کیوں ہیں ہم اتنے بد قسمت؟؟

شیریں حیدر  اتوار 17 اپريل 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں فیس بک پر ایک تراشہ پڑھ رہی تھی، ’’جرمنی کے ایک اسپتال میں داخل بوڑھے شخص نے اپنے ساتھ والے کمرے میں غیر معمولی آمد و رفت، سکیورٹی کے لوگوں کی بہتات اور عملے کا انتظام دیکھا تو اپنے پاس موجود اپنے ورثاء سے سبب پوچھا۔ بوڑھے کے ورثاء نے بتایا کہ اس کمرے میں مصر کے صدر حسنی مبارک کو ٹھہرایا گیا ہے جو کہ علاج کے لیے جرمنی آیا ہے۔ بوڑھے نے پوچھا کہ حسنی مبارک کتنے عرصے سے مصر پر حکمرانی کر رہا تھا، جواب ملا کہ وہ پچیس سال سے مصرکا صدر ہے ۔

بوڑھے نے کہا، ’’ یہ ایک مفسد، گندا اور کمینہ شخص ہے!‘‘ ورثاء نے حیرت سے پوچھا کہ اسے کیونکر علم ہوا کہ وہ ایک مفسد، گندا اور کمینہ شخص ہے۔ بوڑھے نے کہا، ’’ جو شخص اپنے پچیس سالہ دور حکومت میں اپنے ملک میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنوا سکا جس میں وہ خود اپنا علاج اعتماد کے ساتھ کروا سکے، اس شخص کا اپنے عوام کے ساتھ خلوص مشکوک اور اس کے انتظامی ، اصلاحی اور تعمیری کاموں میں کھوٹ ہے!!‘‘میں اس واقعے کو اس وقت اس لیے بیان کر رہی ہوں کہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہے، ہمارے ملک میں حکمران تو حکمران ، ان کے خاندان کے سب لوگ چھینک آنے پر بھی ملک سے باہر بھاگتے ہیں، صرف ابھی ہی ایسا نہیں ہو رہا ہے، یہ معاملہ ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے۔

کسی کے دانت میں درد ہو، کسی کی کمر میں چک پڑ جائے یا کسی کا دل تیز دھڑکنا شروع ہو جائے۔ لگ بھگ دس برس قبل ہمارے ایک صدر اپنے دل کے معائنے کے لیے ایک دن کے لیے امریکا کے دورے کے دوران غائب ہو گئے تو میڈیا میں جانے کس کس نوعیت کی افواہوں نے جنم لیا تھا، حال ہی میں وہ سابق صدر ہو گئے تھے مگر پھر بھی کمر درد کے علاج کے بہانے انھیں ملک سے باہر ، جانے کس قسم کے معاہدے کے تحت بھجوا دیا گیا ہے؟؟ ایک اور ’’ حاضر سروس‘‘ صدر صاحب کے خلاف مقدمات زور پکڑ گئے تو جس طریقے سے انھیں ائیر ایمبولینس کے ذریعے دوبئی منتقل کیا گیا، وہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ یوں بھی یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور انھوں نے اس ملک پر حکمرانی کرنے کی باریاں رکھی ہوئی ہیں۔

سو انتظار کرنے والے چند سالوں کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، جہاں ان کے عظیم الشان گھر ہیں، اثاثے ہیں، کاروبار ہیں اور مفادات ہیں۔یہاں مثالیں دینا شروع کر دوں تو سارے کالم کا پیٹ اسی سے بھر جائے گا، بلکہ اس سے بھی بڑا پیٹ درکار ہو گا۔ پھر میں نے فیس بک پر ہی وہ مبینہ ویڈیو بھی دیکھی جس میں سمندر پار بسنے والا ایک پاکستانی ہمارے ملک کے ’’ معزز ‘‘ وزیر اعظم کو طبی معائنے کے بعد باہر نکلتے دیکھتا ہے تو وہ اپنے غصے کا برملا اظہار کرتا ہے ، کیونکہ وہ ایک ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں پر وہ اس ملک کے وزیر اعظم سے بھی پرسش کرسکتا ہے… کیونکہ وہ اس ملک میں محنت مزدوری کر کے پیسے کماتا ہے، اس ملک میں بھی ٹیکس دیتا ہے اور اپنی کمائی میں سے جو کچھ وہ پاکستان میں بھیجتا ہے اس میں سے اس کے اہل خاندان ایک ایک چیز پر ٹیکس دیتے ہیں، سانس لینے کے علاوہ۔

وہ پوچھ سکتا ہے کہ کیا وہ ٹیکس اس لیے دیتا ہے کہ اس سے حکمرانوں کے خاندان پلیں، ان کے سکیورٹی گارڈ اور کتے پالے جائیں،ا ن کے دستر خوان پچاس پچاس کھانوں سے سجائے جائیں۔ جس شخص نے وزیراعظم صاحب پر تنقید کی اس پر میں اسے داد دیتی ہوں ، کاش ہم بھی سن لیتے کہ ہمارے وزیر اعظم نے بھی وہی کیا ہے جو آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے کیا تھا۔ مگر یہ سب ہمارا دیوانوں کا سا خواب ہے۔

ہم میں بہت بڑی بڑی برائیاں ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم ایسے حکمرانوں کو سہنے کے مستحق ہوں ؟ عوام اگر باشعور ہوں تو وہ چناؤ ہی ٹھیک طریقے سے کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں چناؤ کے وقت ووٹ چاولوں کی ایک پلیٹ کے عوض مل جاتے ہیں ، انھیں معلوم ہے اور انھوں نے ہمیں بھوکا اسی مقصد کے لیے رکھا ہوا ہے۔

اس ملک کے اصل مسائل ہیں، بھوک، بے روز گاری، افلاس، غربت، علاج معالجے کی ناپید سہولیات، دہشت گردی، عزت اور جان و مال کا عدم تحفظ۔ اسی لیے انھوں نے ہمیں ان مسائل میں ایسا الجھا رکھا ہے کہ ہم اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے، ہم ووٹ ان جھوٹے وعدوں پر دے دیتے ہیں کہ یہ ہمارے ان مسائل کو حل کردیں گے۔ جس دن انھوں نے اس ملک کے ایسے مسائل کو حل کردیا اس دن ان کا اسکوپ ختم ہو جائے گا۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دور میں ترقیاتی منصوبے بہت زیادہ ہوتے ہیں ، وہ مجھے جواب دیں کہ کوئی ایسا منصوبہ ہوتا ہے جس میں کمیشن وغیرہ نہ ہو۔کوئی ہے جو اس بات کا جواب دے سکے کہ لالچ کی حد کہاں تک ہوتی ہے؟ کوئی ترقی یافتہ ملک کے عوام ہوتے تو اب تک سڑکوں پر آ چکے ہوتے۔ … صد حیف! ہم وہ کمزور جانور ہیں جنھیں بھوک سے مرنا قبول ہیں مگر اپنے دنیاوی آقاؤں کے مفادات کے خلاف آواز اٹھانا منظور نہیں۔ ہم پر وہ شعبدہ باز مسلط ہیں جو اپنے ایک شعبدے پر ہمیں زیادہ دیر تک نظر نہیں ٹکانے دیتے۔

کسی کی پھانسی سے ملک کے حالات خطرے کی سرحد کو چھونے لگتے ہیں تو میڈیا کسی پکڑے جانے والے جاسوس کا غوغا مچا دیتا ہے، اس جاسوس کے معاملے پر حکمرانوں کی پراسرار خاموشی پر ہمارے دلوں میں سوالات اٹھ رہے ہوتے ہیں تو پانامہ لیکس آ جاتے ہیں، الزام تراشیوں کے سارے باب کھل جاتے ہیں، حکمران سرکاری ٹی وی پر اپنے خاندان کی صفائی دینا شروع کر دیتے ہیں اور جوابی الزامات سے اپوزیشن کو بھی ملوث قرار دیتے ہیں۔ چلو ایسا ہی سہی، اگر سب لوگ ان غلط کاموں میں ملوث ہیں تو آپ کرسی چھوڑیں اور ایک کمیشن بنائیں جو کہ سارے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، مگر آپ ایسا کیوں کریں گے؟؟ آپ کی تو کرسی داؤ پر لگی ہے، حزب اختلاف کے پاس کھونے کے لیے ہے ہی کیا؟؟

اب جو غوغا اٹھ رہا ہے وہ یہ ہے کہ علاج کی آڑ میں آپ ملک سے بھاگ گئے ہیں اور اگر فضا ( آپ کی خواہش کے مطابق) صاف ہو گئی تو آپ لوٹ آئیں گے … ورنہ آپ اپنے ہی کسی قریبی شخص کو وزیر اعظم نامزد کر کے جا چکے ہیں، یہ بھی شنید ہے کہ آپ لندن میں اپنے ان ’’ پیٹی بھائیوں ‘‘ سے رابطے کریں گے۔

کاش!!!! کاش!!!! کیا لکھوں اس کاش کے آگے، جب میں خود ہی سوائے اپنے گھر میں بیٹھ کر کڑھنے، اس نظام کو اور حکمرانوں کو گالیاں دینے، اس نظام کی ساری برائیوں کو من و عن قبول کرنے اور اس پر خاموش رہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی، کس طرح کہوں کہ کاش کوئی دیانت دار اور مخلص شخص اس ملک کی باگ ڈور کو ایک دفعہ تھام کر ہماری راہنمائی کر دے ، ہمیں راستہ دکھا دے، ایک چراغ جلا دے اور ہمیں اس سے کئی چراغ جلانے والا بنا دے… مگر ہم اس لیے بھی بدقسمت قوم ہیں کہ ہمارے ہاں کون ہے جو کسی کی طرف انگلی اٹھا کر اسے بد دیانت کہے تو اس کی باقی چار انگلیاں اس کی اپنی طرف اشارہ کر کے نہ کہہ رہی ہوں کہ تم اس سے چار گنا بڑے بددیانت ہو!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔