- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
اَنا پَرست
عمران شروع ہی سے اپنے تمام بہن بھائیوں میں منفرد طبیعت کا مالک تھا۔ شوخ، چنچل، ضدی، ہٹ دھرم اور اَناپَرست ۔ چوںکہ وہ گھر میں سب سے بڑا تھا اس لیے ماں باپ اس کی ہر بات کو اہمیت دیتے۔ وہ بھی اپنی ذات کے آگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اس کے والدین اس کو بہت سمجھاتے کہ بیٹا! غرور، تَکبّر اور اَناپَرستی بہت بری چیز ہے لیکن وہ اُن کی نصیحت کا کوئی اثر نہ لیتا تھا۔ ان تمام خامیوں کے باوجود وہ بَلا کا ذہین تھا۔ اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دیتا تھا۔ وقت کے ساتھ اُس کی عادتیں اور بھی پختہ ہوگئیں۔
اپنی ذہانت، محنت اور تعلیمی کیریئر میں شان دار کامیابی کے بعد وہ بینک میں ایک اعلیٰ عہدے پر ملازم ہوگیا۔ زمانے کے حوادث نے بھی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی۔ وہ بدستور اپنے راستے پر چلتا رہا بلکہ اس کے غرور، تکبّر اور اَناپَرستی میں کچھ اضافہ ہی ہوگیا تھا۔
عمران چوںکہ اعلیٰ عہدے پر تھا۔ اُس کے پاس کار، کوٹھی اور دولت وغیرہ کی ریل پیل تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ دولت کے بَل بوتے پر سب کو خرید سکتا ہے۔ اس کی اِن عادتوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے تمام رشتہ داروں اور دوستوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے ماں باپ بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ وہ تنہا زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے پاس دولت، کار، کوٹھی سب کچھ موجود تھا لیکن نہیں تھا تو ایک سکون نہیں تھا۔ معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہ تھی۔ کوئی شخص اسے منہ لگانے کو تیار نہیں تھا۔ اب وہ اس زندگی سے بے زار ہوگیا تھا۔ وہ تنہائیوں میں سوچتا کہ یہ میری اپنے والدین کی نافرمانیوں کی سزا ہے۔ کاش! میں نے ماں باپ کا کہا مانا ہوتا تو آج اس حالت میں نہ پہنچتا جہاں میرے اپنے ہوتے ہوئے بھی میرے نہیں ہیں۔ میں نے غرور، تَکبّر اور اَناپَرستی میں سب کو کھودیا۔
دوستو! سچی بات یہ ہے کہ دولت سے خوشی کے چند لمحے تو خریدے جاسکتے ہیں لیکن دل کی خوشی سچی محبت نہیں خریدی جاسکتی۔ اَناپَرستی، غرور اور تَکبّر ہمیں نہ صرف خونی رشتوں بلکہ ہر ایک سے جدا کردیتا ہے۔
عمران آج اپنی کہانی سب کو سناتا ہے۔ نہ صرف سننے والے کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلتے ہیں بلکہ عمران کی آنکھیں بھی بھیگ جاتی ہیں۔ کیوںکہ یہ سننے والے کے لیے نصیحت اور سنانے والے کے لیے عبرت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ غرور، تَکبّر اور اَناپَرستی سے دور رہیں۔ ماں باپ کی نصیحت پر عمل کریں تو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں ہماری بھلائی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔