پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہونا بھی کمال فن ہے

ساجد علی ساجد  بدھ 14 نومبر 2012
ساجد علی ساجد

ساجد علی ساجد

ہمارے ملک میں جب کوئی کرکٹر پہلی گیند کھیلتے ہوئے صفر پر آؤٹ ہوتا ہے اور اس پر لعن طعن کی جاتی ہے تو ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔

کیونکہ خاص ریسرچ اور عرق ریزی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہونا بھی ایک فن ہے جس میں ہر ایک کمال نہیں حاصل نہیں کرسکتا۔ ایک پرفیکٹ بیٹسمین ہی ایسا کرسکتا ہے۔یہ ہم ذاتی تجربے کی بنیاد پر بھی کہہ رہے ہیں، ہم نے لڑکپن میں تھوڑی بہت کرکٹ کھیلی ہے، بلکہ ایک میچ نیشنل اسٹیڈیم میں بھی کھیلا ہے، اس زمانے میں ہم پہلی گیند پر آؤٹ ہونے کی سرتوڑ کوشش کیا کرتے تھے تاکہ یہ سوچ کر کہ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے ، ہمارے بعد کے بیٹسمین کو زیادہ سے زیادہ اوورز کھیلنے کو مل جائیں گے۔

مگر آپ کو آج بتاتے ہوئے شرمندگی بھی ہوتی ہے کہ یا تو گیند ہمیں Beat کر جاتی تھی یا بیٹ کو ہلکا سا چھُوکر وکٹ کیپر سے بچتی ہوئی باؤنڈری لائن پار کرجاتی تھی اور چوکا ہوجاتا تھا۔ اگر گیند پیڈز سے ٹکراتی تھی تب بھی امپائر مخالف ٹیم کے کپتان سے سازباز کرتے ہوئے ہمیں آؤٹ نہیں دیتا تھا۔

پھرکافی عرصے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہونا بھی کوئی بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں ہے اس کے لیے بھی آپ کا ایک اچھا بلکہ غضب کا بیٹسمین ہونا ضروری ہے۔ مثلاً سب سے پہلے تو آپ اس طرح Beat ہوں کہ گیند اسٹمپ سے جاکر ٹکرائے ایک اچھا بیٹسمین ہی گیند کی ڈائریکشن کو جج کرسکتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ گیند اسے جُل دیکر اِدھر اُدھر نہیں جائے گی بلکہ سیدھی وکٹوں سے جا ٹکرائے گی۔اگر بیٹسمین گیند کو ہٹ کرتا ہے تو ایک اچھا اور پرفیکٹ بیٹسمین ہی اس طرح ہٹ کرسکتا ہے کہ گیند زمین پر ٹپہ کھائے بغیر سیدھی کسی ایسی فیلڈنگ پوزیشن پر جائے گی جہاں کوئی فیلڈر کھڑا ہے اس کے علاوہ گیند باؤنڈی لائن کے پار نہیں باؤنڈری لائن کے اندر گرے گی۔پھر ایک اچھا بیٹسمین ہی گیند کسی ایسی سمت میں اُچھالے گا جس کے بارے میں اسے یقین ہے کہ وہاں کوئی اچھا فیلڈر کھڑا ہے اور وہ کیچ نہیں کرے گا۔ یہاں ہم یہ بھی واضح کردیں کہ ہمارا اشارہ خدانخواستہ ہرگز ہرگز اپنی موجودہ کرکٹ ٹیم اور اپنے محبوب کرکٹرز کی طرف نہیں ہے ہم یہ باتیں محض ’’خبر لائنز‘‘ انداز میں محض تفریح طبع کے لیے لکھ رہے ہیں۔

پھر ہمارے کالم کے عنوان کے مطابق ہمارے اندر کے تھنک ٹینک کا یہ بظاہر عجیب و غریب Hypothesis غلط بھی ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی Benefit of Doubt حاصل کرنا ہر اچھے برے بیٹسمین کا حق ہے۔ ہمارا ملک اس لحاظ سے بھی بڑا خوش قسمت ہے کہ اسے ایسے کرکٹ سلیکٹرز میسر ہیں جو پہلی گیند پر آؤٹ ہونے کی قدروقیمت کو سمجھتے ہیں۔ ایسے بیٹسمینوں کے نام اور اہمیت کو پہچانتے ہیں ان کی افادیت جگہ گھیرے رکھنے والے ایسے بھاری پتھر کی سی ہے جو اس وقت تک ٹکے رہیں گے جب تک آپ کا اپنا بیٹا ان کی جگہ لینے کے قابل نہیں ہوجاتا۔

حیرت انگیز طور پر پہلی گیند کھیلتے ہوئے صفر پر آؤٹ ہونے والے بیٹسمین بے حد کامیاب ہیں اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں جس طرح خدا اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہوا اسی طرح سلیکٹرز بھی ان بیٹسمینوں سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ انہیں پتہ ہے آج یہ صفر پر آؤٹ ہورہے ہیں مگر ایک نہ ایک دن ضرور سنچری ماردیں گے۔ اتفاق سے ہمارے یہاں وہی کھلاڑی کامیاب ہیں جو یا تو پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوجاتے ہیں یا پھر سنچری اسکور کرتے ہیں، درمیان والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، اور یہ بات محض کرکٹ پر ہی نہیں زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی صادق آتی ہے۔

ایک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پہلی گیند پر آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں کے مقام اور مراعات میں کوئی فرق نہیں آتا، اپنے شائقین اور پرستاروں میں ان کی پذیرائی اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آتا، اپنے چاہنے والوں سے ان کی محبت کا رشتہ اتنا مضبوط اور گہرا ہے جس میں بڑی سے بڑی طاقت کوئی رخنہ نہیں ڈال سکتی، ان کا یہ رشتہ وابستگی اور چاہت فیلڈ میں ان کی کارکردگی سے ماورا ہے۔

درحقیقت یہ کھلاڑی اپنے پرستاروں کی امیدیں اور توقعات ختم نہیں ہونے دیتے اور اپنے چاہنے والوں کو اسی آس پر جینے دیتے ہیں کہ اگلی مرتبہ ضرور کچھ کر دکھائیں گے۔ ان کھلاڑیوں کا یہ رتبہ قائم رہنے کا ایک اور سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پرستاروں کو اکثر سنچری بنانے والے کرکٹرز سے زیادہ لطف اور تفریح فراہم کرتے ہیں کیونکہ دکھ اور مایوسی سے بھی ہمارے لوگ خاصا لطف حاصل کرتے ہیں ایسی ٹریجڈی فلمیں اور ڈرامے جس میں رونے دھونے کے سوا کچھ نہ ہو اکثر ہمارے ملک میں باکس آفس پر ہٹ ہوجاتے ہیں یہی حال ان کھلاڑیوں کا ہے جن کی باکس آفس ویلیو اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور لوگ ان کی کامیابیوں سے زیادہ ان کی ناکامیوں کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔

یہی حال پہلی گیند پر آؤٹ ہونے والے رہنماؤں کا ہے عوام میں جن کی مقبولیت کبھی ختم نہیں ہوتی عوام کی امیدیں تمنائیں اور توقعات اپنی جگہ قائم رہتی ہیں، عوام سے ان کا رشتہ بھی بے حد مضبوط اور گہرا، اور ان کی کارکردگی سے ماورا ہے، اب پتہ نہیں ہمارے رہنما زیادہ سمجھدار ہیں یا عوام زیادہ سادہ لوح۔ دونوں کی وابستگی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، اگر کوئی مقابلہ ہوتا بھی ہے تو فیصلہ اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ کون سا لیڈر پہلی گیند پر کیچ آؤٹ ہوا ہے اور کون سا پہلی گیند پر بولڈ ہوا ہے۔

جس طرح کھلاڑی تالیوں کی گونج میں کھیلنے جاتے ہیں، کریز پر پہنچ کر امپائر کی مدد سے اپنے کھڑے ہونے کی جگہ متعین کرتے ہیں جب وہ یہ سگنل دے دیتا ہے کہ وہ کھیلنے کے لیے تیار ہیں پھر بولر اپنے بولنگ کے نشان سے دوڑنا شروع کرتا ہے، بیٹسمین یا تو Beat ہوکر بولڈ ہوجاتا ہے یا وہ گیند پر اندھا دھند بلا گھماتا ہے اور کیچ آؤٹ ہوجاتا ہے جس طرح بیٹسمین گیند کی سمت اور لینتھ کو صحیح طور پر جج نہیں کرپاتا اسے دیکھنے والے تماشائی کمنٹیٹرز حضرات اور ماہرین بھی سوفیصد اس بات کا صحیح اندازہ نہیں لگا پاتے کہ بیٹسمین نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا بولر نے واقعی کوئی ایسی معرکۃ الآراء گیند پھیند دی ہے جو Unplayble تھی۔ کٹّر قسم کے پرستار اپنے محبوب کرکٹر کی ناکامی کا کوئی جواز تلاش کرلیتے ہیں۔ بہرکیف بیٹسمین کے کریز تک جانے اور پہلی گیند پر آؤٹ ہونے تک ایک خاص متاثر کن منظر تخلیق ہوجاتا ہے جس کا دنیا بھر میں لطف لیا جاتا ہے۔

ہمارے سمجھدار قومی رہنما بھی اس منظر کو خاصا پُرکشش اور طویل بناد یتے ہیں۔ عوام بھی یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کے رہنماؤں نے جو کچھ کیا یا نہیں کیا، جان بوجھ کر کیا ہے یا ان سے سرزد ہوا ہے، اکثر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مخالفین نے ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ ان کے محبوب رہنما کو کچھ کرنے ہی نہیں دیا، اس کے نتیجے میں عوام سے ہمارے رہنماؤں کی وابستگی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔