روزے کی فضیلت

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
’’روزہ صرف میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (القرآن)

’’روزہ صرف میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (القرآن)

ماہ رمضان فضائل و برکات والا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ اس بابرکت مہینے کی آمد کے لیے نبی کریم رجب و شعبان سے ہی دعا مانگتے تھے:’’یااﷲ! تو ہمیں رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان میں پہنچا دے۔‘‘

اس مہینے میں نبی کریم خوب سخاوت اور خوب خوب عبادت میں مشغول رہتے۔ رمضان کے مہینے میں رسول قیدیوں کو رہا کرتے اور کسی مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے۔

رمضان میں اﷲ رب العزت نے بے شمار انعامات، فضائل و برکات رکھی ہیں۔ اس مہینے کے روزے آخرت میں دوزخ سے ڈھال بنیں گے اور روزے دار کی سفارش کریں گے:’’اے اﷲ! دنیا میں ہم نے اسے کھانے، پینے اور دن کی خواہشات سے روکے رکھا۔ اس کے حق میں ہماری سفارش قبول فرما۔‘‘

پس روزے کی سفارش روزے دار کے حق میں قبول کی جائے گی۔

اﷲ رب العزت کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ صرف ایک مہینے کے روزے قیامت میں ہماری سفارش کریں گے جس دن ماں بیٹے کی نہیں، بیٹا باپ کا نہیں، غرض کوئی کسی کا نہیں ہوگا۔ سب نفسانفسی میں ہوں گے۔ اس وقت ہمارے نیک کام، روزے، قرآن کی تلاوت اور نماز ہماری سفارش کریں گے۔ اگر ماہ رمضان میں خاص ثواب کی نیت سے روزے رکھے جائیں اور اس کی راتوں میں قیام (تراویح) کیا جائے تو بہ فضل تعالیٰ پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ اﷲ کا ہم پر لطف و کرم ہے کہ پورے سال کے نہیں، صرف ایک ماہ کے روزے ہم اجر و ثواب کی نیت اور اﷲ کے احکامات کے مطابق رکھیں تو روز حشر یہی روزے ہمیں باب الریان میں داخل ہونے کی سفارش کریں گے۔

رمضان کے فضائل و برکات کا یہ عالم ہے کہ اس مہینے میں ہر نفل عبادت کا ثواب فرض عبادت کے برابر اور ہر فرض عبادت کا ثواب سات سو گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ رمضان کی راتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرنے پر ہر حرف پر سات سو گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔ یعنی الم پر تیس نیکیاں نہیں بلکہ اکیس سو نیکیاں ملیں گی۔ قرآن بھی روز قیامت ہماری سفارش کرے گا اور اﷲ رب العزت سے عرض کرے گا:’’اے اﷲ! رمضان کی راتوں میں، میں نے اسے نیند اور آرام سے روکے رکھا۔ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔‘‘ چناں چہ قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی۔

اگر ہم سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے صرف تیس دن خالص رضائے الٰہی کے لیے رمضان کے دن میں روزے رکھیں اور رات میں قرآن کی تلاوت کریں تو یہی روزہ اور تلاوت ہمیں دوزخ سے بچانے والی ڈھال اور جنت میں لے جانے ے کی ضمانت بن جائیں گے۔

اﷲ جل جلالہ جنت کو پورے سال رمضان کے لیے سجاتا رہتا ہے۔ رمضان کی پہلی رات کو اس کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ پھر ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:’’اے نیکی کرنے والے! متوجہ ہو نے کی طرف، اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے، برائی سے باز رہ۔‘‘ اﷲ پاک اس مہینے میں لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔ یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے۔ اس ماہ کی پہلی رات کو شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اﷲ کے نیک اور فرماں بردار بندوں سے اس بابرکت مہینے میں نافرمانی نہ کروائیں۔

قرآن حکیم فرقان مجید میں ارشاد ہوتا ہے:’’روزہ (کا ثواب تو اس سے بھی بالاتر ہے کہ روزہ) صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ دار اپنی خواہشات میری خوشی کی خاطر چھوڑتا ہے۔‘‘

اﷲ پاک روزے کے ثواب کو اپنے سے منسوب کر رہا ہے کہ روزہ دار اپنے رب کی رضا جوئی کی خاطر دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور جھوٹ، لڑائی، غیبت، چوری، گالی گلوچ اور اس طرح کے دیگر گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے، اس کے لیے اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ میں اسے آخرت میں اتنا اجر دوں گا کہ وہ شخص خوش ہوجائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک روزے دار کے منہ کی بو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔

اﷲ نے روزہ دار کے لیے دو خوشیاں رکھی ہیں ۔ ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت۔ یعنی رمضان میں اﷲ پاک اتنی برکت عطا فرماتا ہے کہ افطار کے وقت دسترخوان پر بے شمار نعمتیں رکھی ہوتی ہیں۔ اس وقت اﷲ رب العزت روزے دار کی دعائوں کو قبول بھی کرتا ہے۔ دوسری خوشی یہ کہ جب روزہ دار اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اس حال میں ہوگا کہ روزے اور قرآن کی سفارش کے بعد اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ پھر جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اﷲ رب العزت اسے اپنی رضا کا پروانہ عطا فرمائے گا اور اسے بہشت میں اعلیٰ و ارفع مقام ملے گا۔

یہ سب صرف رمضان کے روزے کی فضیلت ہے ۔ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر اس مہینے کا کوئی روزہ چھوڑ دیا تو اگر وہ پورے سال بھی روزے رکھے تو وہ رمضان کے ایک روزے کے ثواب کے برابر نہیں پہنچ سکتے۔
رمضان المبارک میں تین عشرے ہیں:

پہلا عشرہ ’’رحمت‘‘ دوسرا عشرہ ’’مغفرت‘‘ اور تیسرا عشرہ ’’جہنم سے نجات‘‘ کا ہے۔

پہلے عشرے میں کلمے کی کثرت کی جائے اور دوسرے عشرے میں استغفار کی۔ تیسرے میں عشرے میں جہنم سے آزادی کی دعا مانگی جائے۔

ویسے تو پورا رمضان المبارک ہی بہت برکتوں اور فضیلتوں کا حامل ہے، مگر اس کا آخری عشرہ زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ اس آخری عشرے میں شب قدر آتی ہے جو آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔ یہ اتنی بابرکت رات ہے کہ قرآن نے اسے ’’ہزار مہینوں سے بہتر‘‘ کہا ہے۔ اس رات جبرائیل امین فرشتوں کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور قطع تعلق کرنے والے، حاسد اور نافرمان اولاد کے سوا اس رات سب اہل ایمان کی بخشش کی جاتی ہے۔ رسول کریم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔

حضور نبی پاک کا ارشاد پاک ہے:’’شب قدر کو ان طاق راتوں میں تلاش کرو: اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں۔‘‘

جمہور علماء کے قول کے مطابق رمضان المبارک کی ستائیس ویں شب، شب قدر ہے۔

رسول اکرم  نے ارشاد فرمایا:’’رمضان کی آخری رات میں امت محمدیہ کی بخشش کی جاتی ہے۔‘‘

دریافت کیا گیا:’’اے اﷲ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟‘‘

اس کے جواب میں اﷲ کے حبیب نے ارشاد فرمایا:’’نہیں، لیکن کام کرنے والے کو (یعنی روزہ دار کو) اس کے کام کی پوری اجرت دی جاتی ہے، جب وہ اپنے کام کو پورا کرچکتا ہے۔‘‘ (یعنی روزوں کو مکمل کرچکتا ہے)
اﷲ پاک رمضان کی آخری رات کو روزے داروں کو ان کی محنت کا پورا پورا اجر دیتا ہے۔ اس رات کو ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

نبی پاک نے ارشاد فرمایا:’’یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا میں رحمت، درمیان میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے نجات ہے۔ اور جس کسی نے اس مہینے میں اپنے غلام (روزہ دار) سے کم کام لیا، اﷲ تعالیٰ اسے بخش کر دوزخ سے نجات دے دیتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔