عمران کا روزہ

ایکسپریس اردو  ہفتہ 21 جولائی 2012
عمران کا روزہ

عمران کا روزہ

’’پیاری امی! اس رمضان میں مجھے روزہ رکھنے دیجیے گا ناں؟ میں پکا وعدہ کرتا ہوں، آپ کو بالکل تنگ نہیں کروںگا۔ نہ پانی مانگوںگا اور نہ کھانے کے لیے کہوںگا۔ اچھی امی پلیز!‘‘

عمران بہت دیر سے کچن میں روٹیاں پکاتی امی کے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ اس رمضان المبارک میں اسے روزہ رکھنے دیں۔ چوںکہ ابھی رمضان شروع ہونے میں کچھ دن تھے اس لیے وہ پہلے ہی سے امی کو تیار کررہا تھا۔

امی بولیں؛ ’’بیٹا! آپ بار بار ضد نہ کریں۔ ابھی آپ پر روزے فرض نہیں ہوئے کیوںکہ آپ صرف دس سال کے ہیں اور روزہ بارہ سال کی عمر میں فرض ہوتا ہے۔ جب آپ بارہ سال کے ہوجائیں گے تو آپ کو روزہ بھی رکھوا دیںگے۔‘‘

لیکن امی! ہمارے اسلامیات کے سر کہہ رہے تھے کہ ہمیں اس رمضان میں روزے رکھنے چاہیئں اس طرح ہمیں روزے رکھنے کی عادت ہوجائے گی۔‘‘

’’اچھا بھئی! رمضان شروع ہوگا تو دیکھا جائے گا۔ ابھی میرا دماغ خراب نہ کرو۔‘‘

امی نے جھنجھلا کر جواب دیا اور پھر سے روٹیاں پکانے لگیں۔ عمران چپ چاپ اپنے کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔

اس کی آنکھوں میں ننھے ننھے آنسو تیر رہے تھے۔ صحن میں تخت پر بیٹھی نانی جان یہ سب دیکھ اور سن رہی تھیں۔ جب عمران کی امی روٹیاں پکاکر فارغ ہونے کے بعد نانی جان کے پاس جاکر بیٹھیں تو تھوڑی دیر خاموشی کے بعد نانی جان نے پوچھا؛ آمنہ بیٹی! عمران کیا کہہ رہا تھا؟

ارے کچھ نہیں امی ! بس صبح سے دماغ خراب کیا ہوا ہے کہ روزہ رکھنا ہے۔ اب بتائیں مَیں اس کا روزہ کیسے رکھوا سکتی ہوں؟ امی نے سر جھٹکتے ہوئے جواب دیا۔

لیکن اس طرح سختی سے منع کرنے سے تو اس کا شوق ختم ہوجائے گا اور جب روزے فرض ہوں گے تو پھر شاید وہ رکھنے پر ہی تیار نہ ہو۔ نانی جان دھیمی آواز میں بولیں۔

امی! ابھی اسکول میں بہت پڑھائی ہورہی ہے اور رمضان المبارک میں تو ٹیسٹ شروع ہو جائیںگے۔ کہیں وہ پڑھائی کی طرف سے سُست نہ ہوجائے۔ آپ کو پتا ہے کہ وہ ہر ٹیسٹ اور امتحان میں پہلی پوزیشن لیتا ہے۔ یہ بات ہم جانتے ہیں۔ وہ تو بچہ ہے، نہیں سمجھ سکتا۔ پھر اسے بھوک بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتا ہے۔ امی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

نانی جان تھوڑی دیر تک امی کو دیکھتی رہیں پھر کچھ سوچ کر بولیں؛ آمنہ بیٹا! تمہیں شاید یاد ہوگا جب تم بہت چھوٹی تھیں اور تم پر بھی روزے فرض نہیں ہوئے تھے، تب بڑوں کو دیکھ کر روزہ رکھنے کی ضد کرتی تھیں۔ ذرا مجھے بتائو، میں نے اس وقت تمہیں کیسے روزہ رکھوایا تھا؟

امی خاموشی سے سوچنے لگیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اپنے بچپن کی یادوں میں کھوگئی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بولیں؛ جی امی! مجھے یاد ہے، آپ نے کہا تھا کہ بچے پورے دن کا روزہ نہیں رکھتے۔ تم عصر سے مغرب تک کا روزہ رکھ لو، جب بڑی ہو جائوگی تو پورے دن کا روزہ رکھنا۔ اور آپ عصر کی اذان سے پہلے مجھے روزے کی نیت کروا دیتی تھیں پھر جب دسترخوان پر سب کے ساتھ روزہ کھولنے کی دعا پڑھ کر کھجور اور افطاری کھاتی تھی تو مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میرا بھی بڑوں والا روزہ تھا۔ امی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

تو بیٹا! اس وقت تم بھی اسکول جاتی تھیں۔ تب بھی پڑھائی ہوتی تھی اور تمہیں بھی بھوک برداشت نہیں ہوتی تھی۔ عمران کی طرح اسکول سے واپس آتے ہی کھانا مانگتی تھیں۔ حالاںکہ اسلام میں اس طرح روزہ رکھنے کی کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں لیکن میں تمہارا شوق ختم نہیں کرنا چاہتی تھی اور اگر سختی سے منع کرتی تو تمہارا جذبہ کم زور پڑجاتا، اس لیے میں نے وہ طریقہ اختیار کیا تھا۔

نانی جان نے بات مکمل کرکے امی کی طرف دیکھا۔ تب امی شرمندہ سی آواز میں بولیں۔ واقعی امی! آپ نے بڑی سمجھ داری سے مجھے روزے کی عادت ڈالی تھی اور حیرت ہے، میں وہ سب کیسے بھول گئی۔ مجھے عمران کو بھی ایسے ہی سمجھانا چاہیے تھا۔

شاباش بیٹی! جائو عمران کو بلائو۔ ہم اسے سمجھاتے ہیں تاکہ اس کا ننھا سا دل ٹوٹ نہ جائے۔

نانی جان خوشی سے بولیں۔ امی اٹھ کر کمرے میں گئیں تو دیکھا، عمران خاموش بیٹھا تھا۔ انہوں نے اسے پیار سے اٹھایا اور نانی جان کے پاس لے گئیں۔ پھر اُسے اپنے بچپن کے روزے کا بتایا اور اس سے کہا کہ وہ بھی بچوں والا، عصر سے مغرب تک کا، روزہ رکھ لے پھر بڑا ہونے کے بعد پورے روزے رکھے۔

عمران یہ سن کر خوشی سے اُچھل پڑا اور بولا؛ پیاری امی اور نانی جان! میں انشاء اﷲ اسی طرح روزے رکھوںگا۔ اس طرح اﷲ میاں بھی مجھ سے خوش ہوں گے ناں؟

ہاں بیٹا! اﷲ تمہیں ہمت اور اجر عطا فرمائے گا۔ امی اور نانی جان ایک زبان ہوکر بولیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔