ٹیکس چوری کی علت

عابد محمود عزام  اتوار 17 اپريل 2016

کچھ دنوں سے پاناما لیکس نے دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ پاناما لیکس کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد کئی ممالک کے عوام نے اپنے وزیراعظم سے استعفیٰ لے لیا ہے اور بعض میں استعفیٰ لینے کے لیے عوام سڑکوں پر ہیں جب کہ متعدد ممالک میں شفاف تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے لیکن پاکستان میں ہماری حکومت کا رویہ مثبت اور جمہوری ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں درست سمت گامزن ہیں۔

خود کو بے قصور ثابت کرنا حکومت پر لازم، تحقیقات مکمل ہونے تک اپنا عہدہ چھوڑ دینا اخلاقی فرض ہے جب کہ صاف شفاف احتساب کی سعی کرنا اپوزیشن کی ذمے داری ہے لیکن معاملے کی شفاف تحقیقات، کرپٹ افراد کے خلاف کارروائی کرنے، ٹیکس چوروں کو گرفت میں لانے اور احتساب کا نظام مضبوط کرنے پر اتفاق کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بولیاں بول رہی ہیں۔ کوئی سیاستدان ہر حال میں وزیراعظم سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کررہا ہے جب کہ کوئی سیاستدان وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرتے ہوئے پاناما لیکس کو عالمی سازش قرار دینے پر تلا ہوا ہے حالانکہ وزیراعظم کی کرپشن کے وکیل صفائی بننے کی بجائے اتحادیوں کو بھی سب کے ساتھ مل کر امیروغریب کے احتساب کے نظام کو شفاف اور مضبوط کرنے کی سعی کرناچاہیے تھی کیونکہ ہمیشہ غریب تو قابل گرفت ٹھہرتا ہے لیکن امیر کا کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔

غریب کے لیے تو قانون فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے لیکن امیروں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔اس معاملے میں بھی یقینا ایسا ہی ہوگا۔ کچھ روز کے بعد یہ معاملہ خود ہی دب جائے گا۔پاکستان میں ہمیشہ غریب پستا ہے جب کہ امیر ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔دنیا بھر کی حکومتوں کا دارومدار عوام وخواص کی طرف سے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ٹیکسوں پر ہوتا ہے مگر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ملازمت پیشہ اور غریب عوام دیتے ہیں جن پر بیشمار بے تکے ٹیکس عاید کیے ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف بیشتر ایلیٹ کلاس کو ہر طرح کی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

جن میں بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور وڈیرے شامل ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں امیروں سے ٹیکس لے کر وہ رقوم غریبوں کی فلاح بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں بالخصوص حکمرانوں کی موج مستیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ابھی تو سمندر پار اثاثوں کی دیکھ بھال کرنیوالی صرف ایک کمپنی کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ اگر دبئی، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، جنوبی فرانس، اسپین،کینیڈا، امریکا، ملائیشیا اور آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک میں پاکستانیوں کی ساری دولت کا بھانڈا پھوٹ گیا تو قوم دنگ رہ جائے گی کیونکہ پاکستانی اشرافیہ کی بہت بڑی رقوم بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے۔

قومی خزانے سے لوٹے گئے سیکڑوں ارب ڈالر بیرونی بینکوں میں پڑے ہیں جنھیں ملک میں واپس لاکر نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اربوں ڈالر کے قرضے چکائے جا سکتے ہیں بلکہ اس دولت کو عوام کی فلاح و بہبود پراور عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرکے ملک سے غربت جہالت بدامنی اور دہشتگردی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر صرف اور صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی موجود دولت کو ہی پاکستان واپس لے آیا جائے تو پاکستان 30 سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے۔ 6 کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جاسکتی ہیں۔ کسی بھی دیہات سے اسلام آباد تک چار رویہ سڑکیں تعمیر ہوسکتی ہیں۔ 500 سماجی منصوبوں کو ہمیشہ کے لیے مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کا ہر شہری 60 سال کے لیے ماہانہ 20 ہزار تنخواہ حاصل کرسکتا ہے اور پاکستان کو کسی بھی عالمی بینک یا آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی جب کہ رپورٹ کے مطابق دبئی میں پاکستانیوں کی سوئٹزرلینڈ سے دس گنا زیادہ غیر قانونی رقم موجود ہے۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان کے محب وطن حلقے یہ واویلا کررہے ہیں کہ ملک کے بااثر طبقات نے اپنی بھاری دولت بیرون ملک منتقل کر رکھی ہے، ان کے کاروبار اور اولاد بھی بیرون ملک ہیں، پاکستان کے ساتھ ان کا صرف یہ مفاد وابستہ ہے کہ یہ یہاں حکومت کرنے کے لیے رہتے ہیں۔

اگر یہ لوگ ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں تو ضرور اپنی دولت کو پاکستان میں رکھیں، مکمل ٹیکس ادا کریں اور عوام کی غربت و بیروزگاری کو ختم کریں لیکن ان کو صرف اور صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے سے غرض ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ایک خاص طبقہ اس قدر امیر ہے کہ ان کے اثاثوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان میں 5 کروڑ 90 لاکھ سے زائد افراد خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہے۔

ملک میں سرمایہ دار و دولت مند گروہ غریب کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انسانی محنت کے تمام فوائد کو اپنی ذات تک محدود رکھے ہوئے ہیں اور دولت کے انبار لگا رہے ہیں لیکن اس کے مقابل عوام کی غالب اکثریت غربت کی نچلی سطح پہ ہے اور ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے انھیں اپنی زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کی فکر لاحق ہے۔ پاکستان میں سیاسی لیڈروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور امیرکلاس کے لوگوں کے لیے بدعنوانیوں کے وسیع میدان ہیں۔ پاکستان میں دولت، وسائل اور اقتدار پر ایلیٹ طبقہ قابض ہے جس کے نتیجے میں امیر اور غریب میں خلیج روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔

پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہوچکی ہے اور یوں ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ ملک کے شہری علاقوں کی 20 فیصد اور دیہی علاقوں کی 33 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ اسی طرح ملک کے 76 لاکھ گھرانے غریب قرار پائے جب کہ پہلے ان کی تعداد صرف 30 لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ مزید 2 کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غربت کے قریب قریب ہیں اور کوئی بھی سانحہ انھیں خط غربت کے نیچے دھکیل سکتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو۔ جو لوگ ٹیکس نہ ادا کرتے ہوں، وہ عوام کی خدمت کیا کرینگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔