارے کو اپنی نیب کی معلومات دے رہا ہے تو وہ کون سی معلومات ہیں اور وہ معلومات اس کے کون سے کیس کی ہیں‘ اور اگر وہ کسی اور کے کیس کی ہیں تو اس نے کسی اور کے کیس کی معلومات کیسے حاصل کی ہیں؟ اگراس نے ان میں سے کچھ بھی کیا ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ صرف یہ لکھ لکھ کر دیتے رہنا کہ یہ مشکوک ہے، یہ کرپٹ لگتا ہے، یہ مشکوک لوگوں سے ملتا ہے، یہ صحافیوں سے ملتا ہے۔

یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لوگوں سے ملتا ہے، یہ میڈیا کو انفارمیشن دیتا ہے، یہ سازشی ہے وغیرہ وغیرہ، انتہائی بیہودگی اور چھچھورا پن ہے۔ ایسی انٹیلی جنس رپورٹیں دینے والے انٹیلی جنس آفیسرز پر بھی کوئی تادیبی ضابطہ لاگو ہونا ضروری ہے۔ افسران کا تعاقب کرنا، ان کی نگرانی کرنا، ان کے کال ریکارڈز، میسج نکال کر پڑھنا، فون ٹیپ پر لگانا، ان کے ملزمان یا گواہان سے جا کر ان کے کردار کے بارے میں پوچھنا، اگر کوئی لیڈ ملے تو اس لیڈ کے پیچھے جا کر ثبوت کی کھوج کرنا ہر انٹیلی جنس افسر کا حق ہے لیکن مبہم الزامات لکھ لکھ کر رپورٹیں جمع کروانا انتہائی معیوب سی حرکت ہے۔ نیب کے آغازِ تشکیل سے لے کر تادمِ حاضر اس کا داخلی انٹیلی جنس شعبہ ایسا کوئی قابلِ صد افتخار معرکہ سر نہیں کر پایا جسے اس کی کارکردگی کا پیمانہ قرار دیا جا سکے۔ 2004-05ء میں نیب کے ایک کرنل کے گھر سے 75 لاکھ روپے کیش پکڑا گیا تھا‘ اس کے بعد تو انٹیلی جنس نے صحیح طور پر نیب کے کسی بھی افسر سے کسی رقم، جیولری، جائیداد یا کرپشن کے کوئی اور ثمرات برآمد نہیں کیے۔ ہاں اس بارہ سال کے طویل عرصہ میں چند بیگناہ افراد پر جھوٹے کیسز ضرور بنائے اور ان سے اپنی انا کے بدلے لیے ہیں۔

مرزا سلطان سلیم (ایڈیشنل ڈائریکٹر) کو نیب انٹیلی جنس نے سراسر بوگس اور بے بنیاد کیس میں گرفتار کر لیا تھا لیکن بعدازاں احتساب عدالت کے جج سید ناصر علی شاہ نے تاریخی فیصلہ لکھ کر انہیں باعزت بری کر دیا تھا۔ بعدازاں فضل ہادی ( اسسٹنٹ ڈائریکٹر) کو بھی گرفتار کیا گیا لیکن عدالت نے ان کو بھی باعزت بری کر دیا۔ 2007ء میں ثاقب فاروق (اے ڈی ) کو بغیر کسی وجہ کے ہی گرفتار کر لیا گیا حالانکہ ان کے پاس کسی رشوت دینے والی پارٹی کا کوئی کیس ہی نہ تھا بلکہ پورے نیب کے پی کے میں کسی رشوت دینے والے کا کوئی مقدمہ ہی موجود نہ تھا‘ حتیٰ کہ یہ بھی ثابت نہ ہو پایا کہ ثاقب فاروق موقع سے کیش لیتے ہوئے گرفتار ہوئے یا کیش لیتے ہوئے پکڑے جانے والے کا ان سے کوئی تعلق تھا۔ گزشتہ برس زاہد اسد نامی ایک بینکنگ ایکسپرٹ کو نیب پنجاب کی انٹیلی جنس نے ایک لاکھ روپے لیتے ہوئے گرفتار کیا لیکن وہ نیب کا افسر نہیں تھا۔

اگر نیب ہیڈکوارٹرز کی انٹیلی جنس 12 سال میں نیب کا کوئی افسر کرپشن کرتے ہوئے گرفتار نہیں کر سکی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نیب میں 5 یا 10 فیصد کرپٹ افسران بھی نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیب انٹیلی جنس ایک کلی طور پر ناکام شعبہ ہے جسے از سر نو منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے، بہ ایں ہمہ نیب انٹیلی جنس ہیڈکوارٹرز کا خارجی ڈائریکٹوریٹ نیب کے ملزمان کی نگرانی، ان کی گرفتاریوں، ملزمان کی نقل و حمل، ان کے دفاتر، رہائش گاہوں، ان کے کارِ خاص دوستوں اور بے نام مدعیوں کا سراغ لگانے کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔

اس ڈائریکٹوریٹ کی کارگزاری سے اشتہاری ملزمان کو وقت پر گرفتار کرنے سے کیسز بروقت حل ہو سکیں گے اور شواہد و کرپشن کے ثمرات بلا تاخیر ہاتھ آ جائینگے‘ کیونکہ وقت پر لگایا گیا ایک ٹانکا بے وقت کے نَو ٹانکوں سے بچاتا ہے‘ اس ڈائریکٹوریٹ کے کام کرنے سے نیب کے پانچ سو سے زائد اور سات سات سالوں سے مفرور اشتہاری کھوجنے میں مدد ملے گی‘ اور نیب کی ریکوری میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیب ایک غیرمعمولی اہمیت کا حساس قومی ادارہ ہے۔

اس کی کمیوں اور کمزوریوں پر ماضی میں اگر نَاتوجہی کا مظاہرہ نہ ہوتا تو آج یہ ایک قابلِ رشک محتسب ادارہ ہوتا‘ ہم یکسر قطعِ امید نہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ہماری ان بے مایہ تجاویز کو متعلقہ حلقۂ اثر اپنے خانۂ التفات میں واجب جگہ دیگا۔ چیئرمین کو چاہیے کہ وہ نیب کی خامیاں رفع کرنے کی غرض سے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کی تشکیل کے لیے خود حکومت سے درخواست کریں‘ اس کمیشن کا سربراہ ارفع عدلیہ کا حاضرِ سروس جج ہو‘ اور اس کے ممبران میں کسی قائمہ کمیٹی کا کوئی رکن یا سیاستدان شامل نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔