اب کیا کیا جائے

مقتدا منصور  پير 18 اپريل 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ہم بانی پاکستان کی 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کا حوالہ اکثر سیاسی امور کے ضمن میں دیتے ہیں۔ مگر انھوں نے مستقبل کے سماجی معاملات پر بھی بہت کچھ کہا تھا۔ خاص طور پر انھوں نے تین سماجی برائیوں بدعنوانی، رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی کا بالخصوص تذکرہ کیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سماجی برائیاں معاشرے کی اخلاقی تباہی کا باعث بنتی ہیں، جس کے براہ راست اثرات سیاست، معیشت اور سماجی تشکیلات پر مرتب ہوتے ہیں اور معاشرہ اپنے اصل اہداف کھو دیتا ہے۔ اس لیے انھیں خدشہ تھا کہ نوتعمیر پاکستانی معاشرہ ان برائیوں میں پڑ کر اپنی ریاست کے قیام کا اخلاقی جواز کھو سکتا ہے۔ ان کے خدشات درست تھے، کیونکہ پاکستانی معاشرے کو دیگر برائیوں کے علاوہ یہ تین برائیاں گھن کی طر ح چاٹ رہی ہیں۔

جب خود پرستی و خودنمائی کسی معاشرے میں گھر کر لے، تو وہاں انفرادی اور اجتماعی طور پر سیکھنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ انھیں اپنی ہر خامی خوبی نظر آنے لگتی ہے۔ پوری دنیا کمتر اور ہیچ محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہیں سے ترقی معکوس کا سفر شروع ہوتا ہے اور معاشرہ پستی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ برائیاں، جن کا بابائے قوم نے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اظہار کیا تھا، آج قومی شناخت بن چکی ہیں۔

اس کا ایک سبب یہ ہے کہ پاکستان کی نمایندگی عوام کے حقیقی نمایندوں کے بجائے وہ عناصر کر رہے ہیں، جن کا نہ تو اس ملک کی تشکیل میں کوئی کردار ہے اور نہ ہی کوئی Stake ہے۔ کیونکہ ان کا کاروبار، جائیداد اور املاک بیرون ملک منتقل ہو چکی ہیں۔ لہٰذا جب کسی فرد کا کسی ریاست میں کوئی Stake نہیں ہو گا، تو اسے اس ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا قومی وسائل کا بے دریغ تصرف اور بے دردی کے ساتھ لوٹ مار ہی اس کا مطمع نظر ہوتی ہے۔ یہی وہ بنیادی اسباب ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کے مسائل و مصائب میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان، برٹش انڈیا کے مسلم عوام کی اجتماعی دانش اور جدوجہد کا ثمر ہے، جنھوں نے یہ ملک اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے قائم کیا تھا۔ مگر عوام کی سوچ اور ان کے اہداف روز اول ہی سے سیاسی اشرافیہ اور تاج برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی کے طرز عمل سے بالکل مختلف رہے ہیں۔ عوام نے ہمیشہ ایک وسیع البنیاد ترقی دوست ریاست کی خواہش کی، جس میں ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ جب کہ بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس ملک پر تھیوکریسی مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اسی کھینچاتانی میں طالع آزما طبقات کو اپنے گل کھلانے کا موقع مل گیا، جنھوں نے اس ملک کو نہ تیتر رہنے دیا اور نہ بٹیر۔ یہاں مجھے ایوب خانی آمریت کے موقع پر لکھا گیا محسن بھوپالی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

نیرنگی سیاست دوران تو دیکھئے
منزل انھیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

خواندگی کی تشویشناک صورتحال، فیوڈل معاشرت کی گہری جڑیں اور اشرافیائی کلچر کی نظم حکمرانی پر مضبوط گرفت جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جمہوریت اچھی حکمرانی سے، جب کہ اچھی حکمرانی میرٹ، شفافیت اور احتساب سے مشروط ہوتی ہے۔ پاکستان میں اچھی حکمرانی کے ان تینوں اوصاف کو دانستہ پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ اس کے برعکس فرسودہ تصورات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یعنی انتظامی ڈھانچہ کو فعال بنانے کے بجائے اسے مزید نوآبادیاتی بنائے رکھنے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔

نظام عدل کی جگہ جرگہ کی روایات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اس روش اور رویے نے معاشرے میں دوہرے معیارات کو جنم دیا اور فکری تضادات گہرے ہوئے۔ ان فکری تضادات کی وجہ سے ایک طرف پرتشدد مذہبیت اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوا ہے، تو دوسری طرف کرپشن اور بدعنوانیوں کا راستہ کھلا ہے۔ اشرافیائی کلچراور مراعات یافتہ طبقات کی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کو چھپانے اور جھٹلانے کی جو روایت وطن عزیز میں چل رہی ہے، اس حوالے سے یہ شعر ذہن کو جھنجھوڑتا ہے:

دانستہ اہل زر کے چھپائے گئے گناہ
مفلس کا ہر اک عیب نمایاں کیا گیا

اس کی مثال یہ ہے کہ عام آدمی اگر گھر بنانے کے لیے حاصل کردہ قرضہ کی ایک قسط ادا نہ کر سکے، تو اسے مالیاتی اداروں کی جانب سے نوٹس جاری ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اشرافیہ قومی خزانے کو بے دریغ نقصان پہنچائے یا اربوں، کھربوں مالیت کے وسائل ہڑپ کر جائے، تو بات ذرایع ابلاغ پر میڈیا ٹرائل تک محدود رہتی ہے، عملاً ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جنھیں احتساب کرنا ہوتا ہے، وہ فارسی ضرب المثل ’’من تُرا حاجی بگوئم، تو مرا مُلا بگو‘‘ کے مصداق خود اسی اشرافیائی کلچر کا حصہ ہیں۔ اس لیے ان سے کسی غیر جانبدارانہ احتساب کی توقع عبث ہے۔

پانامہ لیکس کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں حکومتی منصوبہ ساز سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ اپنے مالیاتی نظام اور ٹیکس ڈھانچہ پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ نئے ٹیکس قوانین لانے کی بازگشت گونج رہی ہے، جب کہ پاکستان میں اس مسئلے کا صائب حل تلاش کرنے کے بجائے سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن حکومت گرانے کے درپے ہے، جب کہ حکمران جماعت کے حواری جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنے پر آمادہ۔ بلاشبہ پانامہ لیکس ایک سنگین معاملہ ہے، مگر اس سے کئی گنا زیادہ حساس اور سنگین مسائل اور بحرانوں سے یہ ملک گزر رہا ہے، مگر کسی کو ان مسائل اور بحرانوں کو قومی جذبہ کے ساتھ سمجھنے اور ٹھوس بنیادوں پر دیرپا حل تلاش کرنے کی توفیق نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمارے یہاں جوتیوں میں دال بٹنے لگتی ہے۔ کچھ دنوں جب کوئی نیا مسئلہ سر اٹھاتا ہے، تو پچھلا مسئلہ دب جاتا ہے اور نئی جوتم پیزار شروع ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بھی اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ کوئی نیا مسئلہ سامنے نہ آ جائے۔ ذرایع ابلاغ کو بھی ہر بار نئی چٹخارے والی چاٹ چاہیے، وہ بھی پچھلے مسئلے پر مٹی ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ہے ہمارے معاشرے میں مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کا طریقہ کار۔

دنیا میں وہی معاشرہ معتبر قرار پاتا ہے، جو دور اندیشی پر مبنی جرأت مندانہ فیصلے کرتا ہے اور حقیقت پسندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ پڑھ لیجیے۔ فیلڈمارشل منٹگمری برطانیہ کا قابل ذکر جرنیل تھا۔ اس نے افریقہ کے مغربی صحارا اور مصر میں جرمن جرنیل رومیل کو شکست دی، جو صحرا کی لومڑی (Fox of the Desert) کے لقب سے مشہور تھا۔

برطانیہ کے بادشاہ/ ملکہ کا ایک خصوصی فنڈ ہوتا ہے، جو خصوصی کارکردگی کے حامل کسی برطانوی کو دیا جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل منٹگمری کا مکان وسطی لندن میں تھا، جو جرمن طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔ فیلڈمارشل نے بادشاہ کو خط لکھا، جس میں اس نے برطانوی فوج میں اپنے کارنامے دہرانے کے بعد یہ استدعا کی کہ اس برس کا خصوصی فنڈ اسے عطا کیا جائے، تا کہ وہ اپنے گھر کی تعمیر نو کر سکے۔ بادشاہ کے سیکریڑی نے جواب میں جو خط لکھا، اس کا متن فکرانگیز ہے۔

اس نے لکھا کہ جن خدمات کا آپ نے تذکرہ کیا ہے، وہ آپ کی پیشہ ورانہ ذمے داری تھی، جس پر تاج برطانیہ کو آپ پر فخر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر مناسب موقع پر ترقی دی گئی اور تمغات و اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن اس کارکردگی کی بنیاد پر آپ کسی بھی طور اس خصوصی فنڈ کے حقدار نہیں ہیں۔ اس برس بادشاہ کا یہ خصوصی فنڈ کتے کے کاٹے کا ٹیکہ ایجاد کرنے والے لوئی پاسچر کو دیا گیا۔

یہی وہ زندہ قومیں ہیں، جو اپنی انھی اعلیٰ صفات کی وجہ سے دنیا کے بیشتر حصے پر حکمران رہی ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے ملک کے لیے متحرک اور فعال نظام حکمرانی ترتیب دیا، بلکہ اپنی نوآبادیات کو بھی پائیدار قوانین، عدل کا مربوط نظام اور فعال انتظامی ڈھانچہ دیا۔ آج برصغیر کے تینوں ممالک اور سری لنکا میں برطانیہ کے متعارف کردہ قوانین ہی مروج ہیں۔ ان ممالک کی کوئی بھی حکومت یا پارلیمان ان قوانین میںاب تک کسی قسم کی ردوبدل یا ترمیم و اضافہ نہیں کر سکی ہے۔ متذکرہ بالا ممالک کی سیاسی قیادتوں اور منصوبہ سازوں سے کسی نئے انتظامی ڈھانچے یا قوانین کا سیٹ مرتب کرنے کی کیا توقع کی جائے، جن میں اتنی بھی اہلیت و صلاحیت نہیں کہ انگریز کے متعارف کردہ نظام کو احسن طریقہ سے چلا سکیں۔

اب یہی دیکھئے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے قائم ہونے والا کمیشن سرد خانے میں پڑا ہوا ہے، جب کہ دیگر ان گنت کمیشنوں کی رپورٹس بھی فائلوں میں دبی ہوئی ہیں۔ اول تو ان رپورٹس میں کچھ نکلا نہیں، جو نکلا اس پر عمل کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ ایسی صورتحال میں ایک اور کمیشن اور پھر ٹائیں ٹائیں فش۔ ہم نہیں سمجھتے کہ موجودہ طرز عمل سے کسی قسم کی بہتری کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت کی بداعمالیوں اور بے اعتدالیوں کا تذکرہ نہ کرو تو حکومتی ایجنٹی کا الزام، اگر ان کی بری حکمرانی کا پردہ چاک کرو تو جمہوریت دشمنی کا الزام۔ گویا کسی طور چین نہیں۔ ایسے ماحول میں بیچارے عوام ہر رات اپنی زندگیوں میں بہتری کا خواب سجا کر سوتے ہیں، مگر جب صبح اٹھتے ہیں تو رات کو دیکھا خواب ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اب تو بجلی کے بحران نے بیچارے عوام کی آنکھوں سے نیندیں بھی چرا لی ہیں، تو خواب کیا دیکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔